WE News:
2025-09-18@14:52:41 GMT

گوادر کا منفرد بیچ کنٹینر لائبریری

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

پاکستان میں کنٹینرز اکثر سیاسی سرگرمیوں اور روڑ بلاک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، مگر گوادر کے نوجوانوں نے کنٹینر کو ایک ایسے منفرد کام کے لیے استعمال کیا ہے جس سے نہ صرف گوادر کے طالب علم مستفید ہو رہے ہیں بلکہ اس کنٹینر نما لائبریری میں آرٹ اور میوزک کے کلاسسز بھی ہو رہی ہیں۔

گوادر کے ساحل پر موجود اس کنٹینر کو گوادر کے کچھ نوجوانوں نے ایک منفرد لائبریری میں تبدیل کر دیا ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں سے گوادر آنے والے لوگ اس لائبریری کا وزٹ کرتے اور نوجوانوں کی علم دوستی کو خوب سراہتے ہیں۔

اس لائبریری میں مختلف موضوعات پر ایک ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں۔ یہاں امتحانات کے وقت رش رہتا ہے کیونکہ طالب علم امتحانات کی تیاری کے لیے اس پر سکون جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔

بیچ کنٹینر لائبریری گوادر کے ایک منتظم نصیر محمد نے وی نیوز کو بتایا کہ  آج سے 5 سال قبل 2019 مین روٹری کلب پاکستان نے  10 ہزار کتابوں سے بھرا ایک کنٹینر  عطیہ کیا تھا، یہ کتب ضلع کے مختلف تعلیمی اداروں اور  لائبریریوں میں تقسیم کئی گئیں۔ اس وقت ہماری تنظیم بامسار تعلیم پر کام کر رہی تھی۔

اس کے بعد ہمارے دوستوں نے مشورہ کیا کہ اس کنٹینر کو گوادر کے کسی ایسی جگہ پر رکھا جائے ،جس سے مقامی لوگ مستفید ہوسکیں۔ تو ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اسے سمندر کے کنارے رکھ کر لائبریری بنایا جائے۔

پاکستان میں کنٹینر کو زیادہ تر سیاسی سرگرمیوں اور روڑ بلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس کنٹینر کو سمندر کے کنارے رکھ کر لائبریری میں بدل دیا ہے۔ اس کام میں ضلعی انتظامیہ اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہمارے ساتھ بہت  تعاون کیا انہی کے تعاون سے یہ کام ممکن ہوا۔

یہ لائبریری گزشتہ 5 سال سے قائم ہے، یہاں روزانہ  5 سے 10 طلبا و طالبات مطالعہ کے لیے آتے ہیں۔ گوادر اسکول آف آرٹس گروپ کی طرف سے یہاں آرٹ اور میوزک کے کلاسز بھی ہوتی ہیں۔

گوادر اسکول آف آرٹس میں گٹار کے ایک طالب علم اسد بلوچ نے بتایا کہ بامسار کے تعاون سے بیچ کنٹینر لائبریری میں پینٹگز اور گٹار کے کلاسیں ہوتی ہیں، اور میں یہاں گٹار بجانا سیکھ رہا ہوں۔

 بلوچستان آرٹ کا ایک گڑھ مانا جاتا ہے اور گوادر میں آرٹسٹ بہت ہیں۔

گوادر یونیورسٹی کے ایک طالب علم محمد موسیٰ نے بتایا کہ ہم روز شام  کو یہاں پڑھائی کرتے ہیں اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ سمندر کی خوبصورتی کا لطف اٹھاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: لائبریری میں کنٹینر کو اس کنٹینر کے لیے اس طالب علم گوادر کے

پڑھیں:

ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے

لاہور:

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔

بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔

باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔

خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مولانا ہدایت الرحمن کی ڈائریکٹر جنرل جی ڈی اے سے ملاقات
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • 3سال، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • گوادر میں پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان کے اہم اقدامات
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • کترینہ کیف اور وکی کوشل کے یہاں پہلے بچے کی پیدائش متوقع ہے؟