ایرانی میزائلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے، ایہود اولمرٹ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
عرب میڈیا کو انٹرویو میں امریکی صدر سے یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ وہ قابض اسرائیلی وزیراعظم کو جنگ غزہ کے خاتمے پر بھی مجبور کرے، سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ایران کو جوہری طاقت نہیں بننا چاہیئے! اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے غزہ کے خلاف جاری غاصب و سفاک صیہونی رژیم کی انسانیت سوز جنگ کے جلد از جلد خاتمے پر زور دیا ہے۔ عرب چینل الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ غزہ میں اغوا کئے گئے اسرائیلی (قیدیوں) فوجیوں کو واپس لایا اور غزہ کی پٹی کے لئے حماس سے آزاد، ایک مشترکہ حکومت قائم کی جانی چاہیئے نیز اسرائیلی سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالیں!
سابق اسرائیلی وزیراعظم نے بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کے اعلان کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہوئے تو نیتن یاہو کی کابینہ گر جائے گی جیسا کہ سروے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس آئندہ انتخابات جیتنے کا اچھا موقع ہے۔ رپورٹ کے مطابق سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ روکنے کے لئے دباؤ ڈالے گا جبکہ مَیں صدر ٹرمپ سے کہتا ہوں کہ وہ نیتن یاہو کو کہہ دے کہ "اب بہت ہو چکا" کیونکہ اسرائیلیوں کی اکثریت غزہ میں جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ایہود اولمرٹ نے کہا کہ ہم نیتن یاہو کو ہٹانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کریں گے تاہم غزہ اسرائیل کا حصہ نہیں اور میرا ماننا ہے کہ یہ جنگ غیر ضروری، بلا جواز، غیر قانونی اور کھلم کھلا جرم ہے! ایہود اولمرٹ نے صیہونی رژیم اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بارے کہا کہ وہ وجہ کہ جس کے باعث تل ابیب نے اس جنگ بندی کو قبول کیا ہے، یہ ہے کہ ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں میں بڑے پیمانے تباہی پھیلائی ہے تاہم ایرانی حکومت اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی چاہتی ہی نہیں۔ صہیونی سیاستدان نے یہ دعوی بھی کیا کہ ایرانیوں نے اسرائیلی صلاحیتوں کا انتہائی غلط اندازہ لگایا ہے کیونکہ کوئی ملک یا حکومت اسرائیل کو تباہ نہیں کر سکتی! ایہود اولمرٹ نے دعوی کیا کہ ہم امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے پر تیار کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ایران پر حملے اسرائیل اور اس کی فوج کے لئے ایک اہم کامیابی تھی جس سے خطے سمیت دنیا بھر میں ایران کی پوزیشن بری طرح سے کمزور ہوئی ہے! اپنی گفتگو کے آخر میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے دعوی کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم ایرانی عوام سے لڑنا نہیں چاہتے اور ہمارا مقصد ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سابق اسرائیلی وزیر نیتن یاہو کہا کہ ہم کہ ایران کے لئے
پڑھیں:
میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-01-20
واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ایران پر 13 جون کے حملے میں بہت حد تک خود انچارج تھے، یعنی حملے کی منصوبہ بندی اور آغاز میں ان کا براہِ راست کردار تھا۔امریکی صدر کا یہ بیان اْن کے پچھلے دعوؤں کے برخلاف ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے خود حملہ کیا تھا اور امریکا اس میں شامل نہیں تھا۔ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیل نے پہلے حملہ کیا، وہ حملہ بہت طاقتور تھا، میں اس کا مکمل
طور پر انچارج تھا، اس حملے نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو شدید نقصان پہنچایا۔ایران نے بعد میں اسرائیل پر سینکڑوں میزائل داغے اور اس کے بعد امریکا نے بھی ایران کے تین بڑے جوہری مراکز پر بمباری کی۔ابتدائی طور پر امریکی حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیل نے اکیلے کارروائی کی اور واشنگٹن نے تہران کو خبردار کیا تھا کہ وہ امریکی افواج کو نشانہ نہ بنائے، مگر اب ٹرمپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ابتدائی حملے کا فیصلہ بھی ان ہی کا تھا۔ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کی تباہی کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن کہا ہے کہ ان کے سائنسدانوں کے علم و تجربے کی وجہ سے پروگرام دوبارہ فعال رکھا جا سکتا ہے۔ٹرمپ نے ماضی میں خود کو امن کا حامی کہا تھا اور نئی جنگوں کے خلاف مہم چلائی تھی، مگر اب وہ ایران کے خلاف جنگ کی قیادت کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں ایران اسرائیل سے باضابطہ تعلقات قائم کرے، لیکن اس وقت مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔علاوہ ازیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ قازقستان نے باضابطہ طور پر معاہدہ ابراہیمی (Abraham Accords) میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔یہ اعلان وائٹ ہاؤس میں وسط ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا گیا، جس میں قازقستان کے صدر بھی شریک تھے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ قازقستان ان کی دوسری مدتِ صدارت میں معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ٹرمپ نے قازقستان کوشاندار ملک اورباصلاحیت قیادت رکھنے والی قوم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دنیا میں امن، تعاون اور خوشحالی کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم جلد مزید ممالک کو معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہوتے دیکھیں گے، جو مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی بنیاد بنے گا۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے بھی ایک روز قبل عندیہ دیا تھا کہ ایک اور ملک معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت کا اعلان کرے گا، جس کے تحت اسرائیل اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لائے جا رہے ہیں۔یاد رہے کہ معاہدہ ابراہیمی 2020 میں ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں طے پایا تھا، جس کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی رْک گئے ہیں، انہوں نے روس سے بڑے پیمانے پر تیل خریدنا بند کردیا ہے۔وائٹ ہاؤس میں گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ اچھی بات چیت ہو رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی میرے دوست ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ میں بھارت آؤں، آئندہ سال بھارت کا دورہ کرسکتا ہوں۔قبل ازیںقازق حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاملہ مذاکرات کے آخری مرحلے میں ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ابراہم معاہدوں میں ہماری متوقع شمولیت قازقستان کی خارجہ پالیسی کا ایک قدرتی اور منطقی تسلسل ہے جو مکالمے، باہمی احترام اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔قازقستان پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی اور اقتصادی تعلقات رکھتا ہے، اس لیے یہ اقدام زیادہ تر علامتی نوعیت کا ہوگا۔تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سفارتی تعلقات سے آگے کی ایک پیش رفت ہے، یہ ان تمام ممالک کے ساتھ ایک شراکت داری ہے جو اس معاہدے کا حصہ ہیں جس سے مختلف امور پر منفرد اقتصادی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں قازق صدر قاسم توقایف کے علاوہ کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے سربراہان سے بھی ملاقات کی کیونکہ امریکا روس کے زیرِ اثر اور چین کے بڑھتے اثر و رسوخ والے وسطی ایشیا کے خطے میں اپنا کردار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی کو شیطان خاتون قرار دے دیا، صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر نے کہا نینسی پلوسی شیطان عورت ہیں وہ ریٹائر ہو کر ملک کی خدمت کر رہی ہیں۔ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا‘میں خوش ہوں کہ وہ ریٹائر ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے ملک کے لیے ایک بہت بڑی خدمت کی ہے کہ وہ ریٹائر ہوں۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ وہ ملک کے لیے شدید بوجھ تھیں۔ میرے خیال میں وہ ایک برْی عورت تھیں جنہوں نے خراب کام کیے، اور ملک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ان کے الفاظ نے امریکی سیاسی منظرنامے میں ترو تازہ بحث کو جنم دیا ہے جہاں دونوں جماعتوں کے حریف رہنماؤں کے بیانات اور رویوں پر عوامی توجہ مرکوز ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے پلوسی کے دورِ قیادت کے دوران دو مرتبہ ان کے مواخذے (امپِیچمنٹ) کا ذکر کیا، ان کی کارکردگی پر سوال اٹھایا، اور ان کی ریٹائرمنٹ کو ملک کے مفاد میں ٹھہرانے کی کوشش کی۔پلوسی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب اپنی صدارتی نشست پر موجودگی نہیں بڑھائیں گی اور نوجوان قیادت کو آگے آنے کا موقع دیں گی۔پلوسی نے اپنے فیصلے میں وضاحت کی ہے کہ وہ 2027 ء تک اپنی نشست سن فرانسسکو سے برقرار رکھیں گی، مگر اب اس کے بعد اگلی مدت کے لیے امیدوار نہیں بنیں گی۔