ماتلی: ٹریفک قوانین کی پامالی عروج پر، بیم لائٹس کا استعمال عام ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماتلی (نمائندہ جسارت)ماتلی شہر میں ٹریفک نظم و ضبط کی خلاف ورزیاں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں، خاص طور پر رات کے وقت تیز اور چمکدار لائٹس والی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور چنگچی رکشوں کا بے دریغ استعمال عوام کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ ان لائٹس کی تیز روشنی نہ صرف سامنے سے آنے والی گاڑیوں کی نظر کو متاثر کرتی ہے بلکہ ڈرائیوروں کی آنکھوں پر منفی اثر ڈال کر جان لیوا حادثات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ تیز لائٹس والی گاڑیاں، کوسٹرز اور موٹر سائیکلیں جب رات کے وقت مخالف سمت سے آتی ہیں تو ان کی چمکدار اور بعض اوقات نیلی، سبز یا سرخ رنگوں والی لائٹس کی وجہ سے دیگر ڈرائیوروں کو سڑک نظر آنا دشوار ہو جاتا ہے۔ بالخصوص وہ افراد جو چھوٹی گاڑیاں، رکشہ یا بائیک چلاتے ہیں، وہ اندھی روشنی کے باعث ایک لمحے کے لیے ویڑن لوس (Visibility Loss) کا شکار ہو جاتے ہیں جو کسی بڑے حادثے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔مزید برآں، شہریوں نے اس امر پر بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ بڑی گاڑیوں والے بعض افراد صرف اپنی برتری جتانے اور رعب بٹھانے کے لیے جان بوجھ کر لائٹس کو “ہائی بیم” پر رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ٹریفک شعور کی شدید کمی اور بد اخلاقی کی علامت بھی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی اس عمل میں پیش پیش ہوتے ہیں، جس سے ٹریفک آداب کی خلاف ورزی کا واضح پیغام جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
صحافیوں کے تحفظ کیلئے رائج قوانین و کمیشن پر ورکشاپ کا انعقاد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میرپورخاص (نمائندہ جسارت) میرپورخاص پریس کلب میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعلقہ قوانین اور کمیشن کے بارے میں ورکشاپ،کا انعقادکیا گیا جس میں صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تفصیلات کے مطابق میرپورخاص پریس کلب میں انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعلقہ قوانین اور سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے کمیشنوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے میرپورخاص پریس کلب میں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ورکشاپ میں تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آفتاب عالم ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان میں 2014 تک صحافیوں کے حوالے سے 110 قوانین بنائے گئے لیکن ان کے ذریعے صحافیوں کو تحفظ نہیں دیا جا سکا انہوں نے کہا کہ اس وقت صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک قانون وفاقی حکومت اور دوسرا سندھ حکومت نے نافذ کیا ہے جبکہ باقی تین صوبوں میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی قانون نہیں بنایا گیا انہوں نے کہا کہ سندھ میں نافذ صحافیوں کے تحفظ کا قانون براعظم ایشیا کا پہلا قانون ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی سطح پر بنائے گئے ایک قانون کے تحت کمیشن بنایا گیا ہے جس کے چیئرمین کا تقرر کیا گیا ہے باقی ممبران کا تقرر نہیں کیا گیا ہے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے بنائے گئے کمیشن کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا ہے اس کے ممبران کی تقرری بھی کر دی گئی ہے اور اب انہیں آفس بھی دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ کمیشن صحافیوں کے تحفظ کے لئے بہت با اختیار ہے جو صحافیوں کو دھمکیاں دینے والے لوگوں اور سرکاری اداروں کو بھی طلب کر سکتا ہے آفتاب عالم نے کہا کہ اگر کوئی صحافی ہراساں کئے جانے کے بارے میں آن لائن شکایت درج کروانا چاہتا ہے تو کمیشن اس کے لئے ایک ویب سائٹ بنائے جو ابھی تک نہیں بنائی گئی اور ساتھ ہی کمیشن کو اس کے اختیارات سے آگاہ کرنے کے لئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے اس موقع پر پریس کلب کے صدر نذیر احمد پنہور، سینئر صحافیوں سلیم آزاد، سید محمد خالد، شاہد خاصخیلی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کمیشن کا قیام احسن اقدام ہے لیکن نچلی سطح پر صحافیوں کو کمیشن کی کوئی اطلاع نہیں ملی جس کی وجہ سے متاثرہ صحافیوں کو کمیشن تک پہنچنا مشکل ہے۔