اسلام آباد:سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔
تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کے لیے مداخلت کرتی رہی ہے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔ اس ایمرجنسی کے بعد کیے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کیے گئے۔

سلمان اکرم راجا نے مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا کہ ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قرار دے کر بحال کیا۔ الیکشن ایکٹ سیکشن 66 کے مطابق کسی بھی پارٹی کا امیدوار بننے کے لیے 2 اصول ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پارٹی ٹکٹ فائل کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا اس کا کوئی ثبوت ہو گا؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کوئی ثبوت ججمنٹ میں ڈسکس ہوا ہے؟۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کتنے امیدواروں نے مینشن کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ پیش کیا اس کے مطابق 39 نے مینشن کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں 39 آپ کی اس 80 کی لسٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ یا ثبوت عدالت کے سامنے پہلے نہیں تھے۔ وکیل نے کہا کہ میں نے وہ لسٹ اپنی سی ایم اے کے ساتھ فائل کی ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیکڑوں ڈاکومنٹس فائل کر سکتے ہیں، آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص پارٹی ٹکٹ فائل کرنے میں ناکام ہو وہ آزاد تصور ہو گا۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے 2013، 2018 اور 2024 کے عام انتخابات میں مخصوص نشستوں کے تناسب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے جتنی جنرل نشستیں لیں تقریباً اسی تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں، لیکن حالیہ عام انتخابات میں صورتحال مختلف ہے۔ خیبر پختونخوا میں 83 فیصد جنرل نشستیں لینے والی پارٹی کو صفر مخصوص نشستیں ملیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی سیاست دان کو آزاد الیکشن لڑنے سے کیسے روک سکتی ہے؟۔ فرض کریں عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمن پارٹی کے بڑے لیڈرز ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کہے ہم نے آزاد الیکشن لڑنا ہے تو ہم کیسے انہیں روک سکتے ہیں؟۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پارٹی نشان نہ ملنے سے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی لیکن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے کا حوالہ دیا، وہاں تو تسلیم شدہ حقائق تھے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 1985 کے انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نے کہا ہم عوام دوست جماعت ہیں۔ کیا آپ نے بھی ایسی کوئی اصطلاح متعارف کرائی، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہاں! ہم نے کپتان کا سپاہی کی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لگتا ہے پی ٹی آئی کے اندر کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے جن 39 اراکین اسمبلی نے سیاسی وابستگی پی ٹی آئی ظاہر کی وہ زیادہ عقل مند تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیادہ عقل مند تھے یا پھر زیادہ دباؤ برداشت کرنے والے تھے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کیخلاف آپ نے مکمل قانونی جنگ لڑی یا راستے میں سب چھوڑ دی؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے ادھوری نہیں چھوڑی، آپ الزام لگانا چاہیں تو بے شک لگائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا،ہم نے سوچا اب الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔ ہمیں الزام نہ دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپیل آپ فائل نہ کریں تو الزام کسے دیں پھر؟۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجا نے مندوخیل نے کہا کہ نے ریمارکس دیے مخصوص نشستیں نے کہا کہ ا سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی جسٹس جمال لگتا ہے کے بعد

پڑھیں:

کسی افسر کا مخصوص عہدے یا ایس ایچ او کا مخصوص تھانے پر تعیناتی کا حق نہیں، سندھ ہائیکورٹ

کراچی:

سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کسی افسر کا مخصوص عہدے یا ایس ایچ او کا مخصوص تھانے پر تعیناتی کا حق نہیں ہے، یہ انتظامی معاملہ ہے۔

احتجاج کے دوران تشدد کے الزام میں سابق ایس ایچ او اسٹیل ٹاؤن کی تبادلے کیخلاف درخواست سندھ ہائیکورٹ نے مسترد کردی۔

احتجاج کے دوران تشدد کے الزام میں سابق ایس ایچ او اسٹیل ٹاؤن علن عباسی کی تبادلے کیخلاف درخواست کی سماعت ہائیکورٹ میں  ہوئی، جہاں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل صفدر نے موقف دیا کہ محکمے میں تقرریاں و تبادلے متعلقہ حکام کا حق ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مقررہ وقت سے قبل تبادلے کے لیے جائز وجوہات کا ہونا ضروری ہے۔ ریکارڈ کے مطابق درخواستگزار کو 2 شوکاز نوٹس جاری ہوئے۔ درخواستگزار کیخلاف محکمانہ کارروائی بھی زیر التوا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آئی جی سندھ کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے برتاؤ کے حامل ایس ایچ او تعینات کریں۔ ایسے افسر کو تعینات کیا جائے جس کا ریکارڈ شفاف ہو۔ آئی جی سندھ عدالت کی ہدایات کو نظر انداز نہ کریں۔

عدالت نے قرار دیا کہ پولیس افسران کے تبادلے اور تقرریاں محکمے کا اندرونی انتظامی معاملہ ہے۔ کسی افسر کا مخصوص عہدے یا تھانے پر تعیناتی کا حق نہیں۔ حکام افادیت اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے تبادلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ صرف قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت مداخلت کرسکتی ہے۔

عدالت نے کیس میں ریمارکس دیے کہ درخواست گزار تبادلے سے متعلق کسی غیر قانونی اقدامات کو ثابت نہیں کرسکے۔ عدالت نے پولیس افسر کی تبادلے کیخلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے کی نقول آئی جی سندھ کو عملدرآمد کے لیے ارسال کرنے کی ہدایت کردی۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں 8 اپیلیں سماعت کے لیے مقرر
  • 9 مئی سے متعلق مقدمات: عمران خان کی 8 اپیلیں سماعت کیلئے مقرر
  • سپریم کورٹ:عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر
  • طبیعت ناساز، چیف جسٹس سپریم کورٹ کا اسلام آباد میں میڈیکل چیک اپ
  • سپریم کورٹ: بانی تحریک انصاف کی 9 مئی ضمانت اپیلوں کی سماعت کا شیڈول مقرر
  • کوئی نیلسن منڈیلا نہیں
  • کسی افسر کا مخصوص عہدے یا ایس ایچ او کا مخصوص تھانے پر تعیناتی کا حق نہیں، سندھ ہائیکورٹ
  • سپریم کورٹ؛بحریہ ٹاؤن کی حکم امتناع کی درخواست مسترد، وکیل کو ریفرنسز کی نقول جمع کرانے کا حکم 
  • پسند کی شادی پر قانونی کارروائی نہ کیا کریں، بری بات ہے: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ، بحریہ ٹاون کی نیلامی کیخلاف اپیلیں کل سماعت کیلئے مقرر