امریکا کے سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ اور تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے اتوار کو اعلان کیا ہے کہ چین کے ساتھ 2 روزہ مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کا مقصد امریکا کے تجارتی خسارے میں کمی لانا ہے۔ تاہم انہوں نے معاہدے کی تفصیلات سوموار تک مؤخر کر دی ہیں۔

بیسنٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات انتہائی مفید رہے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس پیشرفت سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ مذاکرات میں چینی نائب وزیر اعظم ہی لی فینگ اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔

دونوں امریکی عہدیداروں نے موجودہ بھاری ٹیرف چینی مصنوعات پر 145 فیصد اور امریکی مصنوعات پر چین کی جانب سے 125 فیصد محصولات کے خاتمے یا نرمی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ گریئر نے ان مذاکرات کو چینی شراکت داروں کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے امریکا کے 1.

2 ٹریلین ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ ٹیرف اور تجارت پر مذاکرات کو خوش آئند قرار دے دیا

یہ ملاقات صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا اور چین کے اعلیٰ حکام کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ یاد رہے کہ ٹرمپ نے فروری میں چین پر 20 فیصد نیا ٹیرف عائد کرکے عالمی تجارتی محاذ کھولا تھا، جس کے بعد اپریل میں یہ شرح 34 فیصد تک جا پہنچی اور بعد ازاں 145 فیصد ہو گئی۔

چین کی طرف سے مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ٹیرف میں کمی ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ نے جمعہ کو پہلی بار یہ عندیہ دیا کہ 80 فیصد ٹیرف مناسب معلوم ہوتا ہے، جو کسی خاص ہدف کی طرف پہلا اشارہ تھا۔

گریئر نے بتایا کہ جنیوا میں مذاکرات سے قبل کافی تیاری کی گئی تھی اور یہ معاہدہ امریکی قومی ہنگامی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا ہے جو تجارتی خسارے سے جڑی ہوئی ہے۔ چینی حکام اتوار کی شام جنیوا میں صحافیوں کو بریفنگ دینے والے تھے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کا چینی مصنوعات پر ٹیرف 80 فیصد تک لانے کا عندیہ

دوسری طرف، وائٹ ہاؤس کے معاشی مشیر کیون ہیسیٹ نے کہا کہ چین انتہائی سنجیدگی سے تجارتی توازن پر بات چیت کا خواہاں ہے، اور آئندہ چند دنوں میں دیگر ممالک کے ساتھ بھی تجارتی معاہدوں کا امکان ہے۔

صدر ٹرمپ نے ان مذاکرات کو دوستی پر مبنی مگر تعمیری قرار دیا اور سوشل میڈیا پر لکھا: “GREAT PROGRESS MADE!!!”

یہ مذاکرات جنیوا کے ایک پرتعیش ولا میں ہوئے، جو سوئٹزرلینڈ کے اقوامِ متحدہ کے سفیر کی ملکیت ہے اور جھیل جنیوا کے کنارے واقع ہے۔ سوئٹزر لینڈ نے غیر جانبدار میزبان کے طور پر کردار ادا کیا۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شِنہوا نے مذاکرات کو مثبت اور ضروری قدم قرار دیا جس سے اختلافات کم ہوں گے اور کشیدگی میں اضافہ روکا جا سکے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ٹرمپ ٹیرف چین خبر رساں ایجنسی شِنہوا سوئٹزرلینڈ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ٹیرف چین خبر رساں ایجنسی ش نہوا سوئٹزرلینڈ مذاکرات کو کے ساتھ

پڑھیں:

’امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، ایران یورینیئم کی افزودگی نہیں روکے گا‘

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک اہم خطاب میں واضح کیا ہے کہ ایران کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں، تاہم یورینیم کی افزودگی کا عمل کسی صورت نہیں روکا جائے گا۔ ایرانی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی اس تقریر میں رہبرِ اعلیٰ نے تین بنیادی نکات پر زور دیا: ایرانی قوم کا اتحاد، یورینیم کی افزودگی کا تسلسل اور امریکا کے ساتھ تعلقات کا مستقبل۔

خامنہ ای نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ نقصان دہ ہوں گے۔ کوئی بھی ملک دھمکی اور خطرے کے سائے میں مذاکرات نہیں کرتا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ دوسرا فریق وعدے توڑتا ہے، دھمکیاں دیتا ہے اور موقع ملنے پر قتل کا ارتکاب بھی کر لیتا ہے، اس لیے ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا ”خالص نقصان“ ہوگا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ دنیا میں 10 ممالک یورینیم افزودگی کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان 10 ممالک میں ایران بھی شامل ہے، باقی نو ممالک کے پاس نیوکلیئر بم ہیں، صرف ہم ہیں جن کے پاس نیوکلیئر بم نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا نیوکلیئر ہتھیاربنانے کا ارادہ بھی نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس نیوکلیئرافزودگی کی صلاحیت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ صرف ایران کی جوہری سرگرمیوں اور افزودگی کی بندش کی کوششوں کی صورت میں سامنے آیا، لیکن ایران اپنی ترقی اور خودمختاری کی راہ میں کوئی رکاوٹ قبول نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی ترقی کا راز مضبوط بننے میں ہے، ہمیں فوجی طاقت، سائنسی طاقت اور ریاستی طاقت کو بڑھانا ہوگا۔ جب ہم مضبوط ہوں گے تو دشمن کے خطرات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔‘

ایرانی سپریم لیڈر نے امریکی حکام کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا کہ ایران اپنی جوہری صنعت اور افزودگی بند کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایرانی عوام ایسے بیانات کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور جو بھی اس کا مطالبہ کرے گا، اسے تھپڑ رسید کریں گے۔‘

خامنہ ای کی یہ تقریر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی، جس میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران ’دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست‘ ہے اور اس کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ انہوں نے ایران کے رہبر اعلیٰ کو خط لکھا لیکن اس کے جواب میں دھمکیاں موصول ہوئیں۔

صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکا کے سوا دنیا کا کوئی ملک ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘ ان کا اشارہ حالیہ اسرائیل–ایران جنگ کے دوران نطنز، اصفہان اور فردو میں کیے گئے حملوں کی جانب تھا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے تاہم اس بات پر زور دیا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان کی تیاری کا کوئی منصوبہ ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جاری 12 روزہ جنگ کے دوران یہ ان کا چوتھا ٹیلی ویژن خطاب تھا، جس میں انہوں نے ایرانی عوام کو اتحاد اور مزاحمت کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے حقِ خودمختاری سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہوگا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر کتنا ٹیکس لیتی ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
  • امریکا کی نئی ویزا پالیسی بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے بڑا دھچکا
  • امریکی ٹیرف سے انڈیا کو کتنا نقصان پہنچا؟ ششی تھرور نے بتا دیا
  • ’امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، ایران یورینیئم کی افزودگی نہیں روکے گا‘
  • نیو یارک میں ایران اور یورپی ٹرائیکا کے درمیان مذاکرات کی تفصیلات
  • ترکیہ اور امریکا میں ایف 35طیاروں کے مذاکرات متوقع
  • ایف بی آر 3.6 کھرب کا سیلز ٹیکس خسارہ ختم کرنے میں ناکام
  • غزہ جنگ بندی کے بعد گورننس سے متعلق ٹرمپ کون سی تجاویز پیش کریں گے؛ تفصیلات سامنے آگئیں
  • پاک، سعودی دفاعی معاہدہ۔۔ ایک اور ایک گیارہ
  • علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں