پاکستان بھر میں موٹرویز بنے، سکھر۔حیدرآباد کا خواب ادھورا ہے، وزیراعلیٰ سندھ
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
کراچی:وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شاہراہ بھٹو کے پہلے فیز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سکھر۔حیدرآباد موٹروے کی تعمیر نہ ہونے پر وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں موٹرویز بن گئے، مگر سندھ کے اس اہم منصوبے پر اب تک کام شروع نہیں ہوا۔
مراد علی شاہ نے افتتاحی تقریب میں کہا کہ یہ منصوبہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مکمل کیا گیا ہے۔یہ منصوبہ کراچی ہی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔انہوں نے منصوبے کی تعمیر کے لیے مالی تعاون فراہم کرنے پر نجی شعبے کے کردار کی تعریف کی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کے ترقیاتی منصوبے، جیسے ماڑی پور ایکسپریس وے، طارق روڈ اور شاہراہ فیصل کو بھی مثالی منصوبوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 160 ایم جی ڈی اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام جاری ہے، جب کہ ڈی سیلینیشن پلانٹ اور کے۔فور منصوبے میں بھی پیشرفت ہورہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں اورنج اور ریڈ لائن بس منصوبے بھی سب کے سامنے ہیں جب کہ حکومت صحت کے شعبے میں بھی نمایاں اقدامات کر رہی ہے۔
مراد علی شاہ نے زور دیا کہ سکھر۔حیدرآباد موٹروے کی تعمیر وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے نہ کہ صوبائی حکومت کی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے انٹرا ڈسٹرکٹ روڈز پنجاب سے بہتر ہیں، لیکن موٹروے جیسے بڑے منصوبے وفاقی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ تنقید کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ اس شہر اور صوبے کی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ کراچی کی طرح سندھ کے دیگر شہر بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔