پاک افغان کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں، اس کے لیے زمین ہموار کی جائے : مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
جمعیتِ علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے افغان اور پاکستانی حکومتوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا شدہ تنازع کے حل میں وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ اس کے لیے زمینی راہ ہموار کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمان
کنونشن سینٹر اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ گرم جوشی کے ماحول میں بات چیت سے نتائج ممکنہ طور پر مثبت نہیں آئیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ابتدا میں کشیدگی کم کی جائے تاکہ باہمی رابطے اور گفت و شنید سے مسائل حل کیے جائیں۔
انہوں نے زور دیا کہ اب زبان بندی ہونی چاہیے، ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا پر الزامات بازی روک دی جائے تو باہمی رابطوں کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ نکل آئے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ دونوں ممالک جلد رابطے میں آئیں اور بات چیت کے ذریعے شکایات دور کرکے مستقل دوست پڑوسیوں کی طرح تعلقات استوار کیے جائیں۔
عمران خان کے بعد مولانا فضل الرحمان نے بھی افغانستان اور پاکستان کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرنے کی آفر کردی
عمران خان کی شرط: پے رول پر رہائی
مولانا فضل الرحمان کی شرط: ماحولpic.
— Kamran Ali (@akamran111) October 16, 2025
افغان وزیر خارجہ کے دورۂ بھارت اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے پس منظر کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے کے پیچھے متعدد اسباب اور دعوے موجود ہیں، تاہم بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے کتنے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت کی حالیہ جارحیت کے تناظر میں کیا مغربی محاذ کھولنا ریاستی مفاد میں ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے دفاع پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں اپنے مفادات میں پڑوسی ملکوں کے استحکام اور داخلی امن کو اہم سمجھنا ہوگا اور اسی دائرے میں حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں نئی حکومت ابھی پوری طرح بالغ النظر نہیں ہوئی اور وہاں کے ادارے عالمی معیارات تک پہنچنے میں وقت لیں گے؛ انٹیلی جنس نیٹ ورک ابتدائی مراحل میں ہے۔
افغ انستان اور پاکستان سے کہنا چاہتا ہوں، ہم صرف جنگ بندی کے لیے نہیں زبان بندی کے لیے بھی کہہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف بولنا روکو ۔۔۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان #MuftiMehmoodLegacy pic.twitter.com/qAJQ2i3hii
— Muhammad Saleem sulemani (@iSaleem_khan34) October 16, 2025
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سیاسی، سفارتی اور دفاعی صلاحیتوں کے حوالے سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے، اس لیے انہیں مشورہ دیں گے کہ اس معاملے میں شدید احتیاط، تحمل اور سنجیدگی سے کام لیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جب سرحدی کشیدگی برقرار اور بھارت کی دھمکیاں موجود ہیں تو ہمیں اپنے پڑوسی کو بھارت کے قریب دھکیلنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
اختتامی طور پر انہوں نے کہا کہ امیر خان متقی کے دورے پر اعتراضات ہو سکتے ہیں، تاہم ایسے مواقع ہمیں دشمن کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خارجہ پالیسی میں حکمتِ عملی اپنانا ضروری ہے تاکہ پڑوسی ملک پاکستان کے قریب رہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان جمعیت علمائے اسلام جنگ بندی مولانا فضل الرحمانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان مولانا فضل الرحمان نے انہوں نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمان نے کارکنوں کو اسلام آباد جانے کی تیاری کی ہدایت دے دی
ڈیرہ اسماعیل خان — جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ڈی آئی خان میں منعقدہ مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو ہدایت کی ہے کہ وہ جلد اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے کی تیاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا راستہ عوام کے لیے ہے، اور یہ وقت ہے کہ صوبے اور مرکز کے مابین انصاف اور حقِ شراکت کا مطالبہ کیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کی سیاست ’’گالم گلوچ اور بدتمیزی‘‘ پر مبنی نہیں ہوگی بلکہ جمہوریتی اور دیانتداری کی سیاست ہو گی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ کی اہمیت تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور وہ عوام کی گرفتاری چاہتے ہیں، نہ کہ مخصوص طاقتوں کی من پسند حکومت۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2024 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے، اور چوری شدہ مینڈیٹ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں بھی مینڈیٹ چوری ہوا، اور اس کا تسلیم نہیں کرتے۔
مولانا فضل الرحمان نے فلسطینی عوام پر ڈھائے گئے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ظلم کی خاموشی قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا، اور آج ہمیں اس موقف کی حفاظت کرنی ہے۔
مفتی محمود کانفرنس کے موقع پر جمعیت علماء اسلام کے دیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمان نے صوبائی کارکنان، علماء اور نوجوانوں کو یکجہتی، قوت اور نظم و ضبط کے ساتھ اسلام آباد مارچ کا حصہ بننے کی اپیل کی۔
یہ فیصلہ ایسے مرحلے پر سامنے آیا ہے جب ملک میں سیاسی کشیدگی پہلے ہی بلند ہے اور کئی سیاسی جماعتیں مرکز اور صوبوں کی شراکت اور اختیارات کے تنازعے پر متحرک ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین پہلے بھی اسلام آباد جلسوں، دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں کا تبادلہ ہوا ہے، اور اس نئے اعلان سے توقع ہے کہ مرکز اور سیکیورٹی ادارے محتاط پوزیشن اپنائیں گے۔
اگر کارکنان واقعی بڑی تعداد میں اسلام آباد پہنچنے کی کوشش کریں، تو سیکیورٹی انتظامات، داخلی راستوں کی بندش، راستے کی مانیٹرنگ اور ممکنہ پولیس چیک پوسٹس بھی موضوعِ بحث بن سکتے ہیں۔ حکومت ممکنہ بدامنی کے پیشِ نظر، پابندیاں نافذ کرنے یا جلسہ گاہ کی تقسیم و اجازت سے متعلق اقدامات پر غور کر سکتی ہے۔
حالیہ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی سیکیورٹی سخت کی گئی ہے اور ملاقاتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، خاص طور پر کارکنان کی جانب سے براہِ راست رسائی محدود کی گئی ہے۔
حکومت کی سطح پر بھی کوششیں کی جارہی ہیں کہ مولانا سے سفارتی رابطے ہوں تاکہ سیاسی سرگرمیوں میں تشدد یا انتشار نہ ہو۔ مثال کے طور پر، وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔
جے یو آئی کا میڈیا و مواصلاتی پلان بھی فعال نظر آتا ہے، مولانا فضل الرحمان نے ڈیجیٹل میڈیا سیل کے ضلعی و صوبائی کوآرڈینیٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت حالات کا تجزیہ کرتی ہے اور جہاں ضرورت ہو حکمتِ عملی بدلتی ہے۔