جنگ بندی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا، بھارتی حکام
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
بھارتی حکام نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں حالیہ جنگ بندی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا۔
بھارت کے 4 عہدیداروں نے برطانوی خبر ایجنسی سے گفتگو کی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے بعد کی صورتحال پر موقف پیش کیا۔
بھارتی حکام نے کہا کہ جنگ بندی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مذاکرات میزائلوں اور ڈرونز کے تلے نہیں ہوسکتے۔
حکام نے مزید کہا کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کیے گئے تمام فیصلے برقرار رہیں گے، جن میں تجارت اور ویزا پابندی بھی شامل ہیں۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گرد حملے کا بغیر کسی ثبوت یا تحقیقات کے پاکستان پر الزام عائد کیا اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان کی سلامتی کمیٹی نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو ایکٹ آف وار سے تعبیر کیا تھا۔
پاکستانی فضائی حدود ہر قسم کی پروازوں کےلیے مکمل طور پر بحال کردی گئی۔
اس کے بعد بھارت نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب آپریشن سندور کے عنوان سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں میزائل حملے کیے تھے، جس میں زیادہ تر شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ حملے کے دوران مساجد کہ بھی شہید کردیا گیا۔
پاکستان نے ہفتے کی صبح بھارتی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا اور بھارت کے ان فوجی مقامات کو ٹارگٹ کیا ،جہاں سے پاکستان پر حملہ کیا گیا تھا۔
بنیان مرصوص آپریشن کے بعد بھارت کو جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کا اعلان کیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت اور بھارت کے جنگ بندی کے کے بعد
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ’روس‘ کا شملہ اور لاہور معاہدوں کا ذکر کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
روسی سفیر البرٹ پی خوروف نے گزشتہ روز روسی سفارتخانے میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر شملہ معاہدہ اور معاہدہ لاہور کے تحت حل ہونا چاہیے۔
شملہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتا ہے، یعنی اقوامِ متحدہ یا کسی تیسرے ملک کی ثالثی کو خارج از امکان قرار دیتا ہے۔ جبکہ معاہدہ لاہور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر جامع بات چیت پر زور دیتا ہے۔
اگرچہ یہ پریس کانفرنس روس اور یوکرین کے تنازع پر پاکستانی میڈیا کو بریفنگ کے لیے منعقد کی گئی تھی اور ایسی بریفنگز کچھ عرصے سے جاری ہیں، لیکن ایک سوال کے جواب میں روسی سفیر نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے شملہ اور لاہور معاہدوں کا حوالہ دیا۔
مزید پڑھیں:یوکرین تنازع میں عدم مداخلت کے مؤقف پر پاکستان کے شکر گزار ہیں، روسی سفیر
مسئلہ کشمیر پر روس کا تاریخی مؤقف کیا ہے؟پہلگام واقعے کے بعد روس نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی۔ 4 اور 5 مئی کو روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے پاک بھارت وزرائے خارجہ سے الگ الگ بات کی اور دہشتگردی کے سیاسی حل کے لیے مدد کی پیشکش کی، بشرطیکہ دونوں ممالک آمادہ ہوں۔ روس نے شملہ معاہدے کے تحت دوطرفہ مذاکرات کی حمایت کی۔
1947، 1950، 1957 اور 1961 میں جب مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں زیر بحث آیا تو اُس وقت کے سوویت یونین نے بھارت کے مؤقف کی حمایت کی اور سلامتی کونسل میں پاکستان کی حمایت یافتہ قراردادوں کو ویٹو کیا، جو کشمیر میں ریفرنڈم یا بین الاقوامی مداخلت کا تقاضا کرتی تھیں۔ سوویت یونین کا مؤقف تھا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
البتہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین نے نسبتاً غیر جانبدار ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تاشقند معاہدہ (10 جنوری 1966) میں سوویت وزیرِ اعظم الیکسی کوسیگن نے پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کے درمیان مذاکرات کرائے۔ اس معاہدے نے جنگ کے خاتمے اور فوجی انخلا پر تو زور دیا لیکن کشمیر کے مستقل حل کے لیے کوئی ٹھوس تجویز نہ دی، البتہ دوطرفہ بات چیت پر حوصلہ افزائی ضرور کی گئی۔
مزید پڑھیں:شملہ معاہدے کی ‘خفیہ شق’ اور دائروں کا سفر
شملہ معاہدہ اور معاہدہ لاہور میں کیا تھا؟شملہ معاہدہ 1972 میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے تناظر میں ہوا جبکہ معاہدہ لاہور فروری 1999 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد طے پایا، جب دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
شملہ معاہدہ بھارت کے لیے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح سے ہٹا کر صرف پاک بھارت دو طرفہ فریم ورک تک محدود کردیا گیا۔ معاہدہ لاہور برابری کی سطح پر طے پایا اور اس میں دونوں ملکوں نے کشمیر سمیت تمام تنازعات پر جامع مذاکرات پر اتفاق کیا۔ تاہم اس کے فوراً بعد کارگل جنگ چھڑ گئی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔
گزشتہ کئی برس سے بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشتگردی پر بات ہوگی، سرحدی تنازعات پر نہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرکے یہ مؤقف مزید سخت کرلیا اور اب وہ صرف دہشت گردی یا پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر پر بات کرنے کی بات کرتا ہے۔
مزید پڑھیں:ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع
ظاہر ہوتا ہے کہ روس مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرتا ہے، سابق سفیر وحید احمدپاکستان کے سابق سفیر وحید احمد نے کہا کہ روسی سفیر کا بیان اہم ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرتا ہے اور ثالثی کی پیشکش بھی کر چکا ہے۔ تاہم ثالثی اُس وقت ناکام ہوتی ہے جب ایک فریق اسے ماننے سے انکار کر دے۔ بھارت ہمیشہ اس مسئلے پر بات چیت سے گریز کرتا آیا ہے، اس لیے روس زور دیتا ہے کہ دونوں ممالک اسے دوطرفہ طریقے سے حل کریں۔
بیان ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش لگتا ہے، سابق سفارتکار نغمانہ ہاشمیسابق سفارتکار نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ روسی سفیر کا بیان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے متنازع مسائل دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونے چاہئیں۔ چونکہ روس تاریخی طور پر بھارت کا اسٹریٹیجک اتحادی رہا ہے، اس لیے یہ بیان ایک طرح سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش بھی لگتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
البرٹ پی خوروف روس روسی سفیر شملہ معاہدہ لاہور معاہدہ مسئلہ کشمیر