ایران اور امریکا کے جوہری مذاکرات ختم، اگلا دور دونوں حکومتوں کی منظوری کامنتظر
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایرانی اور امریکی مذاکرات کاروں کے درمیان تازہ مذاکرات اتوار کے روز عمان میں مزید مذاکرات کی منصوبہ بندی کے ساتھ ختم ہو گئے، حکام نے بتایا کہ تہران نے واضح طور پر یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے پر اصرار کیا۔
اگرچہ تہران اور واشنگٹن دونوں نے کہا ہے کہ وہ دہائیوں سے جاری جوہری تنازع کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن وہ کئی ریڈ لائن پر گہری تقسیم کا شکار ہیں، جن سے مذاکرات کاروں کو ایک نئے جوہری معاہدے تک پہنچنے اور مستقبل میں فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے مذاکرات کاروں کو دوسرا راستہ اختیار کرناہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران امریکا مذاکرات: فریقین کا جوہری معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنے پر اتفاق
وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے مسقط میں عمانی ثالثوں کے ذریعے بات چیت کا چوتھا دور منعقد کیا، حالانکہ امریکا کی جانب سے عوام میں سخت موقف اختیار کرنے پر ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کا مؤقف مذاکرات میں معاون ومددگار نہیں ہوگا۔
ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق مذاکرات کا حالیہ دور پچھلے 3 ادوار کے مقابلے زیادہ سنجیدہ اور زیادہ سیدھا تھا، انہوں نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اب ہم ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آگے بڑھتے ہوئے مزید پیشرفت کریں گے۔
مزید پڑھیں:مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان
’… ایران کی یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت جاری رہنی چاہیے، اگرچہ اس کا دائرہ کار اور سطح تبدیل ہو سکتی ہے۔‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ اتوار کی ’براہ راست اور بالواسطہ‘ بات چیت 3 گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ ’ہم آج کے نتائج سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اپنی اگلی میٹنگ کے منتظر ہیں، جو مستقبل قریب میں ہوگی۔‘
مزید پڑھیں: دباؤ کے بغیرامریکا سے مذاکرات کو تیار ہیں، ایران
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی نمائندے اسٹیو وٹکوف کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی ریڈ لائن ’کوئی افزودگی نہیں‘ ہے، جس کا مطلب ہے کہ تخفیف، کوئی ہتھیار نہیں، اور اس کے لیے نتنز، فردو اور اصفہان میں ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ ایران کی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی پر سمجھوتہ کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا جدہ پہنچنے پر استقبال
’اس کے طول و عرض، پیمانہ، سطح، یا مقدار اعتماد سازی کے مقصد کے تحت کچھ حدود کے تابع ہو سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں کیا گیا تھا، لیکن افزودگی کا اصول بذات خود بات چیت کا پابند نہیں ہے۔‘
عمانی وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایران امریکا مذاکرات میں ’مفید اور اصل‘ خیالات شامل تھے، بات چیت کا اگلا دور دونوں فریقوں کے اپنی اپنی حکومتوں سے مشاورت کے بعد ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیو وٹکوف اصفہان افزودگی ایران ڈونلڈ ٹرمپ صدر ٹرمپ عباس عراقچی عمان یورینیم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیو وٹکوف اصفہان افزودگی ایران ڈونلڈ ٹرمپ عباس عراقچی یورینیم عباس عراقچی مذاکرات کا بات چیت کے لیے
پڑھیں:
امریکا بھارت دفاعی معاہدے کے بعد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-03-4
عارف بہار
امریکا اور بھارت تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں۔ نائن الیون کے بعد دو نوں ملکوں نے اس تعلق کو اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی شکل دے کر ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ جب دونوں ملک اپنے رشتوں کو نیا رنگ وآہنگ عطا کر رہے تھے تو اس وقت دونوں طرف جو سب سے مضبوط تعلق قرار دیا جا رہا تھا وہ مسلم شدت پسندی کا مشترکہ شکار اور ایک ہی طاقت کے مظلوم تھا۔ امریکا نائن الیون کا نیا نیا زخم کھائے ہوئے تھا تو بھارت کے دانشور امریکیوں کو یہ باور کر ارہے تھے کہ امریکا کا نائن الیون تو اب ہوا بھارت تو مسلم شدت پسندی کے ہاتھوں آئے روز نائن الیون سہتا چلا آرہا ہے۔ یوں تو بھارت اور امریکا کے تعلقات کاروباری اوردفاعی تھے مگر انہیں نظریاتی رنگ دینے کے لیے مشترکہ ظالم کے مشترکہ مظلوم کا افسانہ تراشا گیا۔ مظلومیت کے اس تعلق میں ایک تیسرا فریق بھی کھڑا کیا گیا جو اسرائیل تھا۔ یوں مظلوموں کی ایک مثلث تشکیل دی گئی۔ امریکا نے اسرائیل کے بعد بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک شراکت دار قرار دیا۔ خود ساختہ مظلوموں کی اس مثلث نے باقی سارا تعاون اسی نظریاتی بنیاد پر جاری رکھا۔
جب امریکا اور بھارت کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ ہو رہا تھا تو پاکستان کشکول اْٹھائے ایسے ہی دفاعی معاہدے کا مطالبہ کرتا پھر مگر امریکا نے ایک نہ سنی۔ پاکستان نے چین کی طرف لڑھک جانے کی دھمکی بھی دی مگر امریکا ٹس سے مس نہ ہوا۔ امریکا کا مجموعی تاثر یہی رہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلق حسب ضرورت رہے گا گویاکہ ڈالر لو اور کام کرو۔ جب جب امریکا کو کام کی ضرورت پڑے گی پاکستان کی ضروریات پوری کرکے وہ کام لیا جائے گا۔ اس کے بعد دونوں اگلی ضرورت کا انتظا رکرتے رہیں گے۔ اس مضبوط تعلق کے پس منظر میں صاف نظر آتا تھا کہ امریکا اور بھارت کی کشیدگی عارضی اور وقتی ہے۔ امریکا بھارت سے کچھ مطالبات منوانا چاہتا ہے جن کی تکمیل کے بعد دونوں کے تعلقات کا گراف واپس اپنی جگہ پہنچ جائے گا۔
ایک طرف صدر ٹرمپ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بانس پر چڑھا رہے تھے تو دوسری طرف نریندر مودی کی بینڈ بجا رہے تھے۔ یہ دونوں رویے ملکوں کے لیے نہیں شخصیات کے لیے مختص تھے۔ وہ پاکستان کی بطور ریاست تعریف کررہے تھے نہ بھارت کی بطور ریاست تنقیص کررہے تھے۔ دونوں جگہوں پر وہ افراد کے ساتھ دو مختلف رویوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آخر کار دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ گئی اور دونوں طرف سے دفاعی معاہدے کی باضابطہ تجدید کی گئی۔ امریکا کے وزیر خارجہ پیٹی ہیگتھ اور بھارتی وزیر خارجہ راجناتھ سنگھ نے اس دس سالہ دفاعی معاہدے کا اعلان کیا۔ دونوں طرف سے کہا گیا کہ دفاعی شراکت داری کو مزید بہتر بنانے علاقائی استحکام اور ڈیٹرنس کے لیے مل جل کر کام کیا جائے گا۔ راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کا غماز ہے۔ اس سے بھارت امریکا تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس معاہدے سے دو دن پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے نوید سنادی تھی کہ بھارت روس سے تیل کی خریداری کم کر رہا ہے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعد اب پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ یہ اصل سوال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نریندرمودی کی حالیہ ٹرولنگ سے ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب امریکا بھارت کے ساتھ یونہی فاصلہ بنائے رکھے گا اور اس کی محبتوں کی ساری بارشیں اب پاکستانیوں پر برستی رہیں گی۔ اسی تاثر سے مغلوب ہو کر پاکستان کے حکمرانوں نے صدر ٹرمپ کے لیے نوبل پیس پرائز کے حصول کو اپنا مقصد بنالیا۔ ٹرمپ اس انعام کے کتنے مستحق تھے یہ ’’جواز‘‘ غزہ کے کھنڈرات میں پنہاں تھا۔ غزہ کی بربادی کی مہم میں خود ٹرمپ کے بقول اسرائیل نے جس قسم کا اسلحہ طلب کیا امریکا نے فراہم کیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان کے حکمران صدر ٹرمپ کو سیلوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نوبل پرائز کا سب سے مستحق ترین انسان سمجھتے تھے۔ عین اسی ماحول میں امریکا بھارت معاہدہ ہوا تو ہماری کیفیت کچھ یوں تھی۔
میں نے کہا بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اْٹھا دیا کہ یوں
امریکا اور بھارت کے تعلقات کا پرنالہ واپس اپنی جگہ پر نصب ہوگیا ہے مگر پاکستان غیر ضروری طور پر امریکا کے ساتھ نئے عہدو پیماں کر بیٹھا ہے۔ امریکا کی وہ ضروریات اور خواہشات جن کا بوجھ پاکستان برسوں سے اْٹھانے سے ہچکچا رہا تھا اب اسے چار وناچار اْٹھانا ہی ہیں۔ مطالبات اور ڈومور کی یہ کہانی کسی ایک مقام پر ختم ہوتی تو اچھا تھا مگر یہ غیر مختتم کہانی ہے جو پاکستان کے علاقائی اور عالمی رول سے اس کی نظریاتی شناخت اور اس کے نام اور اسلامی آئین اور اس کی بہت سی دفعات تک پھیلتی نظر آرہی ہے۔