فرسودہ رسم و روایات کے غلامی
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
رواں ماہ پاکستان کو آزاد ہوئے 78 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ہر سال 14 اگست کو یومِ آزادی پورے قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بچے، بڑے، بوڑھے، جوان خواتین حضرات سب ہی کسی نہ کسی طرح اس جذبے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم فضا میں لہراتے ہیں، ملی نغمے گونجتے ہیں اور اس ملک کے لیے دی گئی قربانیوں کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔
لیکن آزادی کا جشن مناتے ہم لوگ کیا آزادی کا درست مقصد اور معنی جانتے ہیں؟ کیا واقعی ہم ذہنی طور پر آزاد ہیں یا 14 اگست کو ہم نے پاکستان کے نام پر صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہی آزاد کرایا تھا؟ کیا ہماری سوچ اور مقصد آزاد ہیں اور اگر ہم آزاد ہیں، تو کیا ہم یہ آزادی مذہب، نسل، صنف، ذات پات سے بالاتر ہوکر سب کے لیے تسلیم کرتے ہیں؟
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ تحریکِ آزادی میں خواتین کا کردار کسی بھی طرح مردوں سے کم نہ تھا۔ ان خواتین نے محض نعرے بازی یا جلسوں میں شرکت نہیں کی، بلکہ عملی میدان میں آگے بڑھ کر قربانیاں بھی دیں، قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں، اور اپنے بیٹوں کو وطن پر قربان کرنے سے بھی کوئی دریغ نہ کیا۔ کتنی ہی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اِس پاکستان کی مٹی کے لیے قربان کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے صنف نازک کی ان قربانیوں کی لاج رکھی؟ کیا ہم نے آزادی کے ان 78 سالوں میں عورت کو اس کا جائز مقام دیا؟ کیا وہ عورت جس نے قیام پاکستان کے لیے قربانیوں کے ساتھ ساتھ اہم کردار ادا کیا وہ عورت جو تحریکِ پاکستان میں عظمت و ہمت کی علامت تھی کیا آج اس پاکستان میں محفوظ ہے؟
آج بھی جب ہم اخبارات اور ٹی وی چینل پر نظر ڈالتے ہیں، تو خواتین سے متعلق خبروں کا منظرنامہ بہت دل خراش اور افسوس ناک ہوتا ہے۔ کہیں غیرت کے نام پر بہن کو قتل کیا جاتا ہے۔ کہیں شوہر اپنی بیوی پر کبھی ذہنی تو کبھی جسمانی تشدد کر کے اسے مار ڈالتا ہے۔ کہیں لڑکی کو شادی سے انکار پر تو کہیں اپنی پسند سے شادی کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے یا زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ کہیں بہو کو بیٹی کی پیدائش پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ تو کہیں ہوّا کی بیٹی کو آبروریزی کا نشانہ بنا کر لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے اور یہ سب اس پاکستان میں ہو رہا ہے، جس کے لیے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ آج اگر ہم جائزہ لیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کیا، اپنی سوچ کو ہم 78 سال بعد بھی فرسودہ رسم و رواج سے آزاد نہ کرا سکے۔
پاکستانی معاشرے میں ایسی سوچ اتنی گہری ہے کہ یہ اکثر شعوری طور پر محسوس بھی نہیں کی جاتی۔ عورت کا گھر سے نکلنا، نوکری کرنا، تعلیم حاصل کرنا، اپنی پسند سے زندگی گزارنے کا خواب دیکھنا، سب کچھ اب بھی ایک بڑے طبقے کو ناگوار گزرتا ہے۔ لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھے جانے سے لے کر بچپن میں شادی کروا دینے تک کون سی ایسی روایت ہے، جس سے معاشرے نے اپنے آپ کو آزادی دلائی ہو؟ بیٹیوں کی زندگی میں گھریلو کام اور تعلیمی میدان میں توازن پیدا کرنے کے بہ جائے ان کو بچپن سے زندگی کے صرف ایک پہلو کے حوالے سے تربیت اور راہ نمائی فراہم کی جاتی ہے۔ کیریئر بنانے والی خواتین کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ رویّے ہیں، جو عورت کو بظاہر ’’عزت‘‘ کے پردے میں قید رکھتے ہیں، مگر اصل میں اس کی ترقی، شناخت اور خودمختاری کو دباتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ ایک ایسا سیاہ داغ ہے، جو پاکستانی معاشرے کے چہرے سے کسی طور دھلنے کا نام نہیں لیتا۔ چاروں صوبوں میں یہ گھناؤنا کام مختلف ناموں سے جاری ہے۔ عورت کو خاموش کروانا، دبانا، اور قتل کرنا، صرف اس لیے کہ وہ اپنی مرضی سے جینے کی خواہش رکھتی ہے۔
دوسری جانب فرسودہ رسم و رواج کا مقیّد ہمارے معاشرے کا شعور قاتل کو خاندان کا ہیرو سمجھتا اور بتاتا ہے۔ قانونی نظام خاموش رہتا ہے، کمزور ہوتا ہے یا پھر کسی نہ کسی شک یا قانونی سقم کے سہارے قاتل کو بچا لیا جاتا ہے۔ مقتولہ کے ورثا صلح کر لیتے ہیں یا خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یعنی، عورت کی جان کی قیمت اب بھی اتنی کم ہے کہ اسے روایات اور غیرت کے نام پر چپ چاپ قربان کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے آئین اور قانون میں خواتین کے لیے تحفظ کی متعدد قوانین موجود ضرور ہیں، جن میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں، وراثتی حقوق کا تحفظ، خواتین پر تشدد کے خلاف قانون سازی، زیادتی اور ہراسانی کے خلاف قوانین وغیرہ شامل ہیں، لیکن سوال یہ ہے کیا یہ قوانین آج تک واقعی عورت کو تحفظ فراہم کر سکے ہیں؟
نہیں! حقیقت یہ ہے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود ان پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کا رویہ، عدالتی نظام کی سست روی، گواہوں کی عدم موجودگی، اور سماجی دباؤ، سب مل کر انصاف کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
بحیثیت معاشرہ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ قوموں کی ترقی صرف زمین کے حصول یا جھنڈے لہرانے سے نہیں ہوتی، بلکہ سوچ کی آزادی، برابری، انصاف اور انسانی حقوق کے احترام سے ہوتی ہے۔
اگر عورت اب بھی اپنے وجود، اپنے خوابوں اور اپنی زندگی کے فیصلوں میں آزاد نہیں، اگر وہ اب بھی فرسودہ روایات، جھوٹی غیرت اور معاشرتی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور دقیانوسی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے، تو ایسی آزادی صرف سطحی اور ظاہری خوشی ہے، روحانی قید نہیں تو اور کیا ہے؟
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا احتساب خود کریں۔ ہمیں نئی نسل کو ایسے نصاب، تربیت اور ماحول دینا ہوگا، جہاں لڑکیاں اور لڑکے برابر سمجھے جائیں۔ لڑکی کی تعلیم صرف زیور نہیں، اس کا حق سمجھا جائے۔ عورت کی خودمختاری کو بے راہ روی نہ سمجھا جائے۔ ہمیں ایسے وطن کی ضرورت ہے، جہاں پسند کی شادی جرم نہ ہو۔ مرد کی غیرت عورت کی زندگی کی قیمت پر نہ تولی جائے۔ میڈیا، اسکول، والدین، علما، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سب کو مل کر اس ظالمانہ سوچ کو بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
اب جب ہم جشنِ آزادی منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، تو لازم ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ کیا وہ عورت جس نے مرد کے شانہ بہ شانہ اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا، آج واقعی آزاد ہے؟ کیا وہ بہن، ماں، بیٹی، جو کل بھی قربانی دے رہی تھی، آج بھی اسی قربانی کی صلیب پر چڑھی ہوئی ہے؟
ہمیں ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھنا ہے، جہاں عورت کو صرف ایک ’عورت‘ نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان سمجھا جائے۔ جہاں آزادی کا مطلب صرف سرحدوں کی حفاظت نہیں، بلکہ ضمیر، عزت اور اختیار کی حفاظت بھی ہو۔ تبھی ہم حقیقی آزادی کا جشن منا سکیں گے، ورنہ ہر سال 14 اگست کو پرچم ضرور لہرائے گا، لیکن ایک عام عورت کی امیدیں سرنگوں ہی رہیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دیا جاتا ہے کے نام پر ا زادی کا عورت کی عورت کو اب بھی کیا وہ کے لیے کر دیا کیا ہم
پڑھیں:
کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر
کراچی والے بارش سے ڈرتے ہیں،کیونکہ ایک دن کی بارش سے شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، حالیہ بارشوں نے جہاں جنوبی پنجاب کو نشانہ بنایا،گجرات کو ڈبویا، وہیں کراچی کو تباہ کر دیا، چند علاقوں کو چھوڑ کر سارا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سڑکیں زیر آب آگئی ہیں، لوگوں کے گھروں میں پانی بھر گیا ہے۔
بعض علاقوں میں یوں ہوا کہ سیلابی پانی سے بچاؤ کی خاطر اپنا سامان اپنے رشتے داروں کے ہاں منتقل کر دیا، لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ جہاں انھوں نے سامان رکھا تھا، وہاں بھی سیلابی ریلا آ گیا، لوگوں نے بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچائیں، وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر سیلاب آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ انھوں نے بارش سے نمٹنے کی تیاری کر لی ہے اور یہ کہ انتظامی صورت حال ان کی گرفت میں ہے لیکن بارش ہوتے ہی سارا کچا چٹھا سامنے آ گیا، تمام سڑکیں زیر آب اور باقی رہ گئی ہیں، ان میں شگاف پڑھ گئے ہیں، سڑکیں دھنس گئی ہیں اور گڑھوں میں پانی بھر گیا ہے۔
کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جو میٹروپولیٹن سٹی کہلاتا ہے، یہاں سے 70 فی صد ٹیکس حکومت کو جاتا ہے، چونکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کبھی ووٹ نہیں ملتے، اس لیے پی پی کبھی کراچی پر کراچی کا ٹیکس خرچ نہیں کرتی، تنگ دلی کی یہ مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ گجرات شہر بھی سیلابی پانی میں ڈوب گیا لیکن مسلم لیگی حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی کیونکہ گجرات سے ووٹ نہیں ملے تھے، لیکن جو حال کراچی کا ہے اس کے ساتھ المیہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی سب کچھ ہضم کر جاتی ہے۔ کراچی کے میئر کو بھی اس شہر کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ساری سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، ان سڑکوں پہ سفرکرنے والوں کی کمر جھٹکوں کی تاب نہیں لا سکتی۔
ہر دوسرا آدمی کمر درد اور سروائیکل کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ الیکشن کے بعد جن کو نوازا گیا، انھوں نے اپنی مرضی کا نظام نافذ کر دیا۔ ’’ بڑوں‘‘ نے حکم دیا کہ انھیں نہ چھیڑا جائے، انھیں اپنی مرضی کرنے دی جائے اور اس حکم کے بعد پیاروں کو حکومت دے دی۔ اسی لیے کراچی کو لاوارث قرار دے دیا، اس شہر سے لوگ ووٹ لیتے ہیں لیکن اس بدنصیب شہر کی پرواہ کوئی نہیں کرتا، کسی نے کہا تھا کہ ’’ہم کراچی کو پیرس بنائیں گے۔‘‘ لیکن ہوا کیا؟ بھتہ خور مافیا نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا۔
حکمران اگر چاہیں تو کراچی سنور سکتا ہے کیونکہ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں نے اپنے دور میں وعدہ کیا کہ وہ کراچی کی فکر کریں گے، لیکن ہو کیا رہا ہے؟ ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں، لوگوں کا گزرنا محال ہے۔صورتحال بہت تشویشناک ہے، لقمہ اجل صرف غریب کیوں بن رہا ہے؟ تباہی صرف غریبوں کو کیوں خون کے آنسو رلا رہی ہے؟ جن کی وجہ سے یہ سیلابی صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ تو آرام سے اپنے اپنے گھروں میں محو خواب ہیں، جنھوں نے نالوں پہ گھر بنا کر بیچ دیے، وہ تو اپنا حصہ لے کر بیٹھ گئے، تباہی آئی تو غریب پر، قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی سزا بہرحال ملتی ہے۔
کہتے ہیں دریا اور سمندر اپنی زمین واپس لیتے ہیں۔ لاہور میں راوی کنارے جو بستی بسائی گئی تھی وہ زیر آب آگئی، بلڈرز نے رشوت دے کر این او سی حاصل کر لیا اور گھر بنا کر بیچ دیے۔
ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ابھی تک کوئی دوسری خبر نہیں آئی کہ راوی کنارے ہاؤسنگ اسکیم کے بنانے والے کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں؟ ہر جگہ پیسہ چلتا ہے، جس طرح مافیا نے بستی بسانے کا لائسنس حاصل کیا، اسی طرح وہ چھوٹ بھی جائیں گے۔
ہمارے صاحب اقتدار افراد نے دولت کی ہوس میں سمندر کے پاس زمین بھی بیچ دی اور اسے خشک کرکے وہاں پوش آبادیاں قائم کر لیں، کبھی بہت پہلے باتھ آئی لینڈ تک پانی آیا کرتا تھا، اس وقت ہاوسنگ سوسائٹی بننا شروع ہوئی تھی، مزید دولت کی ہوس میں سمندر کو مٹی سے پاٹ کر انتہائی قیمتی ہائی رائز اپارٹمنٹ بنا دیے گئے ، صرف یہی نہیں بلکہ ساحل سمندر پر بے شمار ریسٹورنٹ بنا دیے گئے ہیں جہاں علاوہ بسیار خوری کے کچھ بھی نہیں، کبھی کلفٹن پر فش ایکوریم، امیوزمنٹ پارک اور مختلف تفریحات کا انتظام تھا، بچوں کی تفریح کا انتظام تھا، لیکن اب صرف کھانے پینے کے ڈھابے رہ گئے ہیں، مینگروز جو سمندری سیلاب کے خلاف قدرتی مدافعت ہوتی ہے اسے بھی تلف کرکے پلاٹ بنا دیے گئے ہیں اور مختلف ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا کر اربوں روپے کما لیے گئے۔
ہوس ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس لوٹ مار میں سبھی شامل ہیں، کے ایم سی اور کے ڈی اے کے افسران سے کبھی رشوت کبھی سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے اورکبھی بدمعاشی سے تجاوزات اور چائنا کٹنگ کرکے ہر طرف تعمیر شروع کر دی، کراچی اب کنکریٹ کے جنگل کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ ایک سو بیس اور دو سو گز پر صرف ایک گھر ہوتا تھا، اور ایک گھرانہ۔ اب ان چھوٹے پلاٹوں پر چھ اور سات منزلہ بلڈنگز تعمیر ہو گئی ہیں، پہلے ایک گھرانہ رہتا تھا اب تین فلیٹ بن گئے ہیں، بعض علاقوں میں نوے گز پر آٹھ دس فلیٹ بن گئے ہیں جس سے سیوریج کا سسٹم خراب ہو گیا ہے، ہر طرف گٹر ابل رہے ہیں، حالیہ بارشوں کے بعد شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔بے تحاشا آبادی، سڑکوں پر دھواں اگلتی گاڑیاں اور ان سے کاربن گیس کا اخراج ماحول میں زہر گھول رہا ہے، شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔
باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے اس شہر کو مزید برباد کر دیا ہے، چوری اور ڈاکہ زنی میں یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ دوسرے علاقوں کی اجنی عورتیں سڑکوں اور ویگنوں میں خواتین کے پرس سے مال چرا لیتی ہیں اور کسی خاتون نے اگر سونے کی چین پہنی ہو تو تین عورتیں مل کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرکے چین اتار لیتی ہیں۔
خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ تقریباً تین تولے کی چین اور اس میں پڑا ہوا لاکٹ الٰہ دین پارک میں ان عورتوں نے اتار لیا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی، لیکن ساری خواتین ایسی نہیں ہوتیں، کچھ گھروں میں کام کرتی ہیں اور عزت کی روٹی کماتی ہیں، بعض مرد چنگ چی رکشہ چلاتے ہیں۔اگر کراچی کے اطراف میں پھیلے سمندر نے واپسی کا سفر شروع کر دیا تو کیا ہوگا، کراچی سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔
شاید یہ کسی نیک بندے کا فیض ہے کہ کراچی اب تک طوفانوں سے بچا ہوا ہے، لیکن حالیہ بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خدارا تعصب ختم کیجیے اور کراچی کو مزید تباہ ہونے سے بچائیے۔ یہ شہر بڑا پالن ہار ہے، یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہ شہر بڑا غریب پرور ہے۔ پورے پاکستان سے یہاں لوگ آئے ہوئے ہیں تاکہ روزی کما سکیں، خدارا اس شہر پر رحم کیجیے۔