BRUSSELS:

یورپی کمیشن کی عہدیدار سے غزہ کی تعمیر نو میں اسرائیل کے کردار کے حوالے سے سوال پوچھنے پر اطالوی صحافی کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا جبکہ کمیشن نے ملازمت سے برخاست کروانے میں کسی قسم کے تعلق کی تردید کردی ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اٹلی کی خبرایجنسی نووا کے برسلز میں نمائندہ گبیرئیل نونزیاٹی نے یورپی کمیشن کے ترجمان سے سوال کیا تھا کہ کیا اسرائیل غزہ میں تعمیر نو کے لیے فنڈز دے گا، جس کے بعد چند ہفتے بعد انہیں نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے۔

اطالوی خبرایجنسی کے رپورٹر نے اپنے سوال میں یورپی کمیشن کے اس مؤقف کا حوالہ دیا تھا جو وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے بعد بحالی اور تعمیر کے لیے روس سے فنڈنگ کا مطالبہ کر رہا ہے۔

گیبرئیل نونزیاٹی کی جانب سے گزشتہ ماہ پوچھا گیا یہ سوال سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا جبکہ اطالوی خبرایجنسی نووا نے بعد میں کہا تھا کہ تیکنیکی طور پر یہ سوال درست نہیں تھا اور وائر ویڈیو خبرایجنسی کے لیے شرمندگی کا باعث بن گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک اور صحافی نے گیبرئیل نونزیاٹی کا سوال ہوبہو دہرا تھا، جس پر ترجمان یورپی کمیشن اینوار انونی نے جواب دیا تھا کہ روس اور اسرائیل کی کارروائیوں کا موازنہ نہیں ہوسکتا ہے اور کمیشن اس بحث میں نہیں پڑے گا۔

ترجمان نے کہا تھا کہ یورپی کمیشن اسرائیل سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے بقایات کی ادائیگی سمیت بین الاقوامی قانون کا احترام کرے ۔

 

بعد ازاں یورپی کمیشن نے اطالوی صحافی کو غزہ میں اسرائیل کے کردار پر سوال پوچھنے کی پاداش میں اطالوی صحافی کو برطرف کیے جانے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور کہا کہ آزادی صحافت پر بھرپور یقین رکھتے ہیں۔

ترجمان یورپی کمیشن اولوف گل نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ میں واضح طور پر اس بات کی تصدیق کر رہا ہوں کہ یورپی کمیشن اور میڈیا میں سوال پر کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، کمیشن پریس روم میں ہونے والے ہر طرح اور تمام سوالوں کے جواب دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اصول پر ہمیشہ عمل کیا جاتا ہے اور ہمیشہ عمل کیا جائے گا، ہم کسی مخصوص معاملے پر بات نہیں کرسکتے لیکن بطور یورپی کمیشن اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ پر اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران 69 ہزار فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے اور ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد بےگناہ فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں، اس کے علاوہ غزہ میں بدترین کارروائیاں کی ہیں۔

اسرائیل اور حماس نے گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور اس کے لیے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔

جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل مسلسل غزہ میں بمباری کر رہا ہے اور بچوں اور خواتین سمیت فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپی کمیشن تھا کہ کے لیے کر رہا ہے اور

پڑھیں:

اسرائیل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اسرائیلی صدر کا اعتراف

غاصب صیہونی رژیم کے صدر اسحاق ہرزوگ نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اسرائیل اس وقت گذشتہ تیس برس کے دوران بدترین حالات کا شکار ہے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل تباہی کے دہانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے امریکی صدر کے منصوبے پر شدید تنقید اور غزہ پر جاری حملوں نے جنگ بندی کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ایسے میں صیہونی رژیم کے سربراہ اسحاق ہرزوگ کا خیال ہے کہ موجودہ چیلنجنگ صورتحال سے نکلنے کے لیے اسرائیل کو "بدنام انتہاپسندی" کو ایک طرف رکھ کر ٹرمپ کی شرائط کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس نے ​​خبردار کیا ہے کہ اندرونی انتشار نے اسرائیل کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے بقول یہ صورتحال بالکل اسی طرح ہے جیسے تیس سال پہلے تھی اور "شاید اس سے بھی زیادہ بدتر" ہے جب اسرائیل کے اس وقت کے صدر اسحاق رابن کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اسرائیلی صدر کے بقول اسحاق رابن "ایک انتہاپسند، متعصب اور گھٹیا یہودی" جو "ہمارے اپنے لوگوں میں سے ایک تھا" کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ یہ بات اسرائیلی صدر نے سابق صدر اسحاق رابن کے قتل کی برسی کے موقع پر کہی ہے۔ یاد رہے اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے حال ہی میں سلامتی کونسل میں ایک مسودہ قرارداد پیش کیا ہے جس میں غزہ میں دو سال کے لیے بین الاقوامی فورس کی موجودگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ مسودہ واشنگٹن اور 16 دیگر ممالک اور بین الاقوامی فورس میں شریک ممالک کے 20 حکومتی اداروں کو غزہ پر حکومت کرنے اور سیکیورٹی فراہم کرنے کا وسیع اختیار دے گا۔ اس بین الاقوامی فورس کی ذمہ داریوں میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں کی حفاظت اور انسانی ہمدردی کی گزرگاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانا شامل ہو گا۔
 
امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس تلسی گیبارڈ نے بھی اسرائیل کے شہر کریات گٹ میں امریکی رابطہ کاری مرکز کے اچانک دورے کے دوران غزہ میں استحکام کے لیے ملٹی نیشنل فورس میں 16 ممالک اور 20 حکومتی اداروں پر مشتمل ایک ایسی فورس کے قیام کی تصدیق کی ہے۔ فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے گیبارڈ نے مشرق وسطی میں ٹرمپ کی کارکردگی کی تعریف کی اور اپنے اسرائیل کے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امید اور رجائیت کا حقیقی احساس ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی انتہاپسند دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے جنگ بندی کے منصوبے پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی ٹی وی چینل 7 کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہن نے کہا کہ "اغوا کیے گئے" افراد کو زندہ ان کے اہلخانہ کے حوالے کرنے کے بعد ہمارے پاس ہتھکنڈوں کی مزید گنجائش ہو گی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل دوبارہ جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ کوہن نے جنگ بندی کو "عارضی مدت" قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ "اس جنگ میں وقت اس کے حق میں گزر رہا ہے اور حماس ایک عارضی دور سے گزر رہی ہے۔" اسں نے مزید کہا: "حماس کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی اور کوئی بھی بین الاقوامی طاقت اسے غیر مسلح کرنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔"
 
رابن کو ہمارے اپنے لوگوں نے مارا، ایک خبیث یہودی نے
گزشتہ روز اسرائیل کے سابق صدر اسحاق رابن کے قتل کی برسی پر اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​اسرائیل میں "بدنام انتہا پسندی" کو پسماندہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل کو اس وقت صدر [ڈونلڈ] ٹرمپ کی طرف سے شروع کیے گئے معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرنا چاہیے اور غزہ کی میزبانی کے لیے تمام وسائل اور ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔" ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسں نے خبردار کیا کہ اسرائیل اسی سطح پر اشتعال انگیزی اور تشدد کا سامنا کر رہا ہے جیسا کہ تیس سال پہلے اس وقت کے وزیر اعظم اسحاق رابن کے قتل سے پہلے ہوا تھا۔ "تین دہائیوں کے بعد ہم اب بھی وہی نشانیاں دیکھ رہے ہیں جو شاید اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ بدتمیز اور پرتشدد زبان؛ غداری کے الزامات، سوشل میڈیا پر اور عوامی حلقوں میں زہر اگلنا، ہر شکل میں تشدد چاہے وہ جسمانی ہو یا زبانی۔" اسرائیلی صدر نے یہ باتیں ماؤنٹ ہرزل نیشنل قبرستان میں ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہیں۔ ہرزوگ نے ​​مزید کہا: "تیس سال پہلے ایک رات، ایک طویل اور تناؤ بھرے دن کے بعد، میرے دادا اسحاق رابن کو قتل کر دیا گیا۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پیٹھ میں تین بزدلانہ گولیوں کے ساتھ، مجھ سے بچپن کا ہیرو چھین لیا گیا، جو میری زندگی کا فخر ہے۔" اسرائیلی صدر نے مزید ​​کہا: "1995 میں وہ ایک یہودی، ایک انتہاپسند، ایک متعصب، اور اایک ایسے گھٹیا شخص کے ہاتھوں قتل ہوئے جو ہمارے لوگوں میں سے ایک تھا۔"

متعلقہ مضامین

  • قومی ائیرلائن سے تنازع: سوسائٹی آف ائیرکرافٹ کے صدر اور سیکرٹری ملازمت سے برطرف
  • ایئر کرافٹ انجینئرز اور قومی ایئر لائن کا تنازع، سوسائٹی آف ایئر کرافٹ انجینئرز کے صدر، سیکریٹری جنرل ملازمت سے برطرف
  • یورپی کمیشن کا ہائی اسپیڈ ٹرین منصوبہ، ناشتہ پیرس میں اور لنچ میڈرڈ میں
  • یورپی کمیشن کا تیز رفتار ریل منصوبہ: 2030 تک شہروں کے درمیان سفر کا نیا دور
  • یورپی یونین سے اسرائیل پر سوال، اطالوی صحافی برطرف
  • تاجراورصحافی برادری مل کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں
  • اسرائیل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اسرائیلی صدر کا اعتراف
  • بے بنیاد الزامات کیوں لگائے؟ اداکارہ صبا قمر نے صحافی کو 10 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا
  • کراچی میں کیمرے چالان کر سکتے ہیں، دندناتے مجرموں کو کیوں نہیں پکڑ سکتے؟ شہریوں کے سوالات