پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک ہو گیا۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان کی سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے کی ذمے داری افغانستان پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان دوحہ امن معاہدے کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل میں اب تک ناکام رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے چمن بارڈر واقعے سے متعلق افغان دعوے بے بنیاد ہیں، ترجمان وزارت اطلاعات پاکستان افغانستان: ایک نازک موڑعطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ افغان عوام کے لیے خیر سگالی کا جذبہ رکھتا ہے اور ان کے لیے ایک پُرامن مستقبل کا خواہش مند ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان طالبان حکومت کے ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام یا پڑوسی ممالک کے مفاد میں نہ ہوں۔
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ پاکستان اپنے عوام اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات جاری رکھے گا۔
عطاء اللّٰہ تاڑر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیہ اور قطر کا شکریہ ادا کیا۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ استنبول میں پاک افغان مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں۔
سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی وفد وطن واپسی کے لیے تیار ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کہا کہ پاکستان کے لیے نے کہا
پڑھیں:
افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپ
تسنیم نیوز کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ پاکستانی افواج نے جمعرات کی شام صوبہ قندھار کے ضلع اسپین بولدک میں طالبان کی چوکیوں پر فائرنگ کی۔ ان کے بقول طالبان فورسز نے شہریوں کے تحفظ اور استنبول میں جاری مذاکراتی وفد کے احترام میں جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ میں بات چیت کے ساتھ ہی افغانستان کی سرحدی گزرگاہ اسپین بولدک ایک نئی مسلح جھڑپ ہوئی ہے۔ اگرچہ اس واقعے کے بارے میں دونوں فریقوں کے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں، تاہم مبصرین کے مطابق یہ جھڑپ امن مذاکرات کے لیے ایک نیا امتحان ثابت ہو سکتی ہے۔ تسنیم نیوز کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ پاکستانی افواج نے جمعرات کی شام صوبہ قندھار کے ضلع اسپین بولدک میں طالبان کی چوکیوں پر فائرنگ کی۔ ان کے بقول طالبان فورسز نے شہریوں کے تحفظ اور استنبول میں جاری مذاکراتی وفد کے احترام میں جوابی کارروائی سے گریز کیا۔
مجاہد کے مطابق یہ فائرنگ ایسے وقت میں ہوئی جب دونوں فریقوں نے گزشتہ مذاکراتی دور میں جنگ بندی میں توسیع اور اشتعال انگیزی سے اجتناب پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ مقامی باشندوں میں خوف و تشویش کا باعث بنا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی وزارتِ اطلاعات نے طالبان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائرنگ طالبان فورسز کی جانب سے شروع ہوئی تھی اور پاکستانی اہلکاروں نے صرف مناسب دفاعی جواب دیا۔ بیان کے مطابق، صورتِ حال جلد ہی قابو میں آ گئی۔ قندھار کے مقامی ذرائع کے مطابق، سرحد کے قریب شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں، اور متعدد شہریوں نے اپنے گھر چھوڑ دیے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں غیر مسلح شہریوں کو سرحدی علاقوں سے فرار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ جھڑپ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں طالبان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں۔ ماہرین کے خیال میں اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے معاملات پر گہری بداعتمادی اور اختلافات اب بھی برقرار ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، طالبان شاید میدانِ جنگ میں ضبط و تحمل کا مظاہرہ کر کے اپنی ایک زیادہ “سفارتی” شبیہ پیش کرنا چاہتے ہیں، جبکہ پاکستان اندرونی دباؤ میں ہے کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف سخت کارروائی کرے اور کابل سے اس ضمن میں عملی اقدامات کی توقع رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی جھڑپیں آتشبس کے تسلسل اور فریقین کے باہمی اعتماد کے لیے ایک امتحان ہیں، ایک ایسا عمل جو ابتدا ہی سے کمزور اور تناؤ سے بھرپور رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا باضابطہ دور ۶ نومبر سے استنبول میں شروع ہوا۔ طالبان وفد کی قیادت عبدالحق وثیق، سربراہِ عمومی استخباراتِ افغانستان، جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی عاصم ملک، سربراہِ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کر رہے ہیں۔ یہ مذاکرات، جو اس سے قبل دوحہ اور استنبول میں دو مراحل میں منعقد ہو چکے ہیں، کا مقصد جنگ بندی کو مضبوط بنانا اور سرحدی کشیدگی میں کمی لانا ہے۔