اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ انتخابات کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے حکمرانی کا ایک اور سال کھو دیا، لیکن حکمران جماعت اب اپنے اگلے چار سالوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت نے اقتدار میں ایک سال مکمل کر لیا ہے۔ برسر اقتدار نیشنل کانفرنس پارٹی نے ستمبر 2024ء کے اسمبلی انتخابات میں متعدد وعدے کئے تھے جن میں خصوصی حیثیت اور ریاست کا درجہ بحال کرنے سے لے کر نوجوانوں کو ایک لاکھ سرکاری نوکریاں فراہم کرنے تک شامل تھے۔ حکومت نے "وقار، شناخت اور ترقی" کے اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں میں سے کسی ایک کو بھی ترک نہیں کیا۔ تاہم این سی زیر قیادت حکومت کے پاس یونین ٹیریٹری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی سالگرہ منانے کے لئے بہت کم ہے۔ یہ سال وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے لئے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے، جس میں ریاست کا درجہ نے ملنے کے نتیجے میں "دوہری کنٹرول" کی بے بسی بھی شامل ہے۔ اپریل میں پہلگام حملے نے سیاحت کو متاثر کیا اور ستمبر میں سیلاب نے زرعی اور باغبانی کے شعبوں کو تباہ کر دیا، جس سے مقامی معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔

پچھلے سال کابینہ نے ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے مودی حکومت کو ایک تجویز پیش کی تھی اور جموں و کشمیر اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں مرکزی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ جموں و کشمیر کے منتخب نمائندوں سے خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے بات چیت شروع کرے، اس کے باوجود عمر عبداللہ کے لئے یہ چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔ ان علامتی اقدامات کے باوجود ترقی محدود رہی ہے۔ حکمراں جماعت بیواؤں اور بزرگوں کو مالی امداد میں اضافہ، غیر شادی شدہ خواتین کے لئے شادی کے فنڈز اور خواتین کے لیے مفت بس سفر جیسے حکومتی وعدوں کی تکمیل کا حوالہ دیتی ہے، جب کہ بڑے مسائل جیسے کہ سرکاری ملازمین کی برطرفی، باہر جیلوں سے قیدیوں کو واپس لانا، ریزرویشن پالیسیوں پر نظرثانی اور 13 جولائی کو یوم شہداء کی تعطیل کو بحال کرنا شامل ہیں۔

اپوزیشن لیڈروں کا استدلال ہے کہ این سی حکومت گورننس کی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ریاستی بحث کے پیچھے چھپ رہی ہے اور چیف منسٹر کی ثابت قدمی کی کمی ہے جن کی اسمبلی میں مضبوط اکثریت ہے۔ پیپلز کانفرنس کے ترجمان اور سابق ایم ایل اے بشیر احمد ڈار نے کہا کہ این سی حکومت نے اپنا پہلا سال ’’شکار کارڈ‘‘ کھیلتے ہوئے گزارا۔ بشیر ڈار نے کہا کہ اروند کیجریوال نے مرکزی زیر انتظام علاقہ دہلی پر تین بار حکومت کی، بی جے پی کی مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، پھر بھی انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ عمر عبداللہ کی حکومت ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ سچ یہ ہے کہ وہ بی جے پی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پروٹوکول سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے، بی جے پی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔

بشیر ڈار نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 واضح طور پر منتخب حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کی وضاحت کرتا ہے اور یہ کہ ریاست کا درجہ نہ ہونا غیر فعال ہونے کا بہانہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا درجہ منتخب حکومت کے ہاتھوں نظم و نسق واپس لا سکتا ہے۔ نہ ہی تنظیم نو کا ایکٹ 2019 اور نہ ہی ریاست کا درجہ نہ ہونا حکومت کو کام کرنے سے روکتا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے حکومت پر خاموشی اور سر تسلیم خم کرنے کا الزام لگایا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ لوگوں نے ایسی حکومت کو ووٹ دیا ہے جو ان کے حقوق کے لئے کھڑی ہوگی، ان کی شناخت کی حفاظت کرے گی اور ناانصافی کو چیلنج کرے گی۔ جس چیز کی نیشنل کانفرنس نے کبھی مخالفت کی تھی اسے معمول بنانے سے عوام مزید الگ تھلگ پڑ جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ انتخابات کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے حکمرانی کا ایک اور سال کھو دیا، لیکن حکمران جماعت اب اپنے اگلے چار سالوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ریاست کا درجہ عمر عبداللہ کے باوجود نے کہا کہ کے لئے کا ایک

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ

ریاض احمدچودھری

دفعہ370کو غیر کشمیریوں کو علاقے میں آبادکرنے کے لیے منسوخ کیاگیاتھاتاکہ کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں بے روزگار اور بے گھر کیاجائے۔ تاہم کشمیری ان سازشوں کے خلاف مزاحمت کے لئے پرعزم ہیں اور وہ ہندو انتہا پسند قوتوں کے غلام بننے کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔کشمیریوں نے عالمی برادری پر زور دیاہے کہ وہ مداخلت کرکے ان کی سرزمین اور شناخت کی حفاظت کرے۔ کشمیریوںکو خدشہ ہے کہ اگر ان منصوبوں کو آگے بڑھنے دیا گیا تو ان کی زبان، موسیقی اور روایات سمیت ثقافتی ورثہ ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرکے عوام کو تشویش ہے کہ بھارت کی مودی حکومت ان کی منفرد شناخت مٹانے اورعلاقے کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں کررہی ہے۔ ہندوتوا رہنمائوں نے کشمیر کی منفرد ثقافت کو مٹانے اور علاقے میں قبل از اسلام ہندو تہذیب کو مسلط کرنے کے اپنے عزائم کا اعلان کررکھاہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس اس ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مکمل انضمام کی اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرسکیں۔ ایجنڈے میں مسلم اکثریتی علاقے میں ہندوتوا کے نظریے کو مسلط کرنا اور منظم طریقے سے آبادکار ی کی بنیاد ڈالنا شامل ہے۔
بھارت میں مودی کی ہندوتوا حکومت منظم طریقے سے کشمیریوں کی منفرد شناخت اور جموں وکشمیر پر اسکے عوام کے حق کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔ہندوتواآر ایس ایس کے زیر اثر بی جے پی حکومت کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے ذریعے مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ ہندوتوالیڈر کھلے عام مقبوضہ کشمیر کے منفرد ثقافتی اور مسلم اکثریتی شناخت کو مٹانے کے دعوے کر رہے ہیں جو کہ ہندوتوا تنظیموں بی جے پی اورآر ایس ایس کا دیرینہ نظریاتی مشن ہے۔جموں و کشمیر کوبھارت میں مکمل طور پر ضم کرنا اور اسکی خود مختاری، شناخت اور کشمیریوں کے تمام حقوق چھیننا بی جے پی اور آر ایس ایس کا دہائیوں پرانا خواب ہے۔نریندر مودی مقبوضہ کشمیرکو ہندوتوا نظریات کے زیر تسلط ایک تجربہ گاہ میں تبدیل کرنا چاہتاہے لیکن کشمیری عوام اپنی منفردشناخت کو مٹانے کی مودی حکومت کی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت کیلئے پر عزم ہیں اور کشمیری بھارت کی محکومی کے بجائے شہادت کو ترجیح دیں گے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے اورمقبوضہ کشمیرمیں بین الاقوامی قوانین اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو پامال کرنے پر بھارت کا احتساب کرنا چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی پولیس نے اسلامی تعلیمات کیخلاف ایک اور کارروائی کرتے ہوئے مختلف کتاب خانوں، دکانوں اور مراکز پر چھاپے مار کر اسلامی کتب ضبط کرنا شروع کردی ہیں، جن کتابوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان میں جماعت اسلامی کے بانی، مرحوم سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصانیف سرِفہرست ہیں۔ یہ اقدام درحقیقت اس وسیع منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس کے ذریعے کشمیر کی اسلامی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زمینوں پر قبضہ، ترقی کے نام پر آبادی کے تناسب میں تبدیلی، غیر کشمیری ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کر کے کشمیر میں آباد کرنا، اور اب اسلامی کتابوں پر پابندی،یہ سب ایک گہری سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ہندو انتہا پسندوں کے دباؤ پر، بھارتی حکومت کشمیر کا نام تک تبدیل کرنے کے عزائم رکھتی ہے، جیسا کہ ہندوستان کے دیگر شہروں کے اسلامی نام تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ سید مودودی کی کتب پر پابندی لگائی گئی ہو، سعودی عرب، ہندوستان اور دیگر کئی ممالک میں ان کی تحریریں پہلے ہی ممنوعہ قرار دی جا چکی ہیں، جیسا کہ سید قطب شہید اور محمد قطب سمیت دیگر مصنفین کی کتب پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں اسلامی طرزِ حکومت، سیاسی اسلام اور اسلامی دستور کے حق میں فکر انگیز مباحث پائی جاتی ہیں، جو استعماری اور ظالمانہ حکومتوں کیلئے ایک چیلنج بن سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کیخلاف اقدامات کسی ایک پہلو تک محدود نہیں رہے۔ عدالتی فیصلے، حکومتی نوٹیفیکیشنز اور مختلف سازشی ہتھکنڈوں کے ذریعے اسلامی شعائر اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ان اقدامات کیخلاف مسلمانوں کی جانب سے کوئی متفقہ اور مؤثر مزاحمت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ شاید ابھی مسلمان اس سنگین سازش کی گہرائی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے کہ ان کا انجام کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں منوج سنہا کی زیرقیادت ہندوتوا حکومت کی طرف سے اسلامی لٹریچر کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔ منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد سکولوں میں ہندوتوا نظریہ مسلط کرکے مقبوضہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔
بھارتی پولیس نے سرینگر میں کتب فروشوں کیخلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 6 سوسے زائد دینی کتب ضبط کر لیں۔ ضبط شدہ تصانیف میں جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی اور تحریک آزاد ی کشمیر کے معروف قائد سید علی گیلانی شہید کی تصانیف شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر: مسلم لیگ ن کا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ
  • باجوڑ میں سالارزئی قوم کا گرینڈ جرگہ، حکومت کے سامنے آٹھ مطالبات رکھ دئیے
  • وادی کشمیر میں انہدامی کارروائی انسانیت کے بحران کا پیش خیمہ ہے، پی ڈی پی
  • مقبوضہ کشمیر سے مسلم تشخص کا خاتمہ
  • شہدائے جموں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے گریجویٹ کالج بھمبر میں تقریب کا انعقاد
  • کشمیری سیاحتی صنعت میں نئی روح پھوکنے کیلئے برفباری بے حد ضروری ہے، عمر عبداللہ
  • گھروں کی مسماری مہم میری حکومت کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش ہے، عمر عبداللہ
  • وادی کشمیر سردی کی شدید لپیٹ میں،17برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
  • فاروق رحمانی کی جموں میں صحافی کے گھر کو مسمار کرنے کی مذمت
  • انہدامی کارروائی منتخب حکومت کو ذلیل کرنے کی سازش ہے، عمر عبداللہ