ٹرمپ کے کوٹ پر ’لڑاکا طیارے کی پن‘، کیا اس میں بھارت کے لیے کوئی پیغام ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے حالیہ ملاقات سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر زیرِ بحث ہے۔ اس ملاقات کو پاکستان کی کامیاب سفارتکاری کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ اس دوران کی وائرل تصاویر مختلف قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کے ہمراہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تصاویر میں ٹرمپ کے کوٹ پر امریکی پرچم کے ساتھ ایک جنگی جہاز (فائٹر جیٹ) کی پن بھی نمایاں ہے، جس پر پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات، بھارتی شہری اپنے وزیراعظم مودی پر پھٹ پڑے
بعض صارفین اس پن کو پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ ایک علامتی اشارہ ہے، جسے وہ پاکستان کی عسکری کامیابی اور بھارت پر بالادستی کے ’اعتراف‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ایک صارف نے کہا کہ ایک بات جو کل ٹرمپ نے انڈیا کو ٹرول کرنے کے لیے کی اس پر زیادہ بات نہی ہو رہی وہ اپنے کوٹ کے کالر پر امریکی جھنڈے کے علاوہ ایف 16جنگی جہاز کا ایک چھوٹا ماڈل بھی لگایا ہوا تھا۔
ایک بات جو کل ٹرمپ نے انڈیا کو ٹرول کرنے کے لیے کی اس پر زیادہ بات نہی ہو رہی وہ اپنے کوٹ کے کالر پر امریکی جھنڈے کے علاوہ ایف 16جنگی جہاز کا ایک چھوٹا ماڈل بھی لگایا ہوا تھا ???????? pic.
— RAShahzaddk (@RShahzaddk) September 26, 2025
کامی نامی صارف نے لکھا کہ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے دوران بھی مودی کو ٹرول کر دیا، جہاز والا پن کوٹ پر سجا کر دنیا کو پیغام دے دیا۔
ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کے دوران بھی مودی کو ٹرول کر دیا ✈️
جہاز والا پن کوٹ پر سجا کر دنیا کو پیغام دے دیا! https://t.co/k2880HHzFL pic.twitter.com/mn6ZGUBWCX
— K A M I (@K4mi_i) September 26, 2025
ندیم فاروق پراچہ نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو پن لگائی ہے جو جیٹ ہے۔
Good morning, Modi. That’s a jet. pic.twitter.com/r8SKFr7smh
— Nadeem Farooq Paracha (@NadeemfParacha) September 26, 2025
ایک بھارتی سوال نے سوال کیا کہ کیا ٹرمپ کے کوٹ پر واقعی ایک لڑاکا طیارے (فائٹر جیٹ) کی پن لگی ہوئی ہے؟ مگر کیوں؟
Is that a fighter jet lapel pin on Trump’s suit?
But why?? pic.twitter.com/8ovYaCmy71
— Tejasswi Prakash (@Tiju0Prakash) September 26, 2025
فیصل عباسی نے کہا کہ ٹرمپ نے یہ فائٹر جیٹ بیج کیوں پہنا تھا؟ کیا اس میں بھارت کے لیے کوئی پیغام ہے؟
is there any message for india?
why did trump worn this fighter jet badge? pic.twitter.com/FAaS74tovf
— Faisal Abbasi (@Faisalabassi) September 26, 2025
ایک صارف نے کہا کہ کیا واقعی ٹرمپ نے فائٹر جیٹ والے پن کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کی ہے؟ یہ بندہ بھارت کو ٹرول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا ہے۔
مطلب کیا واقعی ٹرمپ نے فائٹر جیٹ والے پن کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کی ہے؟ یہ بندہ بھارت کو ٹرول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا ہے ????۔ pic.twitter.com/WDqFLBRfQt
— Jawad Hussain Rizvi (@Jawad_H_Rizvi) September 26, 2025
اخباری اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے موقع پر اپنے کوٹ پر سونے سے بنی ایف-22 ریپٹر لڑاکا طیارے کی پن لگائی ہوئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈونلڈ ٹرمپ عاصم منیر فائٹر جیٹذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ فائٹر جیٹ کو ٹرول کرنے کو ٹرول کر فائٹر جیٹ سے ملاقات کوٹ پر کے لیے
پڑھیں:
قاتل کا اعتراف
اسلام ٹائمز: ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریر: علی رضا حقیقت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کا اعتراف ایک بار پھر ایران کی سرزمین پر غیرقانونی جارحیت میں امریکہ کا کردار واضح کر دیتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعتراف میڈیا کیمروں کے سامنے کسی پردہ پوشی کے بغیر کیا ہے اور اب مزید کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکی صدر نے چند دن پہلے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 13 جون کے دن ایران پر انجام پانے والے اسرائیلی حملے میں امریکہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات اس نے ایسے وقت کہی جب وائٹ ہاوس میں وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان اس کے دیے گئے عشائیے میں موجود تھے۔ ٹرمپ نے اسی طرح یہ دعوی بھی کیا کہ ایران نے امریکہ کی شدید پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ اس موضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے اوول آفس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا: "جب اسرائیل ایران پر حملہ کر رہا تھا تو اس کا مکمل کنٹرول میرے ہاتھ میں تھا۔" ٹرمپ نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو "انتہائی طاقتور" قرار دیا اور دعوی کیا کہ پہلے حملے میں پہنچنے والا نقصان بعد والے حملوں کی نسبت سب سے زیادہ تھا۔ امریکی صدر نے مزید دعوے کرتے ہوئے کہا: "سچی بات کروں، ایران نے پابندیاں ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔ ایران امریکہ کی جانب سے شدید پابندیوں سے روبرو ہے جن کے باعث اسے بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "میں دوبارہ اس موضوع پر گفت و شنود کے لیے تیار ہوں اور دیکھوں گا کہ کیا کر سکتا ہوں۔ گفتگو کا دروازہ کھلا ہے۔" اس کا یہ موقف کچھ عرصہ قبل ایران پر اسرائیل کی فوجی جارحیت سے متعلق موقف سے مختلف ہے۔
ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔
البتہ ٹرمپ اب تک بارہا اعلانیہ طور پر اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ اسے بین الاقوامی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ 13 جون کی فوجی جارحیت کا نتیجہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے سوائے شکست اور ناکامی کے کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ اس جنگ میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں اور اس کی میزائل طاقت کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ لیکن اب تقریباً 5 ماہ گزر جانے کے بعد بہت سے حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے سوا کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ حتی غاصب صیہونی رژیم کا وزیراعظم بھی بارہا اس تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ ایران اب بھی جوہری طاقت ہے اور ایٹم بم بنانے کی صلاحیت محض چند ماہ موخر ہو گئی ہے۔
مزید برآں، ایران پر اسرائیلی امریکی جارحیت کا دوسرا مقصد اس ملک کو شدید سیاسی اور سماجی بحران سے روبرو کرنا تھا۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی اپنے شیطانی وسوسوں کے ذریعے ٹرمپ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ جنگ کی صورت میں ایران کا سیاسی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حملے کے وقت ٹرمپ نے کینیڈا میں جی 7 سربراہی اجلاس ادھورا چھوڑ کر جلد ہی واشنگٹن واپسی اختیار کی تھی۔ اسی دوران ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام بھی دیا تھا کہ تہران خالی ہو گیا ہے اور ایرانیوں کو مخاطب قرار دے کر لکھا تھا: "غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دو۔" یہ پیغام تاریخ میں امریکہ کے ایران دشمن صدر کی شکست کے ثبوت کے طور پر محفوظ رہے گا۔ اگر ٹرمپ سیاست کی پیچیدگیوں سے ذرہ برابر آشنائی رکھتا تو وہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل کے روزانہ انٹرویوز کا مطالعہ کرتا۔
رافائل گروسی چونکہ ایک ماہر سفارتکار ہے لہذا اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ابہام پر مبنی پالیسی اختیار کرنے نے مغرب کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے پاس 60 فیصد افزودہ یورینیم کا 400 کلو کا ذخیرہ پایا جاتا تھا جس کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ امریکی حملے میں ختم ہوا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف خود امریکی ماہرین اور تھنک ٹینکس اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ایران نے جنگ کے دوران پہنچنے والے نقصان کا تیزی سے ازالہ کیا ہے اور اب وہ دن رات میزائل تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ایران نے چین اور روس کی مدد سے اپنا فضائی دفاعی نظام بھی پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور بنا ڈالا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس کے مطابق چین سے حاصل ہونے والے میزائل ڈیفنس سسٹم کی بدولت اس وقت ایران کا فضائی دفاعی نظام گذشتہ سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔