Express News:
2025-11-11@01:05:48 GMT

اقوال زریں!

اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT

دنیا کااصل سفر ‘ انسان کی اپنی ذات کے اندر طے ہوتا ہے۔

اکثر اوقات سفر آپ کو‘ منزل کے متعلق سبق دیتا ہے۔

خواب دیکھنا کبھی بھی مت چھوڑیئے گا۔ باوجود اس کے کہ زندگی کتنی بھی تکلیف دہ اور مشکل ہو۔

زندگی کے متعلق سب سے خوبصورت المیہ یہ ہے کہ اس کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

خوبصورتی ایک مختصردورانیے کا ظلم ہے ۔

 آزادی کا راز ‘ انسانوں کو تعلیم دینے میں ہے۔ جب کہ ظلم کا راز ان کو جاہل رکھنے میں ہے۔

ظلم کے لیے ضروری ہے کہ سچ بولنے والے انسانوں کو خاموش کر دیا جائے۔

ہر کام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ اسے کر نا لیا جائے۔

زندگی میں محض دس فیصد وہ ہے جو آپ کے ساتھ ہوا ہے ۔نوے فیصد دراصل آپ کا رد عمل ہے ۔

مشکلات انسان کی زندگی کو روکنے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ یہ زندگی کی سمت مقرر کرتی ہیں۔

سمندر کو کنارے پر کھڑا ہو کر گھورنے سے اسے عبور نہیں کیا جاسکتا۔

 یا تو آپ راستہ ڈھونڈ لیں گے ورنہ ایک نیا راستہ بنا لیں گے۔

اس شخص کو ختم نہیں کیا جا سکتا جو ڈرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

انسان دنیا کا سب سے شریف جانور ہے ۔صرف اس وقت تک جب تک قانون اور انصاف سے دور نہیں ہوتا ۔ پھر وہ بدترین جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

اچھی طرح رہنا دنیا کا سب سے بڑا انتقام ہے ۔

انسان کا بہترین علاج ‘ اس کی خاموشی میں پوشیدہ ہے۔

مستقبل کے متعلق بہترین پیشن گوئی صرف یہ ہے کہ اسے اپنی محنت سے بنا لیا جائے۔

بہترین بینائی ‘ آنکھوں سے دیکھنا نہیں بلکہ روح سے محسوس کرنا ہے۔

انسانی زندگی کے بہترین خیالات وہ ہیں جو کبھی بھی پڑھائے نہیں جاتے ۔

بہترین شیشہ آپ کا پرانا دوست ہی ہو سکتا ہے۔

عقل مند آدمی کو کبھی عقل مند نظر نہیں آنا چاہیے۔

بہترین کی تلاش‘ اچھائی کی دشمن ہو سکتی ہے۔

علم پر خرچ کرنا ‘ زندگی کا بہترین سود ہو سکتا ہے۔

تمام لوگ کسی نہ کسی حد تک ظلم برداشت کر سکتے ہیں ۔ مگر انسان کا اصل کردار اس وقت سامنے آتا ہے جب اسے حکمرانی دے دی جائے۔

اگر آپ نے لوگوں کو حیران کرنا ہے تو ہر کام درست طریقے سے کرنا شروع کر دیجیے ۔

کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس کو آپ گہرائی سے نہیں جانتے۔

بہترین قائد وہ ہے جو بذات خود دیگر قائدین کو ترتیب دیتا ہے۔

قیادت کو پرکھنے کی صرف ایک کسوٹی ہے کہ وہ خواب کو حقیقت میں کیسے بدل دیتی ہے۔

کسی بھی قائد کو محض ایک خوبی درکار ہے ۔ وہ یہ کہ وہ کتنا ایماندار ہے ۔

جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا ‘ غلط کام کبھی درست نہیں ہو سکتا اور بدی کبھی اچھائی نہیں بن سکتی‘ صرف اس لیے کہ اسے اکثریت تسلیم کرتی ہے۔

اچھے لوگوں کو قانون بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ذمے داری سے زندگی گزاریں۔ برے لوگوں کو بھی قانون بتانے کا کوئی فائدہ نہیںکیونکہ وہ اس کو اپنے مفاد میں بدل دیں گے۔

جھوٹے حکمران کا سب سے مؤثر ہتھیار ‘ اس پر عام آدمی کا ناقص بھروسہ ہے ۔

سانپ غلطی کرنے کے بعد ہمیشہ انسان کی آنکھوں کو گھورتا ہے۔

اگر آپ کسی کاذب کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے صرف سوال پوچھئے۔

دنیا میں سب سے خوفناک درندہ آپ کا جعلی دوست ہے۔

غلطی کو دوہرانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ آپ کا فیصلہ ہے۔

 خواہشات ‘ آپ کو زخمی کر دیتی ہیں ۔

کوئی شخص آپ کی تکالیف نہیں دیکھتا مگر ہر کوئی آپ کی غلطیوں پہ نظر رکھتا ہے۔

عوام صرف مشکلات کی بات کرتے ہیں۔ قائد ان کو حل کرنے کی تدبیر بناتے ہیں۔

تعلیم ‘قیادت کی ماں ہوتی ہے۔

جہاں کوئی خواب نہیں ہوتا وہاں کوئی امید جنم نہیں لے سکتی۔

حکمرانی کا جوہر ‘ ناں کہنے میں ہے ۔ ہاں کہنا تو سب سے آسان بات ہے۔

دنیا کا سب سے خطرناک انسان ایک بزدل رہنما ہوتا ہے۔

اگر آپ اپنے بچوں کو سہارا دیتے ہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک اچھے والد ہے۔

دنیا کے لیے محض آپ والد ہوتے ہیں۔ مگر اپنے خاندان کے لیے آپ دنیا ہوتے ہیں۔

والد کا دل قدرت کا سب سے بڑا شہکار ہے۔

ستارے اس وقت تک نہیں چمک سکتے جب تک اندھیرا نہ ہو جائے۔

آواز بننے کی کوشش کرومگر گونج کبھی نہ بنو۔

اپنے خواب پورا کرنے کے لیے سب سے بہترین حل ہے کہ جاگ جایئے۔

خوبصورتی کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی تصویر اسے اپنے اندر سمو نہیں سکتی۔

کرپشن ‘ ڈکٹیٹرکا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔

کرپشن برف کا وہ گولہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تووہ معاشرے سے بڑا ہو جاتا ہے۔

ریاست میں جتنی زیادہ کرپشن ہو گی ‘ اتنے ہی زیادہ کرپشن کو ختم کرنے کے قوانین بھی ہوں گے۔

طوفان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ ہر طوفان کی ایک محدود مدت ہوتی ہے۔

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں ‘ جو مہنگی ترین نیلامی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔

اقتدار حکمران کو کرپٹ نہیں کرتا ۔ بلکہ اقتدار چھن جانے کا خوف اسے کرپشن پر مجبور کر دیتا ہے۔

سونے کی چابی دنیا کا ہر تالا کھول سکتی ہے۔

خدشات ہمارے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ ناکامی کے خوف سے اچھا کام کرنے سے روکتے ہیں۔

ہر انسان میں کبھی نہ کبھی آدھا غدار نمودار ہو جاتا ہے۔

ایک جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کر واپس آ سکتا ہے۔ جب کہ سچ صرف اور صرف اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہا ہوتاہے۔

جھوٹ کو بار بار بولنے سے ‘ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے متعلق ہوتے ہیں کا سب سے یہ ہے کہ نہیں ہو دنیا کا کے لیے

پڑھیں:

دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے

ویسے تو اس وقت پوری دنیا پر ہی جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل حماس جنگ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں، ہرچند کہ ان کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور موجودہ پاک افغان تنازعہ کہ جس میں روزانہ ہی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

اب اگر اس میں معاشی جنگ کو بھی شامل کر لیا جائے جو امریکا کی چین اور تقریباً پوری دنیا سے جاری ہے۔ اس وقت تو ان کی معاشی جنگ ان کے قریب ترین پڑوسی کینیڈا سے بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔

تقریباً ہر روز ہی اس فہرست میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور ہوتی رہتی ہے، اس صورتحال میں یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔

ہر جنگ کا آغاز اور اختتام معاشیات پر ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی کہانی کیوں نہ گھڑی گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگیں وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بٹوارے کے لیے ہوتی ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کو معاشی فائدہ پہنچایا جاسکے۔

امریکا کی تو پوری معیشت کی بنیاد ہی جنگ پر ہے، بس فرق اتنا ہے جنگ دیگر ممالک میں ہوں اور داخلی طور پر راوی چین چین ہی لکھے حالانکہ امریکا چین کو بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ اب تو وہ چین کے ساتھ معاشی جنگ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ عسکری جنگ کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر ویسے ہی یہ بات اپنی زندگی میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی اور ان کے خیال کے مطابق اس کا آغاز ایران سے ہوگا۔

اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر کے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع و عریض رقبے پر قابض ہوجائے گا۔ ان کے کہنے کے مطابق مشرق وسطی میں تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے اور جو اسے سن نہیں رہے وہ یقیناً بہرے ہیں۔

یہ خیال رہے کہ ہینری کیسنجر ایک کٹر یہودی تھا اسی لیے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے جنگ جیتنے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو طے ہوگیا تھا کہ اب اگلی عالمی جنگ یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ عام خیال یہ تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی لیکن عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی ساہوکار کی مشرق وسطی میں سرمایہ کاری نے اس جنگ کو مشکل اور مہنگا کردیا ہے۔

اس لیے اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ اس کا آغاز جنوب مشرقی ایشیا سے کیا جائے، اس لیے اب ہم اپنے خطے کی جانب آتے ہیں۔ہماری حکومت نے اب باضابطہ طور پر اس بات کا اقرارکر لیا ہے کہ استنبول سے اچھی اور امید افزا خبریں نہیں آرہی ہے۔

ہرچند کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے مگر طالبان بار بار اپنے موقف کو تبدیل کررہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جہاں سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں، وہاں سے یہی احکامات آرہے ہیں۔

طالبان حکومت دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے دامن چھڑا رہی ہے اور اب یہ راستہ تصادم کی طرف جارہا ہے جو کہ خطے کے حق میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی ان مذاکرات کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔ ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر کھلی جنگ ہوگی۔

ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ اس پر ہر طرح کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور یہ بات ہمارے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستان ابھی تک اپنی شکست پر تلملا رہا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔

ہندوستان نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے نوٹم (NOTAM Notice to Air Missions) جاری کیا اور یہ مشقیں 30 اکتوبر سے 10 نومبر 2025 تک پاکستان کی سرحد کے قریب ہونا طے پایا۔

اس وقت یہ مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان کب ان مشقوں کو حقیقت میں آزمائے گا، یہ کسی کو نہیں پتہ لیکن آزمائے گا ضرور، یہ بات حتمی ہے اور ان کا وزیر اعظم اور فوجی سربراہ دونوں اس کی کھلی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے وسائل کی طلب اور رسد کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ توازن دنیا کی آبادی کو کم کرکے ہی بہتر کیا جاسکے گا۔ اب آبادی کہاں زیادہ ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی ممالک تو ویسے بھی آبادی کے معاملے میں منفی نمو کا شکار ہے۔ آنیوالا وقت غیر یقینی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • 22 سال کی عمر میں گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا، ماں سے کہا میں آزاد زندگی گزاروں گی، انزیلہ عباسی
  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • قانون،کیا صرف غریبوں کے لیے؟
  • دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم: مارشل کا رینک حاصل کرنے والا تاحیات یونیفارم، صدر پر زندگی میں کوئی کیس نہیں
  • آذری یوم فتح: پاکستان اور ترکیہ کا ساتھ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا: صدر آذربائیجان
  • سوہا علی خان نے سیف کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کردیا
  • ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان