Islam Times:
2025-09-18@21:27:14 GMT

جوزف عون اور لبنان میں طاقت کی نئی مساوات

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

جوزف عون اور لبنان میں طاقت کی نئی مساوات

اسلام ٹائمز: نئے لبنانی صدر کی حزب اللہ لبنان سے متعلق پالیسی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ سمیت دیگر بیرونی قوتوں سے ان کا کیا سمجھوتہ طے پاتا ہے۔ جوزف عون بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کو محدود کرنے سے انہیں اندرونی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کے حالات بھی لبنان کی سیاسی صورتحال پر موثر ہیں۔ اگر ماضی میں صدر بشار اسد حکومت مشکل حالات میں حزب اللہ لبنان کی مدد کرتی تھی تو اب نئی صورتحال جنم لے چکی ہے اور حزب اللہ لبنان کو شام کی حمایت کے بغیر اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے لبنان میں جو چیز اہم ہے وہ حزب اللہ لبنان کی پوزیشن، کردار اور سیاسی اثرورسوخ کو مضبوط بنانے نیز اسے مسلح باقی رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ تحریر: مصطفی نجفی
 
لبنان میں صدارتی الیکشن کے نتیجے میں جوزف عون اس ملک کے نئے صدر کے طور پر چنے گئے ہیں۔ اس کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں بہت سے ابہامات اور سوالات موجود ہیں۔ لبنان کا نیا صدر لبنان کی اندرونی سیاسی طاقتوں یا بیرونی سیاسی طاقتوں کے درمیان کس قسم کے معاہدے کے تحت چنے گئے ہیں؟ جوزف عون کے انتخاب کے بعد کیا حزب اللہ لبنان پر دباو بڑھ جائے گا یا یہ تنظیم ماضی کی طرح بدستور فعال کردار ادا کرتی رہے گی؟ جوزف عوان کے ایران اور دیگر علاقائی ممالک سے تعلقات کس قسم کے ہوں گے؟ جو چیز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے یہ ہے کہ جوزف عون کا انتخاب لبنان کے اندرونی سیاسی حلقوں کے درمیان معاہدے کا نتیجہ نہیں ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ جوزف عون کا لبنان کے نئے صدر کے طور پر سامنے آنا بیرونی دباو اور امریکہ، فرانس، سعودی عرب، قطر اور حتی اسرائیل جیسے کھلاڑیوں کے درمیان سازباز کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ کی جانب سے لبنان کے نئے صدر کو ایکس پلیٹ فارم پر اپنے پیغام میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان جنگ شروع ہو جانے کے بعد امریکہ اور فرانس نے حزب اللہ لبنان کی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے وسیع کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ امریکہ نے جنگ بندی سے پہلے ہی جوزف عوف کو لبنان کا صدر بنانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے لبنان کے اسپیکر نبیہ بری اور حزب اللہ لبنان کی حامی سیاسی جماعتوں پر بھی بہت دباو ڈالا لیکن آخرکار طے یہی ہوا کہ جوزف عون جنگ بندی کے بعد صدر بنے۔
 
کچھ امید افزا اشاروں کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے کہ جوزف عون کا انتخاب حزب اللہ لبنان کی سیاسی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا اور لبنان کا نیا صدر، پہلے سے امریکہ اور فرانس سے طے شدہ امور کی روشنی میں درج ذیل اہم اقدامات انجام دینے کی کوشش کرے گا:
1)۔ قرارداد 1701 اور اسرائیل سے جنگ بندی معاہدے کو پوری طرح لاگو کرے گا اور حزب اللہ لبنان کو مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ درحقیقت، وہ بیرونی قوتیں جنہوں نے لبنان کے آرمی چیف جوزف عون کو صدر بننے میں معاونت فراہم کی ہے ان سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ جنگ بندی معاہدے کو سو فیصد لاگو کریں اور حزب اللہ لبنان کو مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کی جانب واپس آنے سے روکیں۔
 
یاد رہے جوزف عون نے لبنان کا آرمی چیف ہونے کے ناطے لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ معاہدہ طے پانے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اب وہ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کی مکمل پاسداری کرنے کے درپے ہیں۔
2)۔ اسی طرح نئے لبنانی صدر جوزف عوف، لبنان آرمی کو بھی مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے جس کا نتیجہ امریکہ، فرانس اور سعودی عرب پر لبنان آرمی کے انحصار میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسی طرح وہ جہاں تک ممکن ہوا حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ جوزف عون نے صدر بننے کے بعد لبنان پارلیمنٹ سے تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ لبنان میں صرف آرمی کے پاس ہتھیار ہونے چاہئیں۔
 
3)۔ دوسری طرف یوں دکھائی دیتا ہے کہ جوزف عون کے انتخاب کے بعد لبنان کے سیاسی میدان میں نئی مساواتیں حکمفرما ہو جائیں گی اور اندرونی قوتیں، بیرونی قوتوں کی حمایت سے حزب اللہ لبنان کے سیاسی اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوشش کریں گی۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لبنان حال ہی میں ایک تباہ کن جنگ سے باہر نکلا ہے اور اب صدر کے انتخاب کے بعد سیاسی بند گلی سے بھی باہر آ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوزف عون لبنان کے اندرونی چیلنجز نیز بیرونی خطرات جیسے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بیرونی مداخلت کے باعث مشکل حالات سے روبرو ہوں گے۔ اگرچہ جوزف عون حزب اللہ لبنان اور دیگر شیعہ قوتوں کے لیے مطلوبہ انتخاب نہیں تھا لیکن انہوں نے کچھ ایسے تحفظات کی بنیاد پر جو ماضی میں نہیں تھے، پارلیمنٹ میں انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
 
نئے لبنانی صدر کی حزب اللہ لبنان سے متعلق پالیسی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکہ سمیت دیگر بیرونی قوتوں سے ان کا کیا سمجھوتہ طے پاتا ہے۔ جوزف عون بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کو محدود کرنے سے انہیں اندرونی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شام کے حالات بھی لبنان کی سیاسی صورتحال پر موثر ہیں۔ اگر ماضی میں صدر بشار اسد حکومت مشکل حالات میں حزب اللہ لبنان کی مدد کرتی تھی تو اب نئی صورتحال جنم لے چکی ہے اور حزب اللہ لبنان کو شام کی حمایت کے بغیر اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے لبنان میں جو چیز اہم ہے وہ حزب اللہ لبنان کی پوزیشن، کردار اور سیاسی اثرورسوخ کو مضبوط بنانے نیز اسے مسلح باقی رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حزب اللہ لبنان کی ہے کہ جوزف عون لبنان اور کے درمیان لبنان کے لبنان کا کی کوشش اور اس ہیں کہ کے لیے اس بات صدر کے کے بعد

پڑھیں:

پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے  کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔

قطری دارالحکومت دوحا میں  عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ  اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک  بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔  آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔

اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا   ہے۔

انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ  ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور  جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر  مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔

اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک  توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے  کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔

بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور  بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔

افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔

انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام  غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • لبنان میں منشیات کی بڑی کھیپ پکڑلی گئی
  • صیہونی فوج کیطرف سے جنوبی لبنان پر ایک بار پھر جارحیت
  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • وسائل ہوں سعودی عرب اور طاقت پاکستان کی ہو تو دنیا میں کس میں جرأت ہے ہمارے مقابلے کی، رانا ثنااللہ کا دفاعی معاہدے پر ردعمل 
  • آپریشن بنیان مرصوص کے بعد ہمارا ملک ابھر کر سامنے آیا ہے: شیری رحمان
  • پاکستان جوہری طاقت ہے ،خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے،چاہ کوئی بھی ملک ہو،اسحق ڈار
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو