پشاور(نیوز ڈیسک)گورنر خیبرپختونخوا اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان گورنر ہاؤس پشاور میں خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کو ملاقات کا یہ موقع چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کی حلف برداری کی تقریب کے دوران ملا۔

تقریب کے بعد ہونے والی ملاقات میں وفاقی وزیر امیر مقام بھی شامل ہو گئے۔ ملاقات کے دوران ماحول خوشگوار رہا، اور تینوں رہنماؤں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔

خیبر پختونخوا میں بڑی ڈویلپمنٹ

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی، وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس عتیق شاہ اور وفاقی وزیر امیر مقام کی ملاقات

چیف جسٹس کی حلف برداری کے بعد علیحدہ ملاقات انتہائی اہم ہے pic.

twitter.com/pCiy3jAQl2

— Muhammad Faheem (@MeFaheem) July 8, 2025

میڈیا رپورٹس کے مطابق ملاقات میں صوبے کی سیاسی صورتحال پر ہلکے پھلکے انداز میں طنز و مزاح بھی کیا گیا۔ ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینے والے گورنر اور وزیراعلیٰ نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی، جس پر امیر مقام نے دونوں کے خوشگوار موڈ پر ’ماشاءاللہ‘ کہا، اور تینوں رہنما ہنس پڑے۔

اس موقع پر امیر مقام نے کہاکہ آپ دونوں کو اچھے موڈ میں دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، جس پر گورنر کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ میرے مہمان ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں گورنر خیبرپختونخوا کی جانب سے صوبائی حکومت سے متعلق بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ بھی گورنر کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔
مزیدپڑھیں:اڈیالہ کے باہر نئی سڑک پر گھڑی نصب، ’یہ کس کی یاد دلاتی ہے‘

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

ججز کمیٹی نے قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیے

اسلام آباد:

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ  2023 کے تحت قائم کردہ کمیٹی نے نئے پروسیجرز اپناتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس  کے عہدے کو غیر مؤثر کر دیا۔ یہ کمیٹی جس کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کر رہے ہیں اور جس میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں، نے 29 مئی کو نیاپروسیجر بنایا۔ 

اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن رجسٹرار محمد سلیم خان کی طرف سے جاری کیا گیا  جو اس ہفتے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا گیا ہے۔  نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ  2023 ہنگامی حالات اور چیف جسٹس کے بیرون ملک ہونے کی صورت میں بہت سے معاملات سے نمٹنے کے لیے جامع نہیں ہے، اس لیے اسے ریگولیٹ کرنا اور خلا پر کرنا ضروری ہے۔

ایکٹ کے سیکشن 2 کے ذیلی سیکشن 2 کے تحت کمیٹی نے اپنے فرائض کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک طریقہ کار بنایا ہے جسے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ) کمیٹی پروسیجر 2025 کہا جائے گا اور یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔ شق 1 میں کہا گیا کہ چیئرپرسن، یعنی چیف جسٹس بنچوں کی تشکیل  کے لیے جب ضروری ہو، کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گے جو فزیکل یا ورچوئل ذرائع سے ہو سکتا ہے۔

شق 2  کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کا کورم برقرار رکھنے کے لیے کم از کم دو ارکان ضروری ہیں۔ شق 4 میں کہا گیا کہ کمیٹی جب ضرورت ہو بنچوں کی باقاعدگی سے تشکیل  کریگی جو  ترجیحاً ماہانہ یا پندرہ روزہ بنیادوں پر ہوگا، بنچز کو ایک بار حتمی شکل دے دی گئی تو ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، سوائے اس کے کہ طریقہ کار کے تحت اجازت دی جائے۔

کمیٹی کی تشکیل میں کسی تبدیلی سے بنچوں کی حتمی تشکیل کو غیر قانونی  قرار نہیں دیا جا سکے گا  شق 5 کے مطابق جب بھی چیئرپرسن،  بیرون ملک ہو یا اجلاس کی صدارت کے لیے دستیاب نہ ہو، وہ بنچوں کی دوبارہ تشکیل سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے سکے گا اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو، جیسے  جج کی اچانک بیماری، غیر موجودگی، وفات، یا جج کا کیس سے الگ ہونا، خصوصی کمیٹی صرف ہنگامی حالات تک محدود ہوگی اور  وہ اپنے فیصلے کی وجوہات تحریری طور پر ریکارڈ کریگی۔ ایسی عارضی تبدیلی کو کمیٹی کے اگلے اجلاس میں رپورٹ کیا جائے گا۔  

شق 8  کے مطابق  کمیٹی ضرورت کے مطابق اس طریقہ کار میں ترمیم کر سکتی ہے۔  کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نئے جاری کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی پروسیجر 2025 کی شق 5 آئینی دفعات کے منافی ہے اور اس طریقہ کار کا مقصد قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کو غیر ضروری بنانا ہے۔  

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہد جمیل نے کہا کہ  رول 5 آرٹیکل 180 کے ساتھ متصادم ہے، جو قائم مقام چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ہے۔ کچھ قانونی ماہرین نے کہا کہ  کمیٹی کو یہ خصوصی اختیار حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سے کیسز آئینی بنچوں کو فیصلے کے لیے بھیجے جائیں گے۔ 

تاہم چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کمیٹی غیر فعال ہو چکی ہے کیونکہ بنچوں کی تشکیل کے لیے باقاعدہ اجلاس نہیں ہو رہے۔  ذرائع نے  بتایا کہ جب سے جسٹس آفریدی نے عہدہ سنبھالا ہے، عملی طور پر کوئی کمیٹی اجلاس نہیں ہوا۔ شاید صرف ایک اجلاس 29 مئی کو ہوا تھا جس میں پروسیجر کو کمیٹی کے ارکان نے منظور کیا تھا۔ 

ذرائع نے کہا کہ کیسز کو کس طرح مارک کیا جا رہا ہے اور بنچوں کی تشکیل کیسے ہو رہی ہے، اس پر بحث یا مباحثہ نہیں ہو رہا۔   کچھ سینئر وکلا حیران ہیں کہ سینئر ججز دو رکنی بنچوں کے طور پر فیصلے کر رہے ہیں جبکہ جونیئر ججز تین رکنی بنچوں کا حصہ ہیں۔  یہ معلوم ہوا ہے کہ صرف مجوزہ روسٹر کمیٹی کے ارکان کو منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور میں کمیٹی کے اجلاسوں کے منٹس سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیے گئے۔   ایک وکیل نے کہا کہ  موجودہ آئین کے تحت جسٹس  منصور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس ہوں گے۔ ڈر ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز کر سکتے ہیں جو ان کے لیے مشکلات پیدا کرے، اسی لیے یہ پروسیجر لائے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ مذاکرات میں پیشرفت، مکمل جنگ بندی پر اختلافات برقرار: اسرائیل
  • امیر مقام کا ہوٹل تجاوزات میں نہیں آتا: ڈپٹی کمشنر سوات
  •    گورنر، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خوشگوار ملاقات، امیر مقام کے مزاح پر محفل کشت زعفران بن گئی
  • اسلام آباد، سندھ اور پشاور ہائی کورٹس کے نئے چیف جسٹسز نے حلف اٹھا لیا
  • اس وقت خیبرپختونخوا حکومت کو گرانے کا کوئی ارادہ نہیں: امیرمقام
  • خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی بازگشت، امیر مقام کا بڑا بیان سامنے آگیا
  • خیبرپختونخوا حکومت گرانے کی بازگشت، امیر مقام کا بڑا بیان سامنے آگیا
  • ملک ہے تو ہم ہیں، ایک ٹولہ اسرائیل اور بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، امیر مقام
  • ججز کمیٹی نے قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیے