وفاقی وزیر توانائی مصدق ملک نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگی بجلی اور گیس سے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے۔

لاہور میں تھنک فیسٹ سے خطاب میں مصدق ملک نے کہا کہ بنگلا دیش، سعودی عرب اور چین میں گیس سستی ہونے سےکاروبار کو فروغ ملا۔

ہمارا نظام حکمرانی فیل ہوچکا، بجلی پر61 فیصد ٹیکس ہے، مفتاح اسماعیل

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ہمارا نظام حکمرانی فیل ہوچکا ہے، ملک میں 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے کاروبار کو نقصان پہنچا، سستی بجلی اور گیس جہاں بھی ہو گی وہاں کی صنعتوں کو فروغ ملے گا۔

وفاقی وزیر توانائی نے مزید کہا کہ ان ممالک نے ترقی کی جہاں آئیڈیاز کو اہمیت دی گئی، بنگلا دیش سستی بجلی کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں ترقی کرگیا۔

پاکستان میں ٹیکس ریٹ غلط ہے، جسے ٹھیک کیا جانا چاہیے، چیئرمین ایف بی آر کا اعتراف

چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ریٹ غلط ہے،جسے ٹھیک کیا جانا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اٹلی اور فرانس مہنگی لیبر کے باوجود ایکسپورٹ میں آگے ہیں، ہمیں نئے کاروبار، نئی مارکیٹ اور نئے کسٹمرز کو دیکھنا ہوگا۔

مصدق ملک نے یہ بھی کہا کہ نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی ضرورت ہے، گرین انرجی پر کام کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: پاکستان میں کاروبار کو مصدق ملک نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

زرعی ٹیکس کی وصولی سمیت بجٹ شرائط پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے: آئی ایم ایف

اسلام آباد (آئی این پی)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے بجٹ کے حتمی مشاورتی مراحل میں پروگرام کی شرائط پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، جس میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کی صوبائی بجٹ میں شمولیت بھی شامل ہے، تاکہ اس کی موثر وصولی ستمبر 2025 سے پہلے شروع کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کے اضافی بجلی کی گنجائش کو استعمال کرنے کے لیے بجلی کے استعمال میں اضافے کی حوصلہ افزائی کے منصوبے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف صوبوں سے اخراجات پر کنٹرول کے لیے مضبوط وعدہ چاہتا ہے، حالاں کہ صوبوں نے ترقیاتی منصوبوں میں توسیع کی تجاویز دی ہیں، جنہیں نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی)نے منظور بھی کر لیا ہے، چاروں صوبے اگلے سال کے لیے آئی ایم ایف کے اندازوں سے تقریبا 850 ارب روپے زیادہ ترقیاتی اخراجات مختص کر چکے ہیں۔دوسری جانب مرکز کی محصولات میں کمی کی وجہ سے صوبے اس سال بجٹ سرپلس فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، اور آئندہ مالی سال کے لیے اپنے حصص کو زیادہ سے زیادہ مختص کر رہے ہیں، تاکہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے آئندہ اجلاس سے پہلے اپنے مالی حقوق سے محروم نہ ہو جائیں۔آئی ایم ایف زرعی آمدنی پر مکمل عملدرآمد اور متعلقہ خدمات کا بھی خواہاں ہے، جس پر ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتفاق نہیں ہو سکا، کیوں کہ مرکز کا ماننا ہے کہ کارپوریٹ زراعت اس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ذرائع کے مطابق حکام نے 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کو کم قیمت پر بیچنے کی اجازت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس میں کسی سبسڈی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ اس قسم کے معاشی بگاڑ، بشمول ٹیکسیشن، مراعات، اور الائونسز نے ملک کو مشکلات میں ڈالا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ اضافی بجلی کو اگر نئے صارفین اور صنعتی شعبوں کو بیچنے کی اجازت دی جائے تو یہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہے، چاہے منافع کے بغیر ہی کیوں نہ ہو، مگر آئی ایم ایف اسے ان صارفین کے ساتھ ناانصافی سمجھتا ہے جو پہلے ہی بھاری نرخ ادا کر رہے ہیں۔یہ بھی غیر منصفانہ تصور کیا گیا کہ پرانے صنعتی یونٹس جو زیادہ پیداواری لاگت پر چل رہے ہیں، وہ ان نئی صنعتوں سے مقابلہ کریں، جو سستی بجلی پر چل رہی ہوں، حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں استحکام کے لیے لاگت میں کمی کی کوششیں جاری رکھے اور تمام صارفین کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔اس سلسلے میں یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا کرپٹو مائننگ کے لیے 2 ہزار میگاواٹ بجلی 3 سے 4 سینٹ فی یونٹ (یعنی 8-9 روپے) پر دینے کا منصوبہ کامیاب ہوسکے گا یا نہیں، کیوں کہ بنیادی نرخ 24 سے 25 روپے فی یونٹ ہیں۔آئی ایم ایف نے صوبوں کی جانب سے دی گئی بجلی اور گیس پر سبسڈی کی بھی مخالفت کی ہے، جیسا کہ رواں سال پنجاب نے یہ سبسڈی دی تھی، اور آئندہ سال بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی، گیس چوری اور اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کی جائے، تاکہ مالی اور ٹیکس نقصان کم کیا جا سکے، اس حوالے سے، آئندہ سال صوبوں کو بھی اپنے محکموں میں کمی کرنا ہو گی تاکہ وہ وفاق کی اس سال کی جانے والی مشق کی حمایت کر سکیں۔اگلے سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس ہدف تقریبا 14 ہزار 200 ارب روپے پر قائم رہے گا، جیسا کہ چند ماہ قبل توسیعی فنڈ پروگرام کے پہلے جائزے میں طے پایا تھا، دیگر زیادہ تر اندازے بھی وہی رہیں گے۔تنخواہ دار طبقے کے لیے معمولی ٹیکس رعایت دی جائے گی، لیکن خوردہ شعبے سے وصولیوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی، آئندہ سال کے بجٹ کا بنیادی موضوع ڈیجیٹائزیشن ہوگا، اور نقد و ڈیجیٹل لین دین کے لیے مختلف ٹیکس اور شرحیں لاگو کی جائیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • زرعی ٹیکس کی وصولی سمیت بجٹ شرائط پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے: آئی ایم ایف
  • کراچی کیلیے بجلی سستی اور باقی ملک کیلیے مہنگی کردی گئی، نوٹی فکیشن جاری
  • کراچی کیلئے بجلی 2.99 روپے فی یونٹ سستی، باقی ملک کیلئے 93 پیسے مہنگی
  • جنگ میں بھارت کا تماشادنیا نے دیکھا، رافیل ایسے گریجیسے چڑیا گرتی ہیں: مصدق ملک
  • کے الیکٹرک صارفین کے لیے بجلی سستی، نوٹیفکیشن جاری
  • جنگ میں بھارت کا تماشادنیا نے دیکھا، رافیل ایسے گرےجیسے چڑیا گرتی ہیں: مصدق ملک
  • عید قرباں کی تیاری، سبزیاں سستی ہوئیں یا مہنگی؟
  • ’سرنڈر مودی سرکار‘ بھارت کی عسکری اور سفارتی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے، راہول گاندھی
  • سیلاب کی روک تھام کےلئے نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ،ہماری معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے.شہبازشریف
  • ہماری معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے: وزیراعظم