Juraat:
2025-09-18@17:15:19 GMT

سیاستدانوں کے نام پر ادارے

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

سیاستدانوں کے نام پر ادارے

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناح ہسپتال جو لاہور نہیں بلکہ پنجاب کا ایک بڑا ہسپتال ہے اور یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب ہے۔ گزشتہ روز اس کے ایک شعبے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کرکے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کے نام پر رکھ دیا گیا۔ خیر یہ تو کوئی بحث نہیں کیونکہ ہمیں اداروں کا علم ہے اور نہ ہی اپنے محسنوں کا احساس ہے۔ اصل بحث تو یہ ہے کہ آئے روز پیٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، غریب انسان بجلی کا بل ادا نہیں کرپا رہا اور نہ ہی وہ زندگی کی کسی سہولت سے مزہ لے رہا ہے، گدھے کی طرح کام کرنے والا ایک عام پاکستانی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم ،اچھی صحت اور اچھا کھانا کھلانے سے قاصر ہے جسکی وجہ سے بچوں میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے اور دوسری طرف عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والوں کے دفتروں ،گھروں اور گاڑیوں میں ہر وقت ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں۔ الیکشن سے پہلے بلاول بھٹو زرداری ،محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ، حمزہ شہباز شریف اور علیم خان کی طرف جو 2سو اور3سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کے وعدے اور دعوے بھی ختم ہو گئے اور لوگ بھی بھول گئے ۔شائد اگلے الیکشن میں یہی تقریریں پھر ہونگیں تب تک عوام کا کیا حشر ہوتا ہے اس بارے میں کسی کو کئی فکر نہیں۔ اگر فکر ہے تو حکمرانوں کو اپنے نام کی فکر ہے کہ ان کا نام ہر طرف نمایاں ہونا چاہیے۔ یہ کام صرف محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کے حصہ میں ہی نہیں آیا بلکہ ان سے پہلے بھی کئی حکمران ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ناموں کی تختیاں لگوائیں۔ یہ رجحان خاص طور پر انفراسٹرکچر کے منصوبوں، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور چوک چوراہوں پر دیکھا جاتا ہے۔
سب سے پہلے یہ کام ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹونے شروع کیے تھے ۔ان کے نام پر کئی منصوبے اور ادارے ہیں ۔بے نظیر بھٹو کے نام پر راولپنڈی کا جنرل ہسپتال، اسلام آباد ایئرپورٹ اور نواب شاہ ضلع کے نام رکھے گئے ہیں جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی ایک بڑا فلاحی منصوبہ ہے جو انہی کے نام سے منسوب ہے۔ نواز شریف کے نام پر بھی کئی عوامی مقامات، ہسپتال اور اسکول منسوب کیے گئے ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کے رہنما خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے نام پر بھی کئی منصوبے اور مقامات ہیں جیسے باچا خان چوک اور پشاور ایئرپورٹ کو بھی ان کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مردان میں ایک مجوزہ یونیورسٹی کا نام بھی عبدالولی خان کے نام پر رکھنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس پر سیاسی بحث بھی ہوئی تھی۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال (KTH) جو کہ کئی بار اپنا نام تبدیل کر چکا ہے۔ اسے ایک وقت میں حیات شہید ٹیچنگ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا تھا جو کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کے نام پر تھاماضی کی متحدہ مجلس عمل (MMA) کی صوبائی حکومت کے دوران خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں (جو کہ سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے دادا تھے) اور مولانا مفتی محمود ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان (جو کہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے والد تھے) جیسے ادارے بھی سیاسی شخصیات کے ناموں پر رکھے گئے۔ یہ رجحان پاکستان میں عام ہے کہ جو بھی اقتدار میں آیا یا لایا گیا اس نے اپنے ناموں کے ساتھ اداروں کو منسوب ضرور کیا۔ اب محترمہ مریم نواز نے اپنے نام کے ساتھ اداروں کو جوڑنا شروع کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پاکستان میں اداروں، شہروں اور شاہراہوں کے نام تبدیل کرنا کوئی ہماری پرانی عادت ہے مگر جب یہ تبدیلی کسی بانیِ پاکستان یا قومی علامت کے نام کو ہٹا کر کسی ایسی شخصیت سے کی جائے جس کی خدمات نہ تو عوامی سطح پر ثابت ہیں نہ قومی تاریخ میں تسلیم شدہ ہو توپھر یہ عمل محض مذاق بن جاتا ہے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جو اپنے نام میں بانیِ پاکستان کی جدوجہد، قربانی اور قومی وحدت کی علامت رکھتا ہے، اس کا نام ایک سیاسی شخصیت سے منسوب کر دینا کسی طور قابلِ فخر اقدام نہیں۔ ایسا شخص جس کا نہ طب سے کوئی تعلق ہے نہ تحقیق نہ تدریس اور نہ ہی کوئی قومی سطح پر کوئی قابلِ قدر کارنامہ ہو اس کے نام سے ایک بین الاقوامی معیار کے طبی ادارے کو منسوب کر دینا دراصل اداروں کو شخصی نمود و نمائش کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ اُس صوبائی حکومت کی جانب سے آیا جو 2024ء کے متنازع اور مشکوک مینڈیٹ کے ذریعے قائم ہوئی جس پر دھاندلی کے سنگین الزامات ہیں، ایسے میں اگر وہ خود کو بانی پاکستان کے متبادل کے طور پر پیش کریں تو یہ نہ صرف سیاسی غرور بلکہ قومی بے حسی کی انتہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمران طبقہ اپنی خود ستائشی میں حد سے بڑھا، عوامی شعور نے ان کی ان نشانیوں کو نفرت کا استعارہ بنا کر مٹا ڈالا ۔عراق کے صدام حسین کی مثال آج بھی ہمارے سامنے ہے جس نے ہر دیوار، ہر ادارہ اور ہر نوٹ پر اپنی تصویر اور نام چسپاں کر دیا تھا لیکن جب زوال آیا تو وہی دیواریں عوامی غصے کا ہدف بن گئیں۔ بالکل ایسی ہی صورتِ حال بنگلہ دیش میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں شیخ حسینہ واجد ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد حکومت میں آئیں مگر عوامی احتجاجی طوفان کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں۔آخر کار چند منٹوں میں انہیں فوجی تحفظ میں ملک سے نکلنا پڑا اور بھارت میں پناہ لینا پڑی، ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے عوام نے سڑکوں پر گرا کر مسمار کیے۔ کرنسی نوٹوں سے تصاویر ہٹا دی گئیں اور ریاستی بیانیے میں ان کی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب شخصیات ریاستی اداروں اور قومی تاریخ پر مسلط کی جائیں تو عوام دیر سے سہی مگر اپنا فیصلہ ضرور سناتے ہیں۔ پنجاب میں بیوروکریسی جان چکی ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اپنا نام، تصویر اور علامتی موجودگی ہر منصوبے ،ہر دیوار اور ہر کاغذ پر درکار ہے۔ اس لیے چاپلوسی اور خوشامد کا ایسا کلچر پنپ رہا ہے جہاں ہر ترقیاتی منصوبے کو "مریم نواز برانڈ” میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ سڑک ہو یاہسپتال، فلائی اوور ہو یا سستے آٹے کی تھیلی ہر چیز پرمحترمہ مریم نوازصاحبہ کی تصویر و نام نمایاں ہوتا ہے ،کیا یہی جمہوریت ہے ؟نام تو ان ہستیوں کے ہونے چاہئیں جن کی خدمات سے قوم نے فیض پایا ہو، پاکستان میں بے شمار مثالیں موجود ہیں، جہاں ادارے اور سڑکیں مستند خدمات انجام دینے والے مشاہیر سے منسوب کی گئی ہیں، جن میںمجید نظامی روڈ (سابقہ لارنس روڈ)جو آزاد صحافت، قومی بیانیے اور اصولی موقف کی پہچان تھے،علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ جوشاعرِ مشرق مفکرپاکستان کے نا پر ہے، جن کے تصور نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ قائداعظم جناح ٹرمینل بانیِ پاکستان کے نام سے منسوب بین الاقوامی ہوائی اڈہ،طفیل شہید روڈ نشانِ حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے بہادر سپاہی کی یادگار ہے۔ شیخ زید ہسپتال متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید بن سلطان النہیان کی مالی و طبی امداد کی بنیاد پران کے نام سے منسوب ہے ،سر گنگا رام اسپتال لاہور کے عظیم معمار و سماجی کارکن کے نام پر قائم ہے ،فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی مادرِ ملت کے نام سے منسوب خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا مرکزہے ۔
ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی شخصیت کے نام کو کسی ادارے سے جوڑنے کے لیے صرف سیاست دان ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس شخصیت کا عوامی خدمت، علمی، اخلاقی یا انسانی ترقی کے کسی شعبے میں نمایاں کردار ہونا ضروری ہے محض ایک انتخابی عمل سے اقتدار میں آنا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ قائداعظم کے نام کی جگہ اپنا نام لکھ دے۔ یہ محض ایک نام کی تبدیلی نہیں بلکہ قومی تاریخ کی تبدیلی ہے۔ اگر یہ روش جاری رہی تو آنے والی نسلیں قائداعظم کے نام سے واقف نہیں ہونگیں، بلکہ اُنہیں ایک ایسی تاریخ ملے گی جسے سیاسی مفادات اور ذاتی تشہیر کے رنگ سے دوبارہ لکھا گیا ہو گا ۔ادارے، نشانیاں، ورثہ اور نام محض تختیوں پر کندہ الفاظ نہیں بلکہ وہ قوموں کی شناخت ہوتے ہیں اور ان کی بے حرمتی دراصل قومی شعور کی توہین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: محترمہ مریم نواز کے نام سے منسوب نہیں بلکہ نواز شریف کے نام پر ان کے نام اپنے نام کا نام

پڑھیں:

مریم نواز نے میو ہسپتال میں پاکستان کے پہلے سرکاری کوآبلیشن سینٹر کا افتتاح کر دیا

میو ہسپتال لاہور میں پاکستان کے پہلے سرکاری کوآبلیشن سنٹر کا افتتاح کے موقع پر وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ کوآبلیشن مشین پر کینسر سیل کولیکوڈ نائٹروجن کے ذریعے منفی 198 ڈگری تک فریز کرکے ڈیڈ کیا جاتا ہے، دوسرے مرحلے میں کوآبلیشن مشین کے ذریعے کینسر سیل کو 83 ڈگری تک ہیٹ اپ کرکے ختم کیا جاتا ہے۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 60 سے 120 منٹ کے آپریشن کے بعد مریض چند ہی گھنٹوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کینسر کے علاج کے لئے نئی تاریخ رقم، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے دورہ چین کے شاندار ثمرات سامنے آنے لگے۔ پنجاب ساؤتھ ایشین ریجن میں کینسر ٹریٹمنٹ میں سبقت لے گیا، صوبہ پنجاب ساؤتھ ایشیا میں کینسر کے علاج کے لئے کو آبلیشن متعارف کرانے والا پہلا صوبہ بن گیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے میو ہسپتال میں پاکستان کے پہلے سرکاری کوآبلیشن سنٹر کا افتتاح کر دیا، مریم نواز نے میو ہسپتال میں سرجیکل وارڈ میں پہلی کوآبلیشن مشین کا معائنہ کیا۔ مریم نواز شریف نے پنجاب میں 5 مزید کوآبلیشن مشینیں منگوانے کا حکم جاری کیا اور کوآبلیشن کے لئے ڈاکٹرز اور سٹاف کا پول قائم کرنے کی ہدایت کی۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے کوآبلیشن کے لئے ماسٹر ٹرینرز کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت جاری کیں اور پہلے کوآبلیشن سینٹر کے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف سے ملاقات کر کے انہیں شاباش دی۔ مریم نواز نے کوآبلیشن ٹریٹمنٹ کے لئے جانے والے کینسر پیشنٹ سے بات چیت بھی کی، سینئر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر شہزاد کریم بھٹی نے کوآبلیشن مشین کی ورکنگ کے بارے میں بریفنگ دی۔ وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ کوآبلیشن مشین پر کینسر سیل کولیکوڈ نائٹروجن کے ذریعے منفی 198 ڈگری تک فریز کرکے ڈیڈ کیا جاتا ہے، دوسرے مرحلے میں کوآبلیشن مشین کے ذریعے کینسر سیل کو 83 ڈگری تک ہیٹ اپ کرکے ختم کیا جاتا ہے۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ 60 سے 120 منٹ کے آپریشن کے بعد مریض چند ہی گھنٹوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے، کوآبلیشن مشین پر ایک مریض کے علاج میں تقریباً 16 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ کوآبلیشن مشین کے ذریعے جگر، پھیپھڑے اور بریسٹ کینسر کا ابتدائی طور علاج کیا جا رہا ہے۔ مریم نواز شریف نے کوآبلیشن ٹریٹمنٹ کے بعد صحت یاب ہونے والے پہلے 5 مریضوں سے ملاقات کی، رانا محمد اصغر اور دیگر مریضوں نے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا اور انہیں محسن قرار دیا۔ رانا محمد اصغر کے جگر میں موجود کینسر کوآبلیشن مشین کے ذریعے ٹریٹ کیا گیا، رانا محمد اصغر، محمد اکرم، مس پروین اور اقبال بانو کوآبلیشن کے ذریعے کینسر ٹریٹمنٹ کرانے والے پہلے 5 مریضوں میں شامل ہیں۔ سینئر انٹر وین شینل ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر شہزاد کریم بھٹی بائیو انجینئر اور ٹیکنیشن چین سے ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں، اس موقع پر وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو ینگ ڈاکٹرز نے شعبہ صحت میں شاندار اقدامات پر مبارکباد دی۔

متعلقہ مضامین

  • چمن بارڈر کے قریب پارکنگ میں دھماکا، 5 افراد جاں بحق
  • مریم نواز نے میو ہسپتال میں پاکستان کے پہلے سرکاری کوآبلیشن سینٹر کا افتتاح کر دیا
  • اسلام آباد میں اولمپئین ارشد ندیم کے نام سے شاہراہ منسوب کرنے کا فیصلہ
  • جعلی دستاویزات پر بیلجیئم جانیوالے 2 افراد لاہور ایئر پورٹ سے گرفتار
  • غزہ میں ہسپتال تباہی کے دہانے پر، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ
  • برطانیہ کا رواں ہفتے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا امکان
  • قانون نافذ کرنے والے ادارے ملکر دہشت گردوں کا قلع قمع کررہے ہیں، آئی جی خیبرپختونخوا پولیس
  • مدینہ ایئرپورٹ کی مرکزی شاہراہ کا نام ولی عہد محمد بن سلمان سے منسوب کرنے کا فیصلہ
  • تمام صوبے و ادارے سیلاب سے نقصانات کا تفصیلی تخمینہ لگائیں: وزیرِ اعظم شہباز شریف
  • خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ