پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات، سی پیک میں شمولیت کا خیر مقدم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
انقرہ(نیوز ڈیسک)پاکستان اورافغانستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی، جس میں پاک افغان تعلقات پر گفتگو ہوئی۔ اسحاق ڈار نے افغان ہم منصب ملا امیرمتقی سے کہا اپریل کے بعد دو طرفہ تعلقات، تجارت میں بہتری آئی، انھوں افغانستان کا سی پیک میں شمولیت کا خیرمقدم کیا۔
پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور تجارت پر بات چیت کی گئی۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی سے ملاقات کے دوران کہا کہ اپریل 2023 کے بعد پاک افغان تعلقات اور تجارت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
اسحاق ڈار نے افغانستان کی سی پیک میں شمولیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو مزید مستحکم کرے گا اور علاقائی تعاون کو فروغ دے گا۔
ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے، تجارتی تعلقات میں اضافے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات کی اہمیت پر زور دیا۔
اس ملاقات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا تھا۔
مزیدپڑھیں:آسانی سے معاف نہیں کرتی، والد کو معاف کرنے میں 30 سال لگے:جیا علی
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاک امریکا تعلقات میں نئی پیش رفت
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، پاک فوج کے سربراہ نے دوران ملاقات امریکی صدر کو پاک بھارت جنگ کے حوالے سے آگاہ کیا جب کہ پاک، امریکا تعلقات، ایران اسرائیل جنگ پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں، فیلڈ مارشل کو جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ پاکستان اور بھارت سے دونوں سے تجارتی معاہدے پر بات چیت ہورہی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کا ایک اہم مرحلہ ہے، اس ملاقات کے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کے پسِ پردہ عوامل اور آیندہ ممکنہ نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ ایک بڑے اسٹرٹیجک بیانیے کا پیش خیمہ ہے جس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی، سفارتی تعلقات اور خطے کی جغرافیائی سیاست کے کئی پہلو شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں، جس میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں اور ڈرون حملے شامل تھے، امریکا کا ثالثی کردار ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو اس بحران کو ٹھنڈا کرنے میں کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کرنا غیر معمولی بات تھی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو بھی سراہنا اور امن کے لیے اس کی کوششوں کو سراہنا ایک متوازن سفارتی پیغام تھا، یہ بھی پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی عسکری قیادت کو امریکا ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہی عنصر اس ملاقات کو زیادہ اہم اور اثر انگیز بناتا ہے۔
اس ملاقات کے اقتصادی پہلو بھی انتہائی اہم ہیں۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام اس بات کا مظہر ہے کہ پاک فوج پاکستان کی اقتصادی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے معدنیات، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل فنانس کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کھل رہے ہیں۔ خاص طور پر کرپٹو منصوبے پاکستان کے لیے ایک نئی راہ ہموارکر سکتے ہیں، اگر ان منصوبوں میں شفافیت اور قانونی تقاضے پورے کیے گئے تو یہ پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت میں ایک اہم ملک بنا سکتے ہیں۔
انسداد دہشت گردی میں امریکی حمایت اور ٹیکنالوجی کا اشتراک پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے۔ خاص طور پر افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور داعش خراسان جیسی تنظیموں کے پھیلاؤ کے تناظر میں امریکا کے ساتھ انٹیلیجنس اشتراک بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس ملاقات پر تحفظات کا اظہار بھی متوقع ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کو امریکی پالیسی میں حاشیے پر رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور امریکا کے پاکستان سے براہِ راست فوجی سطح پر رابطے بھارت کے لیے باعث تشویش ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اقتصادی اصلاحات کو تیز کرنا چاہیے، اگر امریکا کے ساتھ تعلقات معاشی ترقی، روزگار، تعلیم اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے شعبوں میں فائدہ دے سکتے ہیں تو ان کے لیے راہیں ہموار کی جائیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان ملاقات پاکستان کو بین الاقوامی منظر نامے پر دوبارہ نمایاں کررہی ہے۔
یہ ایک موقع ہے کہ پاکستان خود کو ایک فعال، متوازن اور ذمے دار عالمی طاقت کے طور پر پیش کرے۔ پاکستان کے لیے اب وقت ہے کہ وہ ان بین الاقوامی رابطوں کو قومی ترقی، خارجہ پالیسی کی بحالی اور خطے میں امن کے فروغ کے لیے استعمال کرے۔ اگر ہم نے ہوشیاری، دور اندیشی اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ قدم اٹھائے تو یہ ملاقات ہماری تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔