ایک دن بمبئی (ممبئی) میں محبوب صاحب کی فلم ’’انداز‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی، سیٹ پر دلیپ صاحب، نرگس اور راج کپور موجود تھے، نواب بانو اپنی نانی کے ساتھ فلم کی شوٹنگ دیکھنے آئی، انھیں محبوب صاحب نے خود دعوت دی تھی کیونکہ نواب بانو کی ماں ایک بہت اچھی اداکارہ اور گلوکارہ تھیں، نام تھا وحیدہ۔ انھوں نے اے آر کاردار کی بہت سی فلموں میں کام کیا تھا۔
نواب بانو صرف گیارہ برس کی تھی، جب اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا، یہ لوگ کلکتہ (کولکتہ) میں رہا کرتے تھے، بیوی کی وفات کے بعد نواب کے والد عبدالحکیم میرٹھ جا بسے اور نواب بانو کو اس کی نانی کے پاس ایبٹ آباد بھیج دیا، لیکن جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو وہ اسے لے کر بمبئی آ گئیں۔ جہاں محبوب صاحب نے نانی نواسی کو اسٹوڈیو میں ایک سجا سجایا کمرہ دے دیا، جو دراصل انھوں نے شمشاد بیگم کے لیے تیارکروایا تھا، لیکن شمشاد کو وہ کمرہ پسند نہ آیا۔ اس طرح وہ کمرہ نواب بانو اور اس کی نانی کو مل گیا۔ نواب بانو کی ماں نے محبوب صاحب کی فلموں میں بھی کام کیا تھا اور ان کے وحیدہ کے خاندان کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔
فلم ’’انگار‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی، نرگس کی ماں جدّن بائی سیٹ پر لگی ایک کرسی پہ بیٹھی تھیں، ان کے برابر والی کرسی خالی تھی، نواب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نامی گرامی اداکاروں کو دیکھ رہی تھی، جدّن بائی کے برابر والی کرسی خالی پڑی تھی، لیکن نواب بانو ڈر کے مارے اس پر نہیں بیٹھ رہی تھی کہ کہیں جدّن بائی کو برا نہ لگے۔
اسی دوران جدّن بائی کی نظر نواب پر پڑی تو اس نے اسے آواز دے کر کہا کہ ’’ اے لڑکی! تم کرسی پر بیٹھ کیوں نہیں جاتیں، کرسی خالی پڑی ہے، آؤ یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ نواب ایک دم کرسی پر بیٹھ کر شوٹنگ دیکھنے لگی، اسی دوران راج کپور وہاں آگئے اور جدّن بائی کے پاؤں چھو کر جب جانے لگے تو ان کی نظر اس شرمیلی سی لڑکی پر پڑی جس کی غلافی آنکھیں اس کے چہرے کو چار چاند لگا رہی تھیں، وہ ٹھٹھک گئے اور اس سے پوچھا ’’ اے لڑکی! تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے شرما کر جواب دیا ’’نواب بانو‘‘۔ اتنا سن کر وہ چلے گئے، راج کپور ان دنوں اپنی دوسری فلم ’’برسات‘‘ کی کاسٹنگ میں لگے ہوئے تھے، نرگس کو کاسٹ کیا تھا، پریم ناتھ کو بھی فائنل کر لیا تھا، لیکن ابھی تک پریم ناتھ کے مقابل انھیں ایسی لڑکی نہیں مل رہی تھی، جیسی انھیں چاہیے تھی۔
معصوم سی، بھولی بھالی سی گاؤں کی الہڑ دوشیزہ۔ اگلے دن کیا ہوا کہ نواب بانو کے گھر کے سامنے ایک بڑی سی گاڑی آ کر جو نواب کو لینے کے لیے آئی تھی، اسے بتایا گیا کہ آر۔کے اسٹوڈیو میں انھیں راج کپور نے بلایا ہے۔ وہ اسٹوڈیو پہنچ تو گئی لیکن وہاں دو تین لڑکیاں اور بھی تھیں جو اسکرین ٹیسٹ دینے آئی ہوئی تھیں، وہ بہت نروس تھی۔ جب لمبے چوڑے مکالمے اسے تھمائے گئے تو وہ سوچنے لگی کہ اگر اسے منتخب نہ کیا گیا تو اس کا کیا بنے گا، وہ بھی اپنی ماں کی طرح اداکارہ بننا چاہتی تھی، سوچتے سوچتے وہ مکالمے بول رہی تھی، ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کا تلفظ بھی صاف تھا کیونکہ وہ یوپی کی رہنے والی تھی۔ مکالموں کی ادائیگی کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں نے اس کی قسمت کھول دی۔ راج کپور کو لگا کہ جس قسم کی لڑکی اسے پریم ناتھ کے ساتھ چاہیے وہ یہی لڑکی ہے اور وہی ان کی فلم ’’ برسات‘‘ کی سیکنڈ ہیروئن بنے گی۔ نواب بانو نے جب گھر جا کر اپنی نانی کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی آبدیدہ ہو گئیں۔
نواب بانو کا جنم 18 فروری 1933 کو آگرہ میں ہوا، اور ’’برسات‘‘ فلم میں چانس دے کر راج کپور نے اسے ’’ نمّی‘‘ کا نام دیا۔ جی ہاں وہی مدھ بھرے نینوں والی ہنستی کھلکھلاتی نواب بانو جو اب نمی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بے شمار فلموں میں ہیروئن کا رول کیا، فلم ’’برسات‘‘ میں نرگس کے مقابل راج کپور تھے، لیکن نمی نے اپنی پہلی ہی فلم سے دھوم مچا دی۔ فلم ’’برسات‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس کے گانے بچے بچے کی زبان پر تھے۔ آج بھی موسیقی کے متوالے ان گیتوں کو شوق سے سنتے ہیں اور ان مقبول گیتوں کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔
(1)۔ ہوا میں اڑتا جائے، مورا لال دوپٹہ ململ کا
(2)۔ برسات میں ہم سے ملے تم سجن، تم سے ملے ہم
(3)۔ بچھڑے ہوئے پردیسی اک بار تُو آنا تو
جب آنکھ ملائی ہے نظریں نہ چرانا تُو
یہ گیت نمی پر ہی فلمائے گئے۔ نمی کی یہ خوبی تھی کہ وہ کردار میں ڈوب جاتی تھی۔ ’’برسات‘‘ میں اس نے ایک ایسی لڑکی کا رول کیا ہے، جسے اس کا محبوب چھوڑ کر چلا گیا، پیار کے جھوٹے وعدے کرکے اور وہ اس کی یاد میں آنسو بہاتی رہ گئی۔
’’برسات‘‘ کی کامیابی کے فوراً بعد نمی کے پیچھے پروڈیوسروں کی لائن لگ گئی، ہر کوئی اسے اپنی فلم میں ہیروئن لینا چاہتا تھا۔ اس کا چہرہ بہت معصوم اور جذبات کا آئینہ دار تھا، جب وہ کھلکھلا کر ہنستی اور ہلکے پھلکے رول کرتی تو یہی لگتا کہ جیسے فطرتاً وہ ہنستی مسکراتی لڑکی ہے۔ اور جب وہ غمگین اداکاری کرتی تو سارے جہاں کا درد اس کی غلافی آنکھوں میں سمٹ آتا جیسے فلم ’’ بھائی بھائی‘‘ اس نے ایک شوخ اور چنچل لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔ کشور کمار کے ساتھ اس کا یہ ڈوئیٹ بہت مشہور ہوا تھا:
میرا نام عبدالرحمن پستے والا، میں ہوں پٹھان
عبدالرحمن کی میں عبدالرحمنیا
یہی میرا سونا چاندی یہی میری دنیا
اور یہ گیت بھی فلم ’’ بھائی بھائی‘‘ میں نمی پہ پکچرائز کیا گیا اور بہت مقبول ہوا:
اس دنیا میں سب چور چور
کوئی پیسہ چور،کوئی مرغی چور
اورکوئی دل کا چور
’’برسات‘‘ کے بعد نمی نے تین فلمیں سائن کیں ’’وفا‘‘، ’’راج مکٹ‘‘ اور ’’جلتے دیپ‘‘ ، نمی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، ٹاپ سے ٹاپ ہیرو اس کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا۔ وہ انڈین فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کی ٹاپ کی ہیروئن تھی۔ اس نے سبھی بڑے بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا، جیسے دلیپ کمار، اشوک کمار، کشور کمار، دیوآنند اور راج کپور وغیرہ۔ 1951 میں ایک ساتھ اس کی چار فلمیں ریلیز ہوئیں دیدار، سزا، بھائی بھائی اور بسنت بہار وغیرہ۔ ایس ڈی برمن، نوشاد علی اور شنکر جے کشن کے میوزک نے نمی کی سبھی فلموں کو اول درجے کی فلم بنا دیا۔ ایک بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ کہ نمی گلوکارہ بھی تھی۔
اس نے اپنی فلم ’’بے دردی‘‘ کے سبھی گانے خود گائے لیکن اس نے گلوکاری کو اپنا کیریئر نہیں بنایا۔ عجیب اتفاق ہے کہ نمی کی سبھی فلمیں بہت کامیاب رہیں اور ان کی موسیقی بھی لاجواب رہی۔ دلیپ کمار کے ساتھ اس کی فلم ’’داغ‘‘ اس فلم کی موسیقی نے فلم کو چار چاند لگا دیے اور پھر ہندوستان کے مایہ ناز ڈائریکٹر، پروڈیوسر محبوب خان نے جب پہلی رنگین فلم ’’آن‘‘ بنائی تو اس میں بھی ایک اہم رول نمی کو دیا۔ اس فلم میں نمی نے ’’منگلا‘‘ کا کردار ادا کیا جو شایقین نے بہت پسند کیا اور یہ کردار بہت مقبول بھی ہوا۔ وہ انڈین سینما کی مقبول ہیروئن تھی لیکن اس کا کوئی رومان یا کوئی اسکینڈل کبھی سننے میں نہیں آیا۔ اس نے نہایت خاموشی کے ساتھ اسکرپٹ رائٹر سید علی رضا سے شادی کرلی۔ علی نہایت پڑھے لکھے اور وجیہہ نوجوان تھے۔ بڑے بڑے عالم ان سے بات کرنے سے گھبراتے تھے۔ بدقسمتی سے نمی اور علی رضا بے اولاد رہے اور 2007 میں ان کا انتقال ہوگیا، نمی کے کردار پہ کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔
نمی کی مقبول ترین فلموں میں اڑن کھٹولہ، امر،کندن، سوسائٹی، چار پیسہ، راجدھانی، بسنت بہار، دیدار، آن، بھائی بھائی، چھوٹے بابو، چار دل چار راہیں، شمع، میرے محبوب، پوجا کے پھول، دال میں کالا وغیرہ۔ علی رضا پائے کے اسکرپٹ رائٹر تھے وہ ’’انداز‘‘ سے لے کر ’’امر‘‘ تک محبوب خان سے جڑے رہے۔ ’’آن‘‘ اور ’’مدر انڈیا‘‘ کے اسکرپٹ رائٹر وہی تھے۔ جب نئی نئی ہیروئنیں فلموں میں آنے لگیں تو نمی یعنی نواب بانو نے فلموں سے تیاگ لے لیا۔ انھوں نے کیریکٹر رول نہیں کیے۔ چند دن بیمار رہ کر انھوں نے 25 مارچ 2020 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔ آج بھی موسیقی کے شایقین نمی پر فلمائے ہوئے لگتا کے گانے ضرور سنتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھائی بھائی کے ساتھ اس ساتھ اس کی نواب بانو فلموں میں انھوں نے راج کپور رہی تھی کی فلم
پڑھیں:
نواب بانو المعروف نمی
ایک دن بمبئی (ممبئی) میں محبوب صاحب کی فلم ’’انداز‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی، سیٹ پر دلیپ صاحب، نرگس اور راج کپور موجود تھے، نواب بانو اپنی نانی کے ساتھ فلم کی شوٹنگ دیکھنے آئی، انھیں محبوب صاحب نے خود دعوت دی تھی کیونکہ نواب بانو کی ماں ایک بہت اچھی اداکارہ اور گلوکارہ تھیں، نام تھا وحیدہ۔ انھوں نے اے آر کاردار کی بہت سی فلموں میں کام کیا تھا۔
نواب بانو صرف گیارہ برس کی تھی، جب اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا، یہ لوگ کلکتہ (کولکتہ) میں رہا کرتے تھے، بیوی کی وفات کے بعد نواب کے والد عبدالحکیم میرٹھ جا بسے اور نواب بانو کو اس کی نانی کے پاس ایبٹ آباد بھیج دیا، لیکن جب ملک کا بٹوارہ ہوا تو وہ اسے لے کر بمبئی آ گئیں۔ جہاں محبوب صاحب نے نانی نواسی کو اسٹوڈیو میں ایک سجا سجایا کمرہ دے دیا، جو دراصل انھوں نے شمشاد بیگم کے لیے تیارکروایا تھا، لیکن شمشاد کو وہ کمرہ پسند نہ آیا۔ اس طرح وہ کمرہ نواب بانو اور اس کی نانی کو مل گیا۔ نواب بانو کی ماں نے محبوب صاحب کی فلموں میں بھی کام کیا تھا اور ان کے وحیدہ کے خاندان کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔
فلم ’’انگار‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی، نرگس کی ماں جدّن بائی سیٹ پر لگی ایک کرسی پہ بیٹھی تھیں، ان کے برابر والی کرسی خالی تھی، نواب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نامی گرامی اداکاروں کو دیکھ رہی تھی، جدّن بائی کے برابر والی کرسی خالی پڑی تھی، لیکن نواب بانو ڈر کے مارے اس پر نہیں بیٹھ رہی تھی کہ کہیں جدّن بائی کو برا نہ لگے۔
اسی دوران جدّن بائی کی نظر نواب پر پڑی تو اس نے اسے آواز دے کر کہا کہ ’’ اے لڑکی! تم کرسی پر بیٹھ کیوں نہیں جاتیں، کرسی خالی پڑی ہے، آؤ یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ نواب ایک دم کرسی پر بیٹھ کر شوٹنگ دیکھنے لگی، اسی دوران راج کپور وہاں آگئے اور جدّن بائی کے پاؤں چھو کر جب جانے لگے تو ان کی نظر اس شرمیلی سی لڑکی پر پڑی جس کی غلافی آنکھیں اس کے چہرے کو چار چاند لگا رہی تھیں، وہ ٹھٹھک گئے اور اس سے پوچھا ’’ اے لڑکی! تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے شرما کر جواب دیا ’’نواب بانو‘‘۔ اتنا سن کر وہ چلے گئے، راج کپور ان دنوں اپنی دوسری فلم ’’برسات‘‘ کی کاسٹنگ میں لگے ہوئے تھے، نرگس کو کاسٹ کیا تھا، پریم ناتھ کو بھی فائنل کر لیا تھا، لیکن ابھی تک پریم ناتھ کے مقابل انھیں ایسی لڑکی نہیں مل رہی تھی، جیسی انھیں چاہیے تھی۔
معصوم سی، بھولی بھالی سی گاؤں کی الہڑ دوشیزہ۔ اگلے دن کیا ہوا کہ نواب بانو کے گھر کے سامنے ایک بڑی سی گاڑی آ کر جو نواب کو لینے کے لیے آئی تھی، اسے بتایا گیا کہ آر۔کے اسٹوڈیو میں انھیں راج کپور نے بلایا ہے۔ وہ اسٹوڈیو پہنچ تو گئی لیکن وہاں دو تین لڑکیاں اور بھی تھیں جو اسکرین ٹیسٹ دینے آئی ہوئی تھیں، وہ بہت نروس تھی۔ جب لمبے چوڑے مکالمے اسے تھمائے گئے تو وہ سوچنے لگی کہ اگر اسے منتخب نہ کیا گیا تو اس کا کیا بنے گا، وہ بھی اپنی ماں کی طرح اداکارہ بننا چاہتی تھی، سوچتے سوچتے وہ مکالمے بول رہی تھی، ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کا تلفظ بھی صاف تھا کیونکہ وہ یوپی کی رہنے والی تھی۔ مکالموں کی ادائیگی کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں نے اس کی قسمت کھول دی۔ راج کپور کو لگا کہ جس قسم کی لڑکی اسے پریم ناتھ کے ساتھ چاہیے وہ یہی لڑکی ہے اور وہی ان کی فلم ’’ برسات‘‘ کی سیکنڈ ہیروئن بنے گی۔ نواب بانو نے جب گھر جا کر اپنی نانی کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی آبدیدہ ہو گئیں۔
نواب بانو کا جنم 18 فروری 1933 کو آگرہ میں ہوا، اور ’’برسات‘‘ فلم میں چانس دے کر راج کپور نے اسے ’’ نمّی‘‘ کا نام دیا۔ جی ہاں وہی مدھ بھرے نینوں والی ہنستی کھلکھلاتی نواب بانو جو اب نمی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بے شمار فلموں میں ہیروئن کا رول کیا، فلم ’’برسات‘‘ میں نرگس کے مقابل راج کپور تھے، لیکن نمی نے اپنی پہلی ہی فلم سے دھوم مچا دی۔ فلم ’’برسات‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس کے گانے بچے بچے کی زبان پر تھے۔ آج بھی موسیقی کے متوالے ان گیتوں کو شوق سے سنتے ہیں اور ان مقبول گیتوں کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔
(1)۔ ہوا میں اڑتا جائے، مورا لال دوپٹہ ململ کا
(2)۔ برسات میں ہم سے ملے تم سجن، تم سے ملے ہم
(3)۔ بچھڑے ہوئے پردیسی اک بار تُو آنا تو
جب آنکھ ملائی ہے نظریں نہ چرانا تُو
یہ گیت نمی پر ہی فلمائے گئے۔ نمی کی یہ خوبی تھی کہ وہ کردار میں ڈوب جاتی تھی۔ ’’برسات‘‘ میں اس نے ایک ایسی لڑکی کا رول کیا ہے، جسے اس کا محبوب چھوڑ کر چلا گیا، پیار کے جھوٹے وعدے کرکے اور وہ اس کی یاد میں آنسو بہاتی رہ گئی۔
’’برسات‘‘ کی کامیابی کے فوراً بعد نمی کے پیچھے پروڈیوسروں کی لائن لگ گئی، ہر کوئی اسے اپنی فلم میں ہیروئن لینا چاہتا تھا۔ اس کا چہرہ بہت معصوم اور جذبات کا آئینہ دار تھا، جب وہ کھلکھلا کر ہنستی اور ہلکے پھلکے رول کرتی تو یہی لگتا کہ جیسے فطرتاً وہ ہنستی مسکراتی لڑکی ہے۔ اور جب وہ غمگین اداکاری کرتی تو سارے جہاں کا درد اس کی غلافی آنکھوں میں سمٹ آتا جیسے فلم ’’ بھائی بھائی‘‘ اس نے ایک شوخ اور چنچل لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔ کشور کمار کے ساتھ اس کا یہ ڈوئیٹ بہت مشہور ہوا تھا:
میرا نام عبدالرحمن پستے والا، میں ہوں پٹھان
عبدالرحمن کی میں عبدالرحمنیا
یہی میرا سونا چاندی یہی میری دنیا
اور یہ گیت بھی فلم ’’ بھائی بھائی‘‘ میں نمی پہ پکچرائز کیا گیا اور بہت مقبول ہوا:
اس دنیا میں سب چور چور
کوئی پیسہ چور،کوئی مرغی چور
اورکوئی دل کا چور
’’برسات‘‘ کے بعد نمی نے تین فلمیں سائن کیں ’’وفا‘‘، ’’راج مکٹ‘‘ اور ’’جلتے دیپ‘‘ ، نمی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، ٹاپ سے ٹاپ ہیرو اس کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا۔ وہ انڈین فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کی ٹاپ کی ہیروئن تھی۔ اس نے سبھی بڑے بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا، جیسے دلیپ کمار، اشوک کمار، کشور کمار، دیوآنند اور راج کپور وغیرہ۔ 1951 میں ایک ساتھ اس کی چار فلمیں ریلیز ہوئیں دیدار، سزا، بھائی بھائی اور بسنت بہار وغیرہ۔ ایس ڈی برمن، نوشاد علی اور شنکر جے کشن کے میوزک نے نمی کی سبھی فلموں کو اول درجے کی فلم بنا دیا۔ ایک بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ کہ نمی گلوکارہ بھی تھی۔
اس نے اپنی فلم ’’بے دردی‘‘ کے سبھی گانے خود گائے لیکن اس نے گلوکاری کو اپنا کیریئر نہیں بنایا۔ عجیب اتفاق ہے کہ نمی کی سبھی فلمیں بہت کامیاب رہیں اور ان کی موسیقی بھی لاجواب رہی۔ دلیپ کمار کے ساتھ اس کی فلم ’’داغ‘‘ اس فلم کی موسیقی نے فلم کو چار چاند لگا دیے اور پھر ہندوستان کے مایہ ناز ڈائریکٹر، پروڈیوسر محبوب خان نے جب پہلی رنگین فلم ’’آن‘‘ بنائی تو اس میں بھی ایک اہم رول نمی کو دیا۔ اس فلم میں نمی نے ’’منگلا‘‘ کا کردار ادا کیا جو شایقین نے بہت پسند کیا اور یہ کردار بہت مقبول بھی ہوا۔ وہ انڈین سینما کی مقبول ہیروئن تھی لیکن اس کا کوئی رومان یا کوئی اسکینڈل کبھی سننے میں نہیں آیا۔ اس نے نہایت خاموشی کے ساتھ اسکرپٹ رائٹر سید علی رضا سے شادی کرلی۔ علی نہایت پڑھے لکھے اور وجیہہ نوجوان تھے۔ بڑے بڑے عالم ان سے بات کرنے سے گھبراتے تھے۔ بدقسمتی سے نمی اور علی رضا بے اولاد رہے اور 2007 میں ان کا انتقال ہوگیا، نمی کے کردار پہ کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔
نمی کی مقبول ترین فلموں میں اڑن کھٹولہ، امر،کندن، سوسائٹی، چار پیسہ، راجدھانی، بسنت بہار، دیدار، آن، بھائی بھائی، چھوٹے بابو، چار دل چار راہیں، شمع، میرے محبوب، پوجا کے پھول، دال میں کالا وغیرہ۔ علی رضا پائے کے اسکرپٹ رائٹر تھے وہ ’’انداز‘‘ سے لے کر ’’امر‘‘ تک محبوب خان سے جڑے رہے۔ ’’آن‘‘ اور ’’مدر انڈیا‘‘ کے اسکرپٹ رائٹر وہی تھے۔ جب نئی نئی ہیروئنیں فلموں میں آنے لگیں تو نمی یعنی نواب بانو نے فلموں سے تیاگ لے لیا۔ انھوں نے کیریکٹر رول نہیں کیے۔ چند دن بیمار رہ کر انھوں نے 25 مارچ 2020 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔ آج بھی موسیقی کے شایقین نمی پر فلمائے ہوئے لگتا کے گانے ضرور سنتے ہیں۔