Express News:
2025-11-09@21:36:46 GMT

زباں فہمی268 اہلِ زبان

اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT

گفتگو شروع کرنے سے قبل ایک جدید محقق کی رائے نقل کرتا ہوں:

’’زبان مورثی (موروثی) نہیں ہے: زبان کے حوالے سے یہ خصوصیت اپنی جگہ اہم ہے کہ زبان بنیادی طور پر مورثی نہیں ہوتی یعنی کہ بولنے والے کو کسی بھی زبان کی صلاحیت اس کے آباو اجداد یا والدین کی طرف سے منتقل نہیں ہوتی بلکہ زبان ماحول کی دین ہوتی ہے وراثت کی دین نہیں ہوتی۔

یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی مادری زبان اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ زبان وراثتی ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ مثال اہم ہے کہ اگر کسی بھی نو مولود بچے کو ہم اپنے سماج یا ملک سے باہر کسی اجنبی ملک یا ایسی جگہ بھیج دیں جہاں ہماری مادری زبان بالکل نہیں بولی جاتی تو وہ ہمارا بچہ وہیں دوسری زبان بولنا شروع کر دے گا‘‘۔

یہ تحریر ہے جامعہ ملّیہ اسلامیہ، دہلی کے محوِ تحقیق طالب علم جناب غلام مصطفی کی جوآنلائن تحقیقی جریدے ’ترجیحات‘ میں شامل ہے اور مجھے آنلائن تلاش وتحقیق میں نظر آئی۔ معاملہ یہ ہے کہ ’مادری‘ زبان کی اصطلاح میں یہ بات شامل ہے کہ زبان ماں سے ملی ہے، خواہ بچّہ ماں کے پیٹ ہی سے سُنتا سیکھتا آرہا ہو۔ اگر ماں گونگی ہو تب یہ ایک الگ بحث ہوگی کہ بچہ کیا بولنا سیکھتا ہے، مگر عمومی کیفیت یہی ہوتی ہے کہ ماں کی زبان، حرکات و سکَنات، عادات اور مختصراً اُس کے کردار کی چھاپ بچّے پر بطنِ مادر ہی سے پڑنی شروع ہوجاتی ہے۔

اگر کوئی بچہ اپنی ماں سے چھوٹی عمر میں بچھڑ جائے اور کسی دوسرے لسانی ماحول میں پرورش پائے تو یقیناً وہ اپنی حقیقی مادری زبان بولنے سے قاصر یعنی معذور ہوتا ہے اور یہ عُذر یا معذوری دورکرنے کے لیے باقاعدہ اکتساب کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اپنی بات شروع کرنے سے پہلے کوئی اور نیا حوالہ نہ سُوجھا، اس لیے یہ پیرا نقل کیا۔ اہلِ زبان وہی ہوتا ہے جو اَپنی مادری زبان دیگر سے زیادہ اور بہتر جانتا ہے یا کم ازکم اُس کے متعلق بات کرتے ہوئے عموماً ’غیراہلِ زبان ‘ کی طرح لغزش کا مرتکب نہیں ہوتا۔ یہ سادہ سا نکتہ ہمارے یہاں بہت سے لوگ سمجھنے کو تیار نہیں!

مجھے ہرشعبہ زندگی میں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا اور پڑتا رہتا ہے جو کوئی بھی بات شروع کرتے ہی قطعیت سے کہہ دیتے ہیں کہ بس یہی صحیح ہے، باقی سب غلط (حتیٰ کہ دیگر کی رائے کو بکواس تک قرار دے دیتے ہیں)۔ چونکہ میرے اپنے پرانے قول کے مطابق ہمارے یہاں تقریباً ہر شخص دین مذہب، سیاست، کرکٹ اور زبان (خصوصاً اردو) کے کسی بھی موضوع اور مسئلے کے متعلق ہمہ وقت بھاشن اور فتوے قسم کی حتمی رائے بلاجھجک دینے کو تیّار رہتا ہے، لہٰذا یہ بھی طے ہے کہ آپ کسی بھی’’ادبی بقراط‘‘ سے پوچھیں تو عین ممکن ہے کہ وہ یہ کہے کہ جی ہاں یہ اہلِ زبان ہونے کا دعویٰ اور اِس سے متعلق مباحث، اَزکارِ رفتہ ہوگئے ہیں;اردو سب کی زبان ہے، سو اُردو بولنے والے سبھی اہلِ زبان ہیں۔

یہاں میرا ایک سادہ سا سوال ہے جو ماقبل اسی سلسلے کے بعض پرانے مضامین میں بھی لکھ چکا ہوں: آیا یہ کُلّیہ فقط اُردو ہی کے لیے ہے یا سبھی زبانوں پر اِس کا اطلاق ہوتا ہے؟ یقین کیجئے کہ اس کا جواب کوئی بھی ’غیراہلِ زبان‘ خاص یا عام شخص، اِثبات میں نہیں دے گا۔ یہاں یاد رکھنے کی بات ہے کہ فقط اُردو ہی نہیں، دنیا کی ہر زبان کے ’اہلِ زبان (Native speakers)‘ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص دوسرے کی زبان سیکھ کر اُس پر اِجارہ قائم کرلے۔ آج انٹرنیٹ پر انگریزی بول چال کی اقسام دیکھیں اور پھر کوشش کریں کہ اپنے مَبلَغِ علم اور مزاج کے مطابق انگریزی میں ’جدّت‘ کردیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کی جدت طرازی مان لی جائے۔ انڈین انگلش باقاعدہ اس فہرست میں شامل ہے جبکہ حیرت انگیز طور پر پاکستانی انگلش کتابی تحقیق کی حد تک تو اَلگ ہے ، ذرایع ابلاغ میں اس کا کھاتہ الگ نہیں!

ناواقفین کی تفہیم کے لیے ذرا کھُل کر بات کرتا ہوں کہ آیا میں (پنجابی نہ ہوتے ہوئے)، جیسی بھی پنجابی بولوں، اس میں حسبِ منشاء کوئی بھی ترمیم واضافہ کردوں ۔یا۔اپنا کوئی سہو ماننے کی بجائے کہوں کہ سب چلتا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے.

...تو کیا اہلِ زبان پنجابی ایک لمحے بھی میری بات برداشت کریں گے؟ چلیے سندھی کی بات کرتے ہیں۔ میری سندھی بول چال کی مشق مدتوں سے کم ہونے کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اگر (ہنگامی صورت حال میں) کبھی بولنی پڑجائے تو زیادہ دیر تک اور زیادہ رَواں نہیں بول سکتا، مگر تحریر اور ترجمے میں بحمداللّہ، بے شمار ’شہری‘ سندھیوں سے بہتر ہوں....تو کیا میری بول چال یا تحریر میں کوئی اتفاقی سقم کوئی بھی اہلِ زبان سندھی معاف کردے گا؟ ....ہرگز نہیں! (فارسی بول چال میں تو خیر محنت نہیں کی، مگر فرینچ میں اس سے کہیں زیادہ رَواں تھا۔ ہائے افسوس!)

صاحبو! جب کسی بھی زبان کے لیے یہ کُلّیہ قابلِِ قبول نہیں تو پھر قومی زبان پر کیوں تھوپا گیا؟ پھر یہ کہنا کہ جی فُلاں فُلاں اور فُلاں نے تو اُردو کی خدمت، اہلِِ زبان سے کہیں بڑھ کر کی ہے (اس لیے آپ کو لائسنس مل گیا کہ جیسے چاہیں غلط سلط زبان لکھیں، اس میں ادب اُلٹا سیدھا تخلیق کریں، مُصِر رہیں کہ یہ بھی صحیح ہے اور جیسے چاہیں بولتے رہیں؟؟) حضور! تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ بلاامتیازِ لسانی تفرقہ،

’’اردو گو‘‘ طبقے کے متعدد اَفراد نے پاکستان کی تقریباً تمام بڑی علاقائی یا مقامی زبانوں کی اہلِِ زبان سے کئی گُنا زیادہ خدمت کی ہے، خواہ وہ ادبیات ہوں، لسانیات ہوں یا تہذیب وتمدن کا باب۔یا۔ مجموعی طور پر اُس زبان اور اُس کے بولنے والوں کی تاریخ پر تحقیق۔ یہاں نام گِنوانا کچھ اضافی لگے گا، ہرچند کہ ماضی میں اس بابت لکھ چکا ہوں۔

پچھلے چند برسوں سے ایک جملہ بہت نقل کیا گیا کہ ’’اب اُردوئے معلّیٰ نہیں، اُردوئے محلّہ چلے گی‘‘۔ اگر اس چالو بات کا تجزیہ کیا جائے تو مفہوم یوں نکلے گا: بجائے کسی بزرگ سے یہ پوچھنے کے کہ ’قبلہ! کہاں جارہے ہیں؟‘، یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ ’او بابے او، کہاں جارہے ہو؟‘ اور ’مجھے بھی آپ کے ساتھ چلنا ہے‘ کی بجائے ’میں نے بھی جانا ہے ساتھ‘ کہا جائے گا۔ رسمی، کتابی، معیاری اور اَدبی زبان یقیناً بول چال کی زبان سے مختلف ہوتی ہے مگر اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ہرطرح کی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو چاہے ، جیسے چاہیں کہہ دیں۔

اب ذرا یہ اقتباس دیکھیے جو ہمارے ایک بزرگ (پُشتُون) معاصر کے کالم سے لیا گیا ہے:’’....... اردو زبان کے بارے میں اگر صحیح صحیح کہا جائے تو وہ یہ کہ یہ زبان سب کی ہے اور جب سب کی ہے تو سب ہی اہل زبان ٹھہرے۔ اس کی صفت ہمہ گیری ہے محدودیت نہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس میں ایک بلکہ آدھا لفظ بھی ایسا نہیں جسے اردو زبان کا اپنا لفظ قرار دیا جا سکے اور جب کوئی لفظ ہی نہیں تو زبان کیسی اور اہل زبان کیسے؟‘‘ (اردو زبان کس کی ہے؟ تحریر: سعداللّہ جان برق۔۔۔۔مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس مورخہ 25فروری2019)۔ یہاں بغیر کسی تعصب اور مرعوبیت کے (اور پورے کالم کے بخیے اُدھیڑے بغیر) عرض کرتاہوں کہ:

ا)۔ آپ نے بھی ایک کلیشے یا مفروضہ دُہرادیا کہ اُردو زبان کا اپنا کوئی لفظ سِرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ بات خلافِ حقیقت ہے۔ دنیا میں کوئی بھی زبان ایسی جامد نہیں کہ بس دوچار، دس بیس زبانوں سے الفاظ وتراکیب ومحاورات وغیرہ مستعار لے کر کام چلاتی ہو او راُس کے بولنے والوں کو کبھی اپنا کوئی لفظ وضِع کرنے کی نوبت ہی پیش نہ آئی ہو۔

ب)۔ اگر اُردو سبھی کی زبان ہے تو پُشتو بھی ہم سب کی زبان ہے۔ محترم مجھے اجازت دیں گے کہ پُشتو کی کوئی بھی تحریر (نظم ونثر) دیکھ کر اُس کا مفہوم کسی اہل ِزبان سے معلوم کرکے کوئی نیا رُوپ دوں کہ اصل میں مصنف یا شاعر یہ کہنا چاہتا ہے اور میری (باوجودیکہ مَیں کوئی پُشتون نہیں) اس بابت یہ رائے ہے؟

سعداللہ جان برقؔ صاحب تو خیر محبانِ اردو میں شامل ہیں، اُن کا اپنا مؤقف ہے، خواہ اختلافِ رائے کا مُوجب ہی ہو، مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ ایک طرف لوگ اردوکو سب کی زبان کہتے ہیں تو دوسری طرف جا بے جا یہ کہتے لکھتے نظر آتے ہیں کہ اردو پاکستان میں فقط سات فیصد کی زبان ہے (یعنی مادری زبان)۔یا۔اردو پاکستان میں کسی کی مادری زبا ن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ جیسے متعصب افراد کی ایسی باتوں کو عالمی سطح پر پذیرائی تو مل گئی، مگر آپ کی اپنی شناخت بطور قوم کیا ہے اور آپ کی اپنی مادری زبان کو دنیا میں کتنا اہم سمجھا جاتا ہے جو آپ قومی زبان کی بے توقیری ضرور ی سمجھتے ہیں۔ ماضی میں سلسلہ زباں فہمی کے ایک مضمون میں یہ بات تخمینوں کی مدد سے ثابت کرچکا ہوں کہ اگر اُردو اور ہندی کے اہل زبان کے دستیاب (اور غیرحقیقی ) اعدادوشمار یکجا کرلیے جائیں (کیونکہ یہ دونوں ایک ہی زبان کے دو رُوپ ہیں) پھر اِ ن میں ان دونوں کی مختلف بولیوں کے اہل زبان کی تعداد بھی جوڑ لی جائے تو بخدا اُردو ہی دنیا کی سب سے بڑی زبان ثابت ہوگی۔

ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر فہیم اعظمی صاحب اس جدید نظریے کے متشدد حامی تھے کہ ’’اہل ِ زبان کوئی نہیں، ہر زبان بولنے والا ہر شخص اہلِ زبان ہے‘‘۔ {یہ بات Thomas M. Paikeday نامی ایک ماہرِ لُغات(lexicographer ) نے اپنی مرتبہ کتاب The Native Speaker is Dead(مطبوعہ 1985ء) میں لکھی۔اس کتاب میں ماہرین کے درمیان ہونے والی غیررسمی گفتگو کو ایک عنوان کے تحت یکجا کرکے گویا ایک نظریہ تشکیل دیا گیا۔ ’بابائے جدید لسانیات‘ نوم چومسکی (Noam Chomsky ) (پ:7دسمبر 1928 ) نے ’اہلِ زبان‘ (Native speaker) کے وجود ہی کو بے معنیٰ قراردیا}۔ وہ اپنے مؤقر اَدبی جریدے صَرِیر میں اس موضوع پر مغربی اہل قلم کی نگارشات سے استفادہ کرتے ہوئے بکثرت اظہارِخیال کیا کرتے تھے۔ ایک دن خاکسار نے بلاتمہید اُن سے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب! کوئی تو کلّیہ قاعدہ ہوگا۔ آپ نے کیسے سب کو اہلِ زبان قراردے دیا؟‘‘۔ وہ میرے مزاج اور اسلوب سے بخوبی آشنا اور میرے قدرداں تھے، ہنس کر ٹال گئے۔

(ویسے ایک لطیفہ یہ ہواکہ ایک دن بیٹھے بِٹھائے مجھے شرارت سُوجھی تو میں نے پاکستان میں مابعدِ جدیدیت کے سب سے بڑے نقیب، ڈاکٹر فہیم اعظمی صاحب سے کہا کہ یہ آپ کیا ’پسِ خُرافات ‘ اور ’مابعدِ خُرافات‘ کہتے رہتے ہیں۔ وہ اعلیٰ ظرف تھے، ہنس کر چُپ رہے، ورنہ کوئی اور ہوتا تو باقاعدہ تفصیل سے برہمی کا اظہار کرتا اور مجھ سے قطع تعلق کرلیتا)۔

میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتا اور لکھتا آیا ہوں کہ ہم اردو والوں یا مشرق والوں پر ہرگز واجب نہیں کہ کسی بھی معاملے خصوصاً زبان واَدب میں مغرب سے آنے والی ہر چیز، ہر نکتے، ہر بیان اور مفروضے (عُرف نظریے) کی فوری تائید وتقلید کریں۔ مثالیں بہت سی ہیں۔ اگر مشرقی ادبیات کی بات کی جائے تو ہمارے یہاں عرب کی قدیم تاریخ میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک صحابی رسول کے گھر پر (بعہدجاہلیت) باقاعدہ ادبی نَشَست ہوا کرتی تھی، لہٰذایہ کہنا صحیح نہیں کہ تنقید ہمارے یہاں مغرب ہی سے آئی اور پورے مشرق میں اس کا کوئی وجودنہ تھا۔

جہاں تک اردو کی بات ہے تو باقاعدہ تنقید نگاری کے آغاز سے قبل، زبانی کلامی یا تحریری تنقید کسی نہ کسی شکل میں پہلے سے موجود تھی۔ یہ الگ بات کہ ہم پڑھتے نہیں، تحقیق نہیں کرتے اور بس کلیشے دُہراتے ہیں کہ آزادؔ نے یا حالیؔ نے اُردو میں تنقیدنگاری شروع کی۔ بات کی بات ہے کہ مجھ جیسے کم علم وکم فہم شخص کے لیے نوم چومسکی سمیت کسی بھی بڑے مغربی ’جنّ‘ کی باتیں سمجھنا چنداں آسان نہیں!

ہم اپنے معاملات اپنے ہی تناظُر میں دیکھنے کی عادت ڈالیں تو اَچھا ہے۔ بقول پروفیسر اقبال عظیم مرحوم:

اپنی مٹّی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سِیکھو

سنگِ مر مر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے

اوپر بات ہوئی اردو اور ہندی کے تعلق کی تو یہ مسئلہ بھی بہت اہم ہے کہ انگریز کی ایجادکردہ مصنوعی ہندی کی وجہ سے بھارت میں اردو کے لیے بہت سے مسائل نے جنم لیا۔ اردو پر محض مسلم زبان کا ٹھپّہ لگاکر، ہر طرح محدود کیا گیا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ خود اُردووالوں نے اردو کی ہمہ جہت ترویج سے ہاتھ اُٹھالیا۔ میں ہمسایہ ملک کے مشاہیرِادب سے رابطہ رکھتا ہوں، اس لیے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد مسلمانوں اور اُردو کی تباہ حالی کے ذمے داروں میں خود مسلمان اُردو گو بھی شامل ہیں۔

جناب غزالی خان کاایک مضمون ’’اہلِ زبان نے (ہندوستان میں) اردو کی تدفین کے لیے اسے کفن پہنا کر تیارکردیا ہے‘‘ نظر سے گزرا۔ اُس سے اقتباس پیش خدمت ہے:’’ہندوستان میں اردو کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی اردو بولنے والوں نے خود کی ہے اور کررہے ہیں۔ پہلے تو اردو لکھنا پڑھنا یہ کہہ کر چھوڑا کہ اسکولوں میں اس کی سہولت نہیں ہے اور پھر رفتہ رفتہ اسے یوں ’تیاگ‘ دیا جیسے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پچاس، ساٹھ یا ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کے لیے اردو پڑھنے کی کچھ زیادہ آسانیاں تھیں؟ اگر اس وقت کچھ زیادہ سہولیات (سہولتیں: س ا ص) تھیں اور اَب نہیں ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے اور انہیں بچانے کے لیے کون سی عملی کوششیں کی گئیں؟

جن ریاستوں میں اردو بولی جاتی ہے وہاں اس جماعت کی ان سے کیوں غلامی کروائی جاتی رہی جس نے فسادات میں اُن کے قتل عام سمیت ہر اُس چیز کو برباد کردیا جس کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق مسلمانوں اور ان کی امتیازی شناخت سے تھا؟ انتہا تو یہ ہے کہ آپ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جن اردو الفاظ کو ہندی والے بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ان تک کے لیے آپ سنسکرت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ’صرف‘ کے لئے ’کیول‘، ’مشکل‘ کے لیے ’کٹھن‘ وغیرہ۔ پتہ نہیں یہ ہندی بولنے والے لوگوں تک اپنی بات پہچانے کی کوشش ہے یا اردو کے ساتھ دشمنی۔..... جس طرح اردو داں لوگ یو ٹیوب کلپس، ٹیلی ویژن مباحثوں اور تقاریر میں ہندی بولتے نظر آتے ہیں وہ تو اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس جانب توجہ دلائی جاتی ہے تو جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ غیراردو داں لوگ گفتگو کوبہ آسانی سمجھ سکیں‘‘۔

آخرش ایک انتہائی محترم ہندوستانی بزرگ دوست کا نام (بوجوہ) لیے بغیر لکھ رہا ہوں کہ وہ نہ صرف یہ کہ اردو ذریعہ تعلیم اور اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے ہمہ وقت، ہمہ تن مشغول ہیں، بلکہ اپنے اس مؤقف کا اظہار بھی واضح طور پر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہمہ جہتی زبوں حالی میں خود اُن کی اپنی پست ہمتی اور اَزلی سُستی کا بہت دخل ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہمارے یہاں کی زبان ہے اہل زبان بھی زبان کوئی بھی یہ ہے کہ زبان کی نہیں ہے کہ زبان یہ کہنا کسی بھی زبان کے نہیں کہ ہی نہیں کرتے ہی جائے تو ہے کہ ا ردو کی ن نہیں ہیں تو ہیں کہ کی بات مجھے ا کے لیے ہے اور میں یہ ہوں کہ یہ بات بات ہے

پڑھیں:

اس وقت پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، مذاکرات کے اگلے دور کا اب کوئی پروگرام نہیں، ترکیہ اور قطر ہمارے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کے دوران وزیر دفاع نے کہا کہ اس وقت پاک افغان مذاکرات میں مکمل ڈیڈلاک ہے، مذاکرات کے اگلے دور کا اب کوئی پروگرام نہیں، اس وقت اب مذاکرات کے اگلے دور کی امید نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکیہ اور قطر کے شکر گذار ہیں، انہوں نے خلوص کے ساتھ ثالثوں کا کردار ادا کیا۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ افغان وفد کہہ رہا تھا کہ ان کی بات کا زبانی اعتبار کیا جائے، جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بین الاقوامی مذاکرات کے دوران کی گئی حتمی بات تحریری طور پر کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں افغان وفد ہمارے موقف سے متفق تھا مگر لکھنے پر راضی نہ تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے ہیں ،ان کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھہر جائیں، اگر ثالث ہمیں کہتے کہ انہیں امید ہے اور ہم ٹھہر جائیں تو ہم ٹھہر جاتے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں، اگر افغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا تو اس حساب سے ردعمل دیں گے۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ اگر افغان سر زمین سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہمارے لیے سیز فائر قائم ہے۔ جب افغانستان کی طرف سے سیزفائر کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم موثرجواب دیں گے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سر زمین سے پاکستان پر حملہ نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلیاں
  • وفاقی اردو یونیورسٹی رو ڈپرسیوریج کی وجہ سے ٹریفک روانی متاثرہورہی ہے خاص کرموٹرسائیکل سواروں کوشدید دشواری کاسامنارہتاہے
  • ذرا سنبھل کے
  • کراچی: نیپا چورنگی سے وفاقی اردو یونیورسٹی تک روڈ 10 نومبر سے 30 دسمبر تک بند رہے گا
  • شہرِ قائد کی اہم شاہراہ کئی روز کیلیے بند کرنے کا اعلان
  • ایشیاکپ ٹرافی تنازع، آئی سی سی کی بڑی پیشکش
  • اس وقت پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے، خواجہ آصف
  • سونے کی قیمت میں آج کوئی تبدیلی آئی یا نہیں؟
  • ’لغو‘ کیا ہے؟