غزہ ہمارے لیے نیٹ فلیکس سیزن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
لگاتار بمباری، قتلِ عام، انسانی استعمال کی ہر شے بلڈوز کرنے کا مشن ہو یا بھوک برسانے کا عمل۔ مقصد ایک ہی ہے۔غزہ کی ہمت کی کمر توڑنا۔تاکہ غزہ مر جائے یا خالی ہو جائے۔مگر جو کام اکیس ماہ میں پچاسی ہزار ٹن بارود برسانے سے حاصل نہیں ہو سکا اب اسے زمانہِ قدیم سے چلے آ رہے جنگی ہتھکنڈے سے حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
یعنی محاصرے کے ذریعے پوری آبادی کو بھوکا مار دیا جائے اور بچے کھچوں کو رفاہ میں تیزی سے تعمیر ہونے والے کنسنٹریشن کیمپ کی خاردار تاروں کے پیچھے دھکیل دیا جائے اور گلو خلاصی کی ایک ہی شرط رکھی جائے یا تو سرحد پار صحراِ سینا سمیت جہاں چاہے کوچ کر جاؤ یا پھر اسی کیمپ میں بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاؤ۔پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ جہاں تمہارا گھر ، اسکول ، اسپتال ، کھیت ہوا کرتا تھا۔وہاں مشینی ہل چلا دیا گیا ہے۔واپس جانے کے لیے زور زبردستی کرو گے تو گولیوں اور بموں سے بھون دیے جاؤ گے۔
وحشیانہ طاقت نے بظاہر غزہ کا معاشرہ اور معاشرت تتر بتر اور مسخ کر دیے ہیں۔جیتے جاگتے آدم نیم انسانوں میں بدل دیے گئے ہیں۔زندوں کی کوئی شناخت اگر باقی ہے تو بس ان کے دل میں۔ سو اسے بھی موت اور جبری نقل مکانی کے ہتھیار سے کھرچنے کی لگاتار کوششش ہو رہی ہے۔
سب کے سب بھوکے اور پیاسے ہیں۔جو زخمی ہے وہ بھی ، جو اس زخمی کو کسی کھنڈر نما اسپتال لے جانے کی کوشش کر رہا ہے وہ بھی ، جو نرس یا ڈاکٹر اس زخمی کو بچانے کی سرتوڑ جدوجہد میں ہے وہ بھی ، جو اس زخمی کے مرنے کے بعد کفن سی رہا ہے وہ بھی، جو میت کو غسل دے رہا ہے وہ بھی ، جو اسے قبر میں اتار رہا ہے وہ بھی ، جو قبر پر سر رکھ کے رونا چاہ رہا ہے وہ بھی ، جو بیرونی دنیا کو یہ خبر دینا چاہتا ہے وہ بھی۔
غرض سب کے سب بھوکے ، پیاسے ، بیمار ، بے در و دیوار تیس ضرب بارہ کیلومیٹر کے انسانی جہنم میں گول گول محوِ سفر یہ سوچ رہے ہیں کہ جو مر گئے وہ کتنے خوش قسمت نکلے۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں
( جون ایلیا )
اور ایک ہم ہیں جو ان سب کو مذمتی مشکیزے میں بھرا آبِ ندامت تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔ایک وہ ہیں جو موت سے مسلسل پنجہ آزما ہیں۔ایک ہم ہیں کہ زندہ ہونے کے وہم میں مبتلا ہیں۔
نفسانفسی اس سطح تک گر چکی ہے کہ صحافتی تنظیمیں قاتل سے درخواست کر رہی ہیں کہ کم ازکم ہمارے پیغام رسانوں کو تو زندہ رہنے دے۔امدادی ایجنسیاں گڑ گڑا رہی ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو تو بخش دو ، طبی تنظیمیں ہاتھ باندھے کھڑی ہیں کہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو تو کام کرنے دو۔
حماس کی قید میں زندہ رہ رہے اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتے دار صرف اس لیے نیتن یاہو پر طیش میں ہیں کہ ساٹھ ہزار لوگ مارنے اور غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود ہمارے یرغمالی پیارے کہاں ہیں۔ہمیں بس وہ واپس کروا دو۔اس کے بعد بھلے لاکھوں انسانوں کو مار ڈالو۔قسم کھاتے ہیں کہ اس احسان کے بدلے تمہارا ہاتھ نہیں روکیں گے۔
اہلِ مغرب اور ان کے مقامی حواریوں کا ٹوپی ڈرامہ الگ چل رہا ہے۔کوئی یہ الٹی میٹم نہیں دے رہا کہ اگر کل تک تم نے خوراک کی ترسیل کے راستے نہ کھولے تو پھر ہم بین الاقوامی طاقت استعمال کرتے ہوئے انھیں خود کھولیں گے۔اگر تم نے غزہ کو مکمل ہڑپ کر لیا تو تمہارے پیٹ میں سے نکال لیں گے۔
سب کے سب فلسطین کی لیبارٹری میں طرح طرح کے تجربے کر رہے ہیں۔قاتل اپنے ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کو آزما کر مارکیٹ کر رہا ہے اور قاتل کا کوئی حمائیتی اس کا خنجر کند نہیں ہونے دے رہا۔کچھ ممالک فضا سے امداد گرانے کا کرتب دکھا کے اپنی انسان نوازی کی داد بٹورنے کے لیے چہار جانب تحسین کی بھوکی نگاہیں دوڑا رہے ہیں۔کوئی لاکھوں زخمیوں میں سے تیرہ چودہ گھائل بچوں کو ایرلفٹ کر کے اپنی خوش نیتی نیلام کر رہا ہے ، کوئی ایک کے بعد ایک کانفرنس بلا کے اپنے تئیں انسانی فرض نبھا رہا ہے۔
جن کی پتھرائی آنکھوں میں موت کا بسیرا ہے انھیں خوش خبری سنائی جا رہی ہے کہ بس کچھ دن اور زندہ رہ جاؤ تاکہ یہ دیکھتے جاؤ کہ ہم نے بالاخر تمہاری آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست تسلیم کر لی ہے۔
جہاں ہر ایک منٹ میں ایک انسان زندگی سے آزادی پا رہا ہو۔ انھیں بچانے کے بجائے ایک آزاد ریاست کا خواب ان کے خشک حلق میں ٹپکایا جا رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے قاتل کو چمچماتے بھالے ، نیزے اور تلواروں کی تازہ کھیپ دی جا رہی ہے۔
غزہ میں وہ قحط ہے جو زندہ بچ جانے والوں کی ہڈیوں میں اتر کے نسل در نسل جینز کے ذریعے سفر کرے گا بھلے ان لاغروں کو اب کوئی بھر پیٹ کھانا ہی کیوں نہ دلا دے۔یہ المیہ قحط زدگان کی نسل در نسل یاد داشت میں اسی طرح کھب جائے گا جیسا کہ سات عشرے پہلے حیفہ ، جافا اور گلیلی میں چھوڑے گئے گھروں کی چابی اب چھٹی بے گھر نسل کی امانت ہے۔
آنکھوں میں یہ دھول بھی جھونکی جا رہی ہے کہ پورا اسرائیلی سماج موجودہ سرکار کی طرح سفاک نہیں۔بلکہ اس حکومت کے کاموں سے نفرت کرنے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔اگر اس دعوی کو جوں کا توں تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر ایک جلوس تو دکھا دیا جائے جو گزشتہ اکیس ماہ میں محض یرغمالی چھڑانے کے لیے نہیں بلکہ فلسطینیوں کو زندہ چھوڑ دینے کے مطالبے کے حق میں تل ابیب اور یروشلم کی سڑکوں پر نکلا ہو۔
اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس الزام پر برا ماننے کی کیا تک ہے کہ اسرائیلی سماج میں قاتلوں کی اکثریت ہے۔کچھ سابق ہیں ، کچھ موجودہ اور کچھ آنے والے کل کے قاتل۔ انسانی گروہوں کو گلا گھونٹ کے مارنے والے لوگ اس سماج کے ہیرو ہیں۔یہ شرط باندھ کے جیتے جاگتے انسان کا نشانہ لے کر ہلاک کرنے والے لوگ ہیں۔مہینوں سے بھوکوں اور پیاسوں کو بھنا ہوا گوشت دکھا دکھا کے کھانے والے لوگ ہیں۔
نازی آخری وقت تک اس فکر میں رہے کہ کسی دن ان کے یہود دشمن نسل کش مراکز کا بھانڈا بیچ چوراہے میں نہ پھوٹ جائے۔مگر ان نسل کش مراکز سے بچ نکلنے والے یہودیوں کی تیسری اور چوتھی نسل نہ صرف اپنے پرکھوں پر بیتے نازی تجربات کو اگلے مرحلے تک لے آئی ہے بلکہ اسے بطور تمغہ لہرا لہرا کے دکھا رہی ہے۔اور ہم یہ سب نیٹ فلیکس کے کسی بلیک کامیڈی سیزن کی طرح دیکھ رہے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رہا ہے وہ بھی رہے ہیں نے والے ہیں کہ کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
موجوہ نظام کو ہائبرڈ یا ون پیج سے منسوب کرنا غلط ہے،رانا ثنا اللہ
وزیراعظم کے مشیر سیاسی امور و بین الصوبائی رابطہ سینیٹر رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ دنیا میں سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا کسی بھی ریاست کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر ریاست کی ضرورت ہے۔
اردو نیوز کودیئے گئے انٹرویو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’ہمارے ہاں اسے ’ون پیج‘ اور ہائبرڈ کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ریاست کے تمام ستون، فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور سیاست مل کر چلیں تو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں عسکری اور سیاسی قیادت ایک ساتھ چلتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی کئی جہتوں میں ہوتی ہے، چاہے وہ معاشی ہو، مقامی سطح پر ہو، انتظامی ہو یا دفاعی۔ اگر خدا نہ خواستہ کوئی بڑا معرکہ پیش آ جائے تو یہ صرف فوج نے نہیں لڑنا ہوتا، بلکہ پوری قوم کو ساتھ دینا پڑتا ہے۔ جب قوم ساتھ دیتی ہے تو پھر وہ عزت اور کامیابی ملتی ہے جو آج پاکستان کو پوری دنیا میں حاصل ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی لیے دفاعی پہلو جتنا اہم ہے، سیاسی پہلو بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ انتظامیہ اپنی جگہ پر اہم ہے، عدلیہ جس کا کام معاشرے میں انصاف قائم کرنا ہے وہ بھی اتنی ہی اہم ہے۔ لہٰذا ریاست کے تمام ستونوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی کسی بھی ملک کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس حقیقت کو اگر مثبت انداز میں بیان کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔
ن لیگ کی صوبائی کابینہ اور سندھ کی کابینہ ارکان کے درمیان نوک جھونک پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ دراصل کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، لیکن اپنے وجود کا احساس دلانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس وزارت ہے اور وہ بالکل بات ہی نہ کرے تو اس کا وجود نظر ہی نہیں آئے گا۔ اس لیے کچھ نہ کچھ کہنا پڑتا ہے تاکہ لوگ سنیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو ان دونوں جماعتوں میں موجودہ نظام کو چلانے پر مکمل اتفاق موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت دونوں جماعتیں اس نظام کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ ہیں۔ کامیاب عمل کے لیے ضروری ہے کہ یہ نظام دو، تین یا چار سال تک مسلسل چلتا رہے تاکہ ایک بہتر انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسی انڈرسٹینڈنگ میں بلاول بھٹو کا وزیرِاعظم بننا بھی شامل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ نظام کا تسلسل برقرار رہے۔ باقی جب انتخابات ہوں گے تو اس وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ کس پارٹی کا عوام پر زیادہ اثر ہے اور وہی اقتدار میں آئے گی۔ فی الحال جو انڈرسٹینڈنگ ہے وہ یہی ہے کہ نظام جاری رکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ البتہ دوسرے یا تیسرے درجے کے سیاستدان یا وزراء کو اگر کسی بات پر اعتراض یا اختلاف ہو تو وہ اظہار کر دیتے ہیں۔ سیاسی کارکن اکثر اپنی جماعتوں میں تنقید بھی کرتے ہیں اور گفتگو بھی۔ یہ سب معمول کی بات ہے۔ سیاسی جماعت کوئی فوجی رجمنٹ نہیں ہوتی کہ ہر بات مکمل خاموشی سے مان لی جائے۔ چھوٹی موٹی باتیں ہو جاتی ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے کچھ کہا گیا یا ہماری طرف سے کوئی بات زیادہ سخت ہو گئی تو اس میں پریشان ہونے والی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
رانا ثناءاللہ نے پشاور میں پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے کہا کہ تحریک انصاف جتنا مرضی بڑا جلسہ کر لے وہ اپنا ہی نقصان کرے گی، عمران خان کو جلسوں اور احتجاج سے ریلیف نہیں ملنے والا۔
رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ جلسوں سے سیاسی تقویت نہیں ملتی۔ تحریک انصاف والے ملک میں انارکی چاہتے ہیں وہ ملک میں فساد چاہتے ہیں وہ سیاست نہیں کر رہے اور جمہوری رویہ بھی نہیں اپنا رہے۔
انھوں نے کہا سیاست میں یہ تصور ہی موجود نہیں ہے کہ آپ بات چیت، مذاکرات سے دور بھاگیں اور ڈیڈ لاک پیدا کریں۔ یہ کون سا جمہوری رویہ ہے آپ چار سال حکومت کریں اور قائد ایوان یعنی وزیراعظم اپوزیشن سے ایک بار بھی بات ہی نہ کریں، فون بھی نہ کرے ہاتھ بھی نہ ملائے اس طرح سے کبھی جمہوریت چل سکتی ہے۔ ان کا یہ رویہ جمہوریت کے خلاف ہے سیاست کے خلاف ہے۔‘
رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ 24 اور 25 نومبر کو جو کچھ یہ اسلام آباد میں کرنا چاہتے تھے وہ فساد کو انارکی کو اور فتنے کو جنم دیتا ہے۔ جلسہ جو وہ کرنے جا رہے ہیں وہ جلسہ بڑا ہو جائے چھوٹا ہو جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہاں سے ان کی حکومت ہے بڑا جلسہ کرنا کوئی معنی نہیں کرتا۔ سرکاری وسائل خرچ کریں گے سرکاری ملازم کو جمع کریں گے ساتھ اپنے لوگوں کو اکٹھا کریں گے تو بہت بڑا جلسہ ہو جائے گا لیکن اس سے ان کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ اس سے ان کی سیاست میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے لوگ بالکل غلط راستے پہ چل رہے ہیں۔ اس راستے پہ جب تک وہ چلتے رہیں گے وہ ہمیں بھی نقصان پہنچائیں گے ملک کا بھی نقصان کر رہے ہیں لیکن وہ سب سے بڑا نقصان اپنا کریں گے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں کی نظر ثانی کریں اور بیٹھ کر جو بھی مسائل ہیں ان پر بات کریں۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ نومبر میں تحریک انصاف کے کارکنان ڈی چوک پہنچ گئے تھے کیا یہ وزیر داخلہ کی ناکامی نہیں ہے؟ اس پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’میں براہ راست اس کا حصہ نہیں تھا لیکن جلوس کو روکنے کی حکمت عملی میں تھوڑا جھول ہوا جس وجہ سے وہ ڈی چوک پہنچ گئے۔ اس مرتبہ بھی تین جگہ رکاوٹیں لگائی گئی تھیں لیکن بظاہر موثر نہیں ثابت ہو سکیں ورنہ یہ 15 20 ہزار لوگ تھے کوئی اتنا بڑا مجمع بھی نہیں تھا۔ لاکھوں میں نہیں تھا۔ ان کو روکا جا سکتا تھا۔ ہم نے 25 مئی کو ان کو روک کے دکھایا تھا۔ اس وقت عمران خان خود لیڈ کر رہے تھے تو ہم نے روک دیا تھا۔‘
’تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگ گالم گلوچ گینگ سے ڈرتے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعت دراصل عمران خان صاحب کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ انہوں نے اسے ایک حقیقی ادارہ نہیں بنایا اور نہ ہی کوئی اپنا نائب پیدا کیا۔ یہ صرف عمران خان صاحب ہیں جن کے گرد پارٹی کھڑی ہے۔ ان کے ساتھ کئی اچھے اور باصلاحیت لوگ بھی موجود ہیں، بہت سے تجربہ کار اور میچور رہنما بھی ہیں جنہوں نے مختلف حیثیتوں میں کام کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ لوگ کسی قابل نہیں یا غیر سنجیدہ ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے انہیں کسی مؤثر مقام یا فیصلہ سازی میں جگہ نہیں دی۔ وہ لوگ بیچ میں اپنی رائے اور معاملات رکھتے تو ہیں، لیکن ان کی کوئی حیثیت یا وزن نہیں بنتا۔
رانا ثناءاللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے سنجیدہ لوگ آپ سے ملاقات کریں گے، اپنی بات کریں گے، لیکن ان کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عملی طور پر پارٹی کے فیصلے عمران خان کے ہاتھ میں ہیں۔ یوں ایک طرف عمران خان ہیں، دوسری طرف وہ تمام خیر خواہ اور حمایتی ہیں، لیکن وہ سب بے بس ہیں کیونکہ گالم گلوچ گینگ ایک فائٹنگ فورس کی طرح ہیں۔ اگر پارٹی میں کوئی شخص ذرا سا بھی مختلف رائے یا سمجھداری کی بات کرنے کی کوشش کرے تو اس کی فوراً مخالفت کر دی جاتی ہے اور اس کے لیے پارٹی میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔
نواز شریف کی قومی امور سے عملاً لاتعلقی اور خاموشی سے متعلق سوال پر رانا ثناءاللہ نے کہا کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیرِاعظم نامزد کیا تھا، اور اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے الیکشن سے پہلے ہی بھرپور انداز میں یہ کہہ دیا تھا کہ میں اپنی پارٹی کی اکثریت کے بغیر وزیراعظم نہیں بنوں گا۔ مخلوط حکومت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اتحادی اور اپنی جماعت کی حکومت کا تجربہ مختلف ہے اور یہ وہ چیز ہے جس پر شہباز شریف کو عبور حاصل ہے۔ انہیں اس تجربے میں ایک طرح کی ’پی ایچ ڈی‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ جب مسلم لیگ ن سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی تو اس وقت یہ فیصلہ پارٹی کے اندرونی اتفاقِ رائے کے تحت ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر اب بھی حکومتوں کے بنیادی فیصلے نواز شریف کی مشاورت اور مرضی سے ہوتے ہیں۔ البتہ نواز شریف نے اپنے اوپر خود سے ایک پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ ان معاملات میں میڈیا پر کوئی بیان نہیں دیں گے اور نہ ہی میڈیا سے کوئی گفتگو کریں گے۔
’اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف بات کریں گے تو پھر شہباز شریف اور مریم نواز کو کون سنے گا۔ تاہم اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی جماعت اور حکومت سے لاتلقی اختیار کر رکھی ہے۔ جو حقیقت نہیں ہے۔