غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کر کے اتھارٹی تھرڈ پارٹی کے حوالے کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں بھوک کی پالیسی سے بارہ ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا حالیہ بیان کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور پھر اس پرکنٹرول کسی تیسرے فریق کے حوالے کیا جائے گا، محض ایک سیاسی اعلان نہیں بلکہ ایک ایسے گہرے منصوبے کی جھلک ہے جس کا مقصد نہ صرف فلسطینی سرزمین پر مستقل قبضہ کرنا ہے بلکہ فلسطینی عوام کو ان کی شناخت، خود مختاری اور آزادی سے مکمل طور پر محروم کر دینا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ پہلے ہی انسانی بحران کی بد ترین شکل اختیارکرچکا ہے۔
لاکھوں فلسطینی بے گھر، بھوکے، پیاسے اور بمباری کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں، بچے ماں باپ سے محروم ہو رہے ہیں، اور ایک پورا معاشرہ ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو چکا ہے۔ایسے میں اسرائیل کی جانب سے ’’ غزہ پر مکمل قبضے‘‘ کا عندیہ دینا دراصل عالمی برادری کو کھلا چیلنج دینا ہے۔ نیتن یاہو کی اس سوچ کے پیچھے وہی پرانا استعماری ذہن کارفرما ہے جو طاقت کے زور پر قوموں کو دبانے کا عادی ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ ’’ تیسرا فریق‘‘ کون ہے جسے غزہ کا کنٹرول دیا جائے گا؟ کیا یہ امریکا ہوگا؟ یا کوئی علاقائی طاقت؟ یا کوئی بین الاقوامی تنظیم جسے محض دکھاوے کے لیے لایا جائے گا تاکہ اسرائیل کی غیر قانونی حکمرانی کو جواز فراہم کیا جا سکے؟ جو بھی فریق ہو، اصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر غزہ پرکسی بھی قسم کا کنٹرول ایک اور قبضہ ہو گا،ایک اور ناانصافی ہو گی، اور ایک نیا باب ظلم کا کھولا جائے گا۔
یہاں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ متنازعہ بات بھی یاد آتی ہے جس میں انھوں نے غزہ کو ایک ’’ تفریحی مقام‘‘ میں تبدیل کرنے کی بات کی تھی۔ اس بیان سے نہ صرف ان کی فلسطینیوں کے مصائب سے بے حسی ظاہر ہوئی، بلکہ یہ بھی عیاں ہوا کہ ان کی نظر میں غزہ ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایک معاشی منصوبہ ہے۔
ایسی سوچ محض سیاسی لاعلمی نہیں بلکہ ظالمانہ استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے، اگر اسرائیل کے زیرِ اثر غزہ کو کسی ایسے ’’ ترقیاتی منصوبے‘‘ میں بدلا گیا جس کا فائدہ صرف قبضہ گیر طاقتوں کو پہنچے، تو یہ ایک نئی طرزکی نوآبادیات ہو گی جس کا مقصد زمین ہتھیانا اور لوگوں کو بے دخل کرنا ہوگا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مدت میں عالمی سطح پر جو معاشی پالیسیاں اختیارکیں، ان کا واحد مقصد امریکا کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے ۔
چین، بھارت، ترکی اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں پر بے جا ٹیرف لگا کر وہ دنیا کو معاشی غلامی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ عالمی تجارتی نظام میں ان کی یکطرفہ پالیسیاں بے یقینی، عدم اعتماد اور معاشی عدم توازن کا سبب بن رہی ہے۔ ان پالیسیوں کے منفی اثرات دنیا کے کئی ممالک کی معیشتوں پر نمایاں ہیں۔ ایسے میں اگر ٹرمپ یا ان کی طرز کی قیادت کو غزہ جیسے حساس خطے میں کوئی کردار ملتا ہے، تو یہ امن کی نہیں، بلکہ ایک اور بحران کی بنیاد ہو گی۔
غزہ کی موجودہ صورتحال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں ہر قسم کا انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے، پینے کا صاف پانی ناپید ہے، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان میں ادویات نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، ریڈ کراس اور بین الاقوامی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچی تو لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل کی بمباری جاری ہے، اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، اس کے سامنے انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ فلسطینی عوام کا مسئلہ صرف زمین یا اقتدار کا نہیں، بلکہ ان کا مقدمہ انسانیت، آزادی اور بقاء کا ہے۔ ان پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کی خاموشی اس جرم میں شریک بن چکی ہے۔ جب پوری دنیا مظلوم کی حمایت سے گریزکرے، ظالم کو اسلحہ دے، اور صرف مذمت پر اکتفا کرے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے اور امن مزید دور ہو جاتا ہے۔
اسرائیل کی پالیسی واضح ہے، طاقت کے بل پر قبضہ اور فلسطینیوں کو مسلسل دیوار سے لگانا۔ اس کے پیچھے نہ صرف عسکری قوت ہے بلکہ معاشی، سفارتی اور میڈیا کا ایک منظم نیٹ ورک بھی ہے۔ مغربی میڈیا عام طور پر اسرائیلی بیانیے کو زیادہ جگہ دیتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کی آواز یا تو دبا دی جاتی ہے یا مشکوک بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں حقائق عوام تک پہنچنے سے رہ جاتے ہیں، اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
اسرائیل اور امریکا کی یہ مشترکہ حکمت عملی اگر اسی طرح چلتی رہی تو مشرق وسطیٰ ایک ایسے دائمی تنازعے کی لپیٹ میں آ جائے گا جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ پہلے ہی یمن، شام، لبنان اور عراق جیسے ممالک بدامنی کا شکار ہیں، اگر غزہ میں ظلم کا یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ آگ پورے خطے کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی بے بسی اور مسلم دنیا کی خاموشی بھی اس المیے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔
او آئی سی جیسا ادارہ محض اجلاسوں اور بیانات کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران معاشی مفادات یا سفارتی تعلقات کے تحت اس قدر محتاط ہو چکے ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے دو ٹوک موقف اختیارکرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر کب تک دنیا فلسطین پر ہونے والے مظالم کو نظرانداز کرتی رہے گی؟ کب تک عالمی برادری صرف تماشائی بنی رہے گی؟
جو ممالک خود کو جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے علمبردار کہتے ہیں، ان کے لیے غزہ ایک کڑا امتحان ہے۔ اگر وہ واقعی اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو انھیں فلسطینیوں کے حق میں واضح، عملی اور جرات مندانہ موقف اختیار کرنا ہو گا۔ محض امداد یا مذمتی بیانات سے نہ مظلوم کو ریلیف ملتا ہے اور نہ ہی ظالم کے ہاتھ رکتے ہیں۔یہ مسئلہ محض جغرافیہ یا اقتدار کا نہیں بلکہ انسانی وقار، حقِ زندگی اور انصاف کے بین الاقوامی اصولوں کا امتحان ہے۔
فلسطینی بچوں کی معصومیت، فلسطینی ماؤں کے آنسو، اور فلسطینی نوجوانوں کی قربانیاں یہ گواہی دیتی ہیں کہ وہ صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہے، بلکہ انسان ہونے کے حق کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اگر عزت و وقار سے جینا چاہے تو ظلم و جبر کے آگے سر نہیں جھکاتا۔فلسطینیوں کے لیے یہ محض زمین کا سوال نہیں۔ وہ زمین جس پر ان کے آباؤ اجداد نے صدیوں تک زندگی گزاری، عبادت کی، محنت کی، اور نسلیں پروان چڑھائیں، وہ زمین ان کی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے۔
لیکن آج انھیں اس زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی بستیاں مسمار کی جا رہی ہیں، عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اُن کی تاریخ کو مٹانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ کسی اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہوتا، تو دنیا کی طاقتور اقوام چیخ اٹھتیں، مگر فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بیشتر عالمی طاقتیں یا تو خاموش ہیں یا خاموش رہنے پر مجبور کی جا چکی ہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے اثر دکھائی دیتی ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔
یہ نہ کسی قوم کی اجارہ داری ہے اور نہ کسی طاقتور ملک کی عنایت۔ فلسطینی قوم نے اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دی ہیں، وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جائیں گی۔ انھوں نے گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر، ٹینکوں کے سامنے پتھر لے کر کھڑے ہو کر، اور بچوں کی لاشوں کو دفنا کر بھی ہار نہیں مانی۔ ان کے دل میں آج بھی آزادی کی تڑپ زندہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ شاید وہ خود آزاد نہ ہوں، لیکن ان کی آیندہ نسلیں ایک دن ضرور آزاد فضا میں سانس لیں گی۔ یہی امید انھیں زندہ رکھتی ہے، یہی ایمان انھیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمت دیتا ہے۔
دنیا ابھی مکمل طور پر بے ضمیر نہیں ہوئی۔ آج بھی لاکھوں لوگ، خصوصاً نوجوان نسل، سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطین کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ تصاویر، وڈیوز اور بیانات جو کبھی دنیا سے چھپائے جاتے تھے، آج سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن اسے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
صرف جذباتی نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں فلسطینی عوام کی حقیقی مدد کرنی ہوگی، چاہے وہ مالی ہو، تعلیمی ہو، یا سفارتی۔وقت آ گیا ہے کہ دنیا دوغلی پالیسیوں سے باز آ کر کھل کر ظالم اور مظلوم کے بیچ فرق واضح کرے۔ فلسطینیوں کی زمین، ان کی شناخت اور ان کا وجود کوئی تجارتی منصوبہ یا سفارتی سودے بازی کا حصہ نہیں۔ یہ ایک قوم کا بنیادی حق ہے جسے کوئی طاقت چھیننے کی کوشش کرے گی تو وہ خود تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی فلسطینیوں کے اقوام متحدہ اسرائیل کی کہ اسرائیل ا جائے گا رہے ہیں ہے کہ ا کے لیے کیا جا ہیں کہ
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق
وہ عناصر جو نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے وہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کا پروپیگنڈا پھیلا رہے۔ اس حوالے جو گمراہ کن باتیں پھیلائی جا رہی ہیں ان میں سے 7 بڑے پروپیگنڈے یہ ہیں:
پروپیگنڈا نمبر 1: اقتدار پر قبضے کی کوششجب کہ حقیقت میں یہ اختیارات چھیننے کی نہیں بلکہ اداروں کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔
اس ترمیم کا مقصد آئینی تنازعات کے تیز تر حل کے لیے ایک آئینی عدالت قائم کرنا ہے تاکہ سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور نظائر پر توجہ دے سکے۔
پروپیگنڈا نمبر 2: عدلیہ کی آزادی کمزور ہوگیجب کہ حقیقت میں یہ عدلیہ کی آزادی کو مضبوط کرتی ہے۔
ججوں کی تعیناتی اور مدتِ کار کو واضح اور معیاری بنا کر پسند و ناپسند اور ذاتی اثر و رسوخ کے تاثر کو ختم کیا جائے گا تاکہ آزادی ایک اصول بنے، رعایت نہیں۔
پروپیگنڈا نمبر 3: صوبائی خودمختاری متاثر ہوگیجب کہ حقیقت میں این ایف سی ایوارڈ کی نظرِ ثانی کا مقصد مرکزیت نہیں بلکہ مالی توازن ہے۔ وفاق اختیارات واپس نہیں لے رہا بلکہ محصولات اور اخراجات کے فرق کو بہتر طریقے سے متوازن کر رہا ہے تاکہ صوبائی خودمختاری کاغذ پر نہیں بلکہ عمل میں برقرار رہے۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں ترمیم کے مسودے پر نواز شریف سے مشاورت ہوگی، سینیٹ سے پاس کروانے کے لیے پی ٹی آئی سے بھی رابطہ ہے: خرم دستگیر
پروپیگنڈا نمبر 4: فوج کو سیاسی بنایا جا رہا ہےجب کہ حقیقت میں یہ تبدیلی کمان کے ڈھانچے میں نہیں بلکہ تصور میں جدت لاتی ہے۔
جدید جنگ کے تقاضے ’مشترکہ منصوبہ بندی اور ہم آہنگی‘ پر مبنی ہیں۔
اس ترمیم کا مقصد یہی واضح کرنا ہے کہ سول اور عسکری سطح پر ہم آہنگی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مضبوط بنائی جائے۔
پروپیگنڈا نمبر 5: الیکشن کمیشن کمزور ہوگاجب کہ حقیقت میں یہ الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کی سمت ہے۔
چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی میں سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے واضح ٹائم لائن اور غیر جانبدار نامزدگی کا طریقہ شامل کیا جا رہا ہے تاکہ کمیشن زیادہ خودمختار اور مؤثر ہو۔
پروپیگنڈا نمبر 6: مجسٹریٹ کے اختیارات پرانی حکمرانی واپس لائیں گےجب کہ حقیقت میں یہ محدود اور محفوظ انتظامی اصلاح ہے۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو اہم ٹاسک دے دیا گیا
چھوٹے مقدمات اور تنازعات کے فوری حل کے لیے محدود مجسٹریسی اختیارات عدالتی نگرانی میں بحال کیے جائیں گے تاکہ عوام کو تیز تر انصاف مل سکے۔
پروپیگنڈا نمبر 7: یہ انقلابی تبدیلی ہےجب کہ حقیقت میں 27ویں ترمیم انقلاب نہیں، ارتقا ہے۔ یہ پاکستان کے آئینی سفر کا پختگی کا مرحلہ ہے، اقتدار کی تقسیم نہیں بلکہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا قدم۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27 ترمیم پروپیگنڈا 27ترمیم آئینی ترمیم الیکشن کمیشن پاکستان عدلیہ