حوزہ علمیہ قم کے استاد برگوار سے ملاقات میں آیت اللہ سید علی سیستانی نے فرمایا کہ حوزہ علمیہ قم کے بارے میں ہمارا نظریہ حوزہ علمیہ نجف سے مختلف نہیں ہے اور ہم حوزات کے لیے اپنی صلاحیت کے مطابق ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ مفسر قرآن حکیم اور حوزہ علمیہ قم کے استاد بزرگوار آیت اللہ جوادی آملی نے نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران آیت اللہ جوادی آملی نے تفسیر تسنیم کی 80 جلدیں اور آخری جلد اپنے ہاتھ سے آیت اللہ سیستانی کی خدمت میں پیش کی۔ آیت اللہ سید علی سیستانی نے اسے نہایت احترام اور خصوصی توجہ کے ساتھ قبول فرمایا۔  آیت اللہ سیستانی نے زیارات مقامات مقدسہ پر مبارکباد کیساتھ تفسیر تسنیم کو شیعوں کے لیے اعزاز قرار دیا اور کہا کہ آپ نے 40 سال قرآن کریم کے حضور محنت کیساتھ کوشش کی، یہ باعث افتخار ہے۔ آیت اللہ سید سیستانی نے فرمایا کہ اصول اور محور قرآن کریم ہے، اہل بیت (ع) کی احادیث کو قرآن کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور ان پر صرف اسی صورت بھروسہ اور عمل کیا جا سکتا ہے جب وہ قرآن کے مطابق ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ حوزہ علمیہ قم کے بارے میں ہمارا نظریہ حوزہ علمیہ نجف سے مختلف نہیں ہے اور ہم حوزات کے لیے اپنی صلاحیت کے مطابق ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہوں نے بھی اس ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا اور آیت اللہ جوادی آملی سے فرمایا کہ ہم نے آپ کی صفات اور آپ کے علمی کاموں کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن سننا کبھی دیکھنے جیسا نہیں تھا۔   آیت اللہ جوادی آملی نے بھی حضرت آیت اللہ سیستانی کی ممتاز شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ جیسی عظیم شخصیت کا وجود حوزات اور ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم نعمت ہے، آپ شیعوں اور عراقی عوام کے لیے ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح ہیں، ان شاء اللہ آپ کا سایہ قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ حوزہ علمیہ نجف بالواسطہ اور بالواسطہ، عالم اسلام کے لیے بہت سی برکات کا ذریعہ رہا ہے اور ہے، معاشرتی نظام کو برقرار رکھنے اور داعش جیسی تکفیری تحریکوں کا مقابلہ کرنے میں آپ کا کردار تاریخی اور دیرپا ہے۔ انہوں نے دونوں حوزات کے لیے آیت اللہ سیستانی کی گرانقدر خدمات کی قدردانی کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور حوزات کے درمیان زیادہ رابطے پر زور دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آیت اللہ جوادی آملی آیت اللہ سیستانی حوزہ علمیہ قم کے سید علی سیستانی آیت اللہ سید سیستانی نے فرمایا کہ حوزات کے انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

اسلام کا تصورِ جہاد

’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش، محنت و مشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ، اور تحفظ و دفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم جنگ اور محاربہ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’’جہاد فی سبیل اللہ’’ اور ’’قتال‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس جہاد کے فضائل، احکام، مسائل اور مقصدیت پر قرآن و سنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل و قتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت و فضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں۔ اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل و دانش کے نزدیک عقیدہ و مذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہؐ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ’’ساؤل بادشاہ‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام و تعلیمات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد آنحضرتؐ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طور پر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن و گمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے۔ اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل و گمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں، اس میں تعطل واقع نہ ہو۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ ’’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘۔
یہ فکر و فلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے، اور تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب و ادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات و مفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے، اور پوری دنیا میں ہر طرف جنگل کے قانون کا دور دورہ ہے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کا اللہ پر غیر متزلزل ایمان ہے
  • پاکستان کو 5 گنا بڑی فوج پر فتح مبین ملی: مفتی تقی عثمانی
  • نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کی روضہ امام علی علیہ السلام پر حاضری
  • صبروتحمل؛ ایک اعلیٰ انسانی قدر
  • وزیراعظم کا ہر سال 10 مئی کو یوم معرکہ حق منانے کا اعلان
  • اسلام کا تصورِ جہاد
  • اللہ رب العزت کا شکر، پاکستان کو سربلند کیا: نوازشریف
  • آیت اللہ جوادی آملی کی نجف اشرف میں امام علی علیہ السلام کے روضہ مبارک پر حاضری
  • آیت اللہ جوادی آملی کی نجف اشرف میں امام علیہ السلام کے روضہ مبارک پر حاضری