Express News:
2025-06-13@09:18:34 GMT

آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں۔

سات رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبے میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ میری معلومات کے مطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے، جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزا جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل مندوخیل نے نے کہا کہ

پڑھیں:

پشاور: دنیا سے رخصت ہوتا 14 سالہ لڑکا 5 خاندانوں کو انمول خوشیاں دے گیا

مردان سے تعلق رکھنے والا 14 سالہ جواد خان ایک روڈ حادثے میں سر پر شدید چوٹیں لگنے کے بعد پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کیا گیا تھا تاہم جب اس کے بچنے کی امید باقی نہیں رہی تھی تب اس کے والدین نے اس کے اعضا عطیہ کرنے کا اعلان کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: مردان کے عوام صحت کے انقلابی منصوبوں سے محروم

قبل ازیں کئی دن اسپتال میں داخل رہنے اور سرجری کے بعد بھی جواد کی حالت میں بہتری نہیں آئی اور ڈاکٹروں کے جواب دینے کے بعد اس کے خاندان نے جسمانی اعضا عطیہ کرکے دوسروں کی زندگیاں بچانے کا فیصلہ کیا۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ترجمان توحید ذوالفقار نے وی نیوز کو بتایا کہ جواد خان کا تعلق مردان سے تھا اور وہ 31 مئی کو اسکول جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگیا تھا جس کے بعد اس کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کر دیا گیا۔

ترجمان نے بتایا کہ اسپتال میں جواد کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور فوری طور پر سرجری بھی کی گئی اور کئی روز تک آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا لیکن جواد کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

مزید پڑھیے: پشاور: آوارہ دوستوں سے نہ ملنے کی نصیحت ماں کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی

توحید ذوالفقار نے بتایا کہ جواد کے گھر والے اپنے لخت جگر کی زندگی کی دعائیں کرتے ہوئے اسپتال سے ہلنے کا نام نہیں لے رہے تھے لیکن جب ڈاکٹرز نے دیکھا کہ مریض صرف مشین کے ذریعے زندہ ہے اور طبی طور پر مردہ ہو چکا ہے تو انہوں نے اہلخانہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے مریض کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے کا مشورہ دیا۔ توحید نے بتایا کہ اہلخانہ خصوصاً جواد کے والد نورداد خان بات ماننے کو تیار نہیں تھے اور بضد تھے کہ بچے کو مشین پر ہی رکھا جائے۔

اسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ 5 جون کو ڈاکٹرز نے جواد کے چچا کو بلا کر صورت حال سے آگاہ کیا جس پر لڑکے کے والد کو سمجھایا گیا کہ ان کا پیارا اب نہیں رہا لیکن اب وہ چاہیں تو جواد کے جسمانی اعضا عطیہ کرکے دوسروں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ خاصے مشوروں کے بعد اہلخانہ نے اسپتال انتظامیہ کو جسمانی اعضا نکال کر ضرورت مند مریضوں کو عطیہ کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست دے دی۔

توحید ذوالفقار نے کہا کہ جواد کے والد نورداد خان نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اس لیے اس کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ اہلخانہ کے فیصلے کی روشنی میں اسپتال انتظامیہ نے میٹنگ بلائی اور اسلام آباد سے بھی ایک طبی ٹیم آئی اور بالآخر اہلخانہ کی منشا کے مطابق جواد کے اعضا نکال لیے گئے۔

اسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے جواد خان کا جگر، گردے اور قرنیے نکالے جس سے 3 لوگوں کو نئی زندگیاں اور 2 کی آنکھوں کو روشنی مل گئی۔

توحید ذوالفقار نے بتایا کہ ڈاکٹرز کے مطابق جب کوئی مریض طبی طور پر مر بھی چکا ہوتا ہے لیکن اس کی سانس مشین کے ذریعے چل رہی ہوتی ہے تو اس وقت بھی اس کے اعضا ٹھیک رہتے ہیں کیونکہ سانس چلنے سے خون کی سپلائی جاری رہتی ہے۔

مزید پڑھیں: یتیموں کی کفالت کے لیے آبائی گھر بیچ دینے والا مردان کا گھرانا

انہوں نے بتایا کہ جواد کے عطیہ کردہ قرنیے 2 مریضوں کو دیے گئے جبکہ گردے بھی ضرورت مند مریضوں کو پیوندکاری کے ذریعے لگا دیے گئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پیوندکاری کامیاب رہی اور مریض ٹھیک ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اعضا کی پیوندکاری انسانی اعضا کا عطیہ پشاور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس مردان مردان کے لڑکے کی قربانی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے
  • پشاور: دنیا سے رخصت ہوتا 14 سالہ لڑکا 5 خاندانوں کو انمول خوشیاں دے گیا
  • اسسٹنٹ پروفیسر اصغر علی پر سندھ ہائیکورٹ کے جرمانے کا فیصلہ کالعدم قرار
  • سپریم کورٹ: قائد عوام یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کا جرمانہ ختم، مضمون کی تبدیلی پر اعتراض مسترد
  • ہالی ووڈ پروڈیوسر جنسی زیادتی کے میگا کیس میں مجرم قرار؛ کڑی سزا کا امکان
  • فنانس بل کے تحت ایف بی آر کے ریونیو افسران کو کمپنیوں کے افسران کی گرفتاری کا اختیار مل گیا
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت آج نہیں ہو سکے گی
  • دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار
  • رکن بلدیہ سکھر عذرا جمال لائبریریزکی فوکل پرسن مقرر
  • چینی قونصلیٹ حملہ کیس؛ تفتیشی افسر 3 ماہ میں ایک گواہ بھی پیش نہ کر سکا