data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر روس اور چین نے ایک بار پھر اپنے واضح اور مشترکہ مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کے مسائل کو طاقت یا فوجی ذرائع سے سلجھانا ممکن نہیں اور ہر طرح کی پائیدار پیش رفت صرف سیاسی مکالمے اور سفارتی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان جمعرات کو ہونے والی فون کال میں دونوں عالمی رہنماؤں نے موجودہ کشیدگی خصوصاً ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

یہ رابطہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور کسی بھی نئی چنگاری کے بڑے تصادم میں بدل جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ روسی صدارتی معاون یوری اوشاکوف کے مطابق دونوں صدور نے اس پیچیدہ صورتحال کے پیش نظر فیصلہ کیا کہ ان کے متعلقہ ادارے اور سیکورٹی ایجنسیاں آئندہ دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گہرے روابط اور مسلسل معلومات کے تبادلے کو یقینی بنائیں تاکہ کسی بھی ممکنہ غلط فہمی یا اشتعال انگیز قدم سے بچا جا سکے۔

اوشاکوف نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں رہنماؤں کی گفتگو نہایت دوستانہ، تعمیری اور عملی نوعیت کی تھی، جس میں مشرق وسطیٰ کے تناظر میں آئندہ حکمت عملی کو زیر بحث لایا گیا۔ دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماسکو اور بیجنگ اس اصول پر قائم ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ معاملات کو صرف مذاکرات، سفارتی ذرائع اور باہمی احترام پر مبنی معاہدوں کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طاقت کا استعمال خواہ وہ کسی بھی فریق کی جانب سے ہو، نہ صرف مسئلے کو سلجھانے میں ناکام ہوگا بلکہ خطے میں ایک نئی اور غیر یقینی آگ بھڑکا سکتا ہے۔

روس اور چین دونوں نے اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات جو دوسرے ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو چیلنج کرتے ہیں، عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہیں۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اقوام متحدہ کو مشرق وسطیٰ کے معاملے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے لیے فوری اور مشترکہ سفارتی اقدامات کرے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے اپنی گفتگو کے دوران خاص طور پر اس بات پر روشنی ڈالی کہ روسی ثالثی خطے میں کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ روس جو ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ سفارتی روابط رکھتا ہے، اس پوزیشن میں ہے کہ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لا کر کسی ممکنہ معاہدے کی راہ ہموار کرے۔

اس تجویز پر روسی صدر پیوٹن نے بھی آمادگی ظاہر کی اور کہا کہ اگر حالات نے ضرورت پیدا کی تو ماسکو ثالثی کے کردار میں اپنا ذمہ دارانہ حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔

صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ حالت میں احتیاط، بردباری اور عقل مندی کی شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ روس خطے میں مزید خونریزی یا جنگ نہیں چاہتا بلکہ ایک ایسا ماحولیاتی نظام قائم کرنا چاہتا ہے جس میں تمام ممالک کو خودمختاری، سلامتی اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

اس موقع پر دونوں صدور نے ایک دوسرے کے مؤقف کو سراہا اور مستقبل میں بھی ایسے ہی روابط اور مشاورت کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اس بات پر

پڑھیں:

’پاکستان و ایران کے درمیان رابطہ خطے کی سلامتی کی ایک ضمانت ہے‘

پاکستان نے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے دوران تہران کو ہر بین الاقوامی فورم پر مکمل سفارتی حمایت فراہم کی۔ یہ بات ایران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے ایک خصوصی انٹرویو میں ایرانی خبر رساں ایجنسی مہر نیوز کو بتائی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایران کے قانونی دفاع کے حق کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عرب لیگ جیسے تمام بین الاقوامی فورمز پر کھل کر ایران کا مؤقف اپنایا۔

ایران اور پاکستان کے تاریخی تعلقات

سفیر مدثر ٹیپو نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان گہرے نظریاتی، تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتے ہیں، جن کی بنیاد مشترکہ سرحد اور عوامی روابط پر قائم ہے۔

دونوں ممالک کی شراکت داری علاقائی استحکام، معاشی ترقی اور مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے نہایت اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عظیم اقوام ہیں، ایران کی تہذیب ڈھائی ہزار سال پرانی ہے اور پاکستان 14 اگست 1947 کو معرضِ وجود میں آیا۔

دو طرفہ تجارت: چیلنجز اور مواقع

مدثر ٹیپو کے مطابق، ہر دو طرفہ تعلق میں چیلنجز بھی ہوتے ہیں اور مواقع بھی، لیکن وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ڈاکٹر محمود پزشکیان کی مسلسل دلچسپی ان تعلقات کو مزید وسعت دینے کا باعث بن رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ، اسحاق ڈار اور عباس عراقچی،  مستقل رابطے میں رہتے ہیں اور آئندہ ماہ مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس بھی متوقع ہے۔

توانائی اور تجارتی ترقی

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایران پر پابندیاں موجود ہیں، لیکن پاکستان ہمیشہ مواقع کو دیکھتا ہے اور دونوں ملکوں کے تاجر طبقے میں قریبی روابط موجود ہیں۔

پاک-ایران گیس پائپ لائن یا پاک-چین اقتصادی راہداری جیسے منصوبے سہ طرفہ تعاون (ایران، پاکستان، چین) کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ ان تینوں ممالک کے جغرافیائی اور آبادیاتی عوامل انہیں وسطی ایشیا، یورپ اور افریقہ سے جوڑ سکتے ہیں۔

افغانستان، سرحدی جرائم اور سلامتی

ایرانی اور پاکستانی اداروں کے درمیان منشیات کی اسمگلنگ، غیرقانونی نقل مکانی اور سرحدی جرائم سے نمٹنے کے لیے بھرپور تعاون جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت علاقائی سلامتی کے لیے مربوط حکمت عملی رکھتی ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا ایران ہماری سرحد سے متصل ہے اور اقوام متحدہ و او آئی سی جیسے عالمی اداروں میں ہم ہمیشہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا یا ایران جنگ میں داخل ہوا، ہم نے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ایران کے دفاع کے حق کی حمایت کی۔

اسرائیل کی حالیہ جنگ پر پاکستان کا مؤقف

مدثر ٹیپو نے کہا کہ پاکستان نے اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کی شدید مذمت کی، جبکہ کئی ممالک نے خاموشی اختیار کی۔

پاکستان نے ایران کے دفاع کے حق کی مکمل حمایت کی اور ہر بین الاقوامی فورم پر ایران کا ساتھ دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی قیادت کے درمیان قریبی رابطہ رہا۔

مستقبل کا تعاون

سفیر نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں پاک-ایران تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دو بار ایران کا دورہ کیا، جہاں ان کی ایرانی سپریم لیڈر اور صدر سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔

جنرل عاصم منیر کی ایران آمد اور فوجی سطح پر روابط بھی ان تعلقات کو مستحکم کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان رابطہ نہ صرف ان دو ملکوں کے لیے، بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے ایک ضمانت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی جارحیت کیخلاف پاکستان کی حمایت پر شکر گزار ہیں: ایرانی صدر
  • سعودی عرب کا اسرائیلی وزیر کی مسجد الاقصیٰ میں اشتعال انگیزی پر شدید ردعمل
  • اسرائیلی حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایرانی آرمی چیف
  • اسرائیلی جارحیت کیخلاف پاکستان کی حمایت پر دل سے شکر گزار ہیں:ایرانی صدر
  • اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھرپور حمایت پر پاکستانی قوم کا دل سے شکرگزار ہیں،ایرانی صدر مسعود پزشکیان
  • پاکستان دوسرا گھر ہے، اسرائیلی جارحیت کیخلاف حمایت پر دل سے شکر گزار ہیں، ایرانی صدر
  • اسرائیلی جارحیت جاری، غزہ میں امدادی مراکز پر حملے، 57 فلسطینی شہید
  • ’پاکستان و ایران کے درمیان رابطہ خطے کی سلامتی کی ایک ضمانت ہے‘
  • کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟
  • ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں