ہم غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
فلسطینی گروپ حماس نے غزہ کو تباہ کرنے والی 460 دن سے زائد جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 46,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی معاہدے پر اتفاق نہیں ہوا ہے، تاہم حتمی تفصیلات کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔
عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر جمعرات کو اسرائیلی حکومت کی رائے شماری متوقع ہے۔
دوسری جانب امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایک معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
عارضی جنگ بندی
رپورٹ کردہ معاہدے میں ایک عارضی جنگ بندی شامل ہے جو کہ فی الحال غزہ پر ہونے والی تباہی کو ختم کرے گی۔ نیز غزہ میں قید اسیروں اور اسرائیل کے زیر حراست بہت سے قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔
یہ معاہدہ بالآخر بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا ۔ حالانکہ اسرائیل کی جان بوجھ کر تباہی کی مہم کے بعد، بہت سے گھر اب باقی نہیں رہے۔
معاہدے کا متن
معاہدے کا متن ابھی تک باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے، عرب اور مغربی میڈیا کے مطابق یہ معاہدہ درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔
پہلا مرحلہ
ابتدائی مرحلہ چھ ہفتے تک جاری رہے گا، اور اس میں محدود قیدیوں کا تبادلہ، غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کا جزوی انخلا اور انکلیو میں امداد کا اضافہ شامل ہوگا۔
قیدیوں کا تبادلہ
7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی قیادت میں کیے گئے حملے کے دوران 33 اسرائیلی اسیران، جن میں خواتین، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے شہری شامل ہیں، رہا کیے جائیں گے۔ بدلے میں اسرائیل اس مرحلے کے دوران تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے 250 قیدی بھی شامل ہیں۔ رہا کیے جانے والے فلسطینیوں میں 1000 کے قریب ایسے ہیں جنہیں 7 اکتوبر کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوجیوں کی واپسی
اسیروں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ، اسرائیل غزہ کے آبادی کے مراکز سے اپنی افواج کو غزہ کی اسرائیل کے ساتھ سرحد کے اندر 700 میٹر سے زیادہ کے علاقوں میں واپس بلا لے گا۔ تاہم، اس سے نیٹزارم کوریڈور خارج ہو سکتا ہے۔
اسرائیل انکلیو کے محصور شمال میں شہریوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا، جہاں امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ قحط نے زور پکڑ لیا ہے، اور انکلیو میں امداد کے اضافے کی اجازت دے گا ،جس کے مطابق روزانہ 600 ٹرک تک امداد لاسکیں گے۔
زخمیوں کا علاج
اسرائیل زخمی فلسطینیوں کو علاج کے لیے غزہ کی پٹی سے نکلنے کی بھی اجازت دے گا اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد شروع ہونے کے سات دن بعد مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھول دے گا۔
اسرائیلی افواج مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی علاقے فلاڈیلفی کوریڈور میں اپنی موجودگی کو کم کر دیں گی اور پھر بعد کے مراحل میں مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اجازت دے گا کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اربوں پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک میں جدید جوہری توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔
الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ "اٹلانٹک پارٹنرشپ فار ایڈوانسڈ نیوکلیئر انرجی" کے نام سے جانا جا رہا ہے جس کا مقصد نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کو تیز کرنا اور توانائی کے بڑے صارف شعبوں، خصوصاً مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز، کو کم کاربن اور قابلِ بھروسہ بجلی فراہم کرنا ہے۔
اس معاہدے کے تحت برطانیہ کی سب سے بڑی توانائی کمپنی ’سینٹریکا‘ کے ساتھ امریکی ادارے ایکس انرجی مل کر شمال مشرقی انگلینڈ کے شہر ہارٹلی پول میں 12 جدید ماڈیولر ری ایکٹرز تعمیر کرے گی۔
یہ منصوبہ 15 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے اور 2,500 ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی ہولٹیک، فرانسیسی ادارہ ای ڈی ایف انرجی اور برطانوی سرمایہ کاری فرم ٹریٹیکس مشترکہ طور پر نوٹنگھم شائر میں چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز (SMRs) سے چلنے والے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کریں گے۔
اس منصوبے کی مالیت تقریباً 11 ارب پاؤنڈ (15 ارب ڈالر) بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، برطانوی رولز رائس اور امریکی بی ڈبلیو ایکس ٹی کے درمیان جاری تعاون کو بھی مزید وسعت دی جائے گی۔
برطانیہ کے پرانے جوہری پلانٹس فی الحال برطانیہ میں 8 جوہری پاور اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 5 بجلی پیدا کر رہے ہیں جب کہ 3 بند ہوچکے ہیں اور ڈی کمیشننگ کے مرحلے میں ہیں۔
یہ زیادہ تر 1960 اور 1980 کی دہائی میں تعمیر ہوئے تھے اور اب اپنی مدتِ کار کے اختتامی مرحلے پر ہیں۔ موجودہ توانائی صورتحال برطانیہ اپنی بجلی کا تقریباً 15 فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرتا ہے جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 25 فیصد سے زائد تھی۔
خیال رہے کہ 2024 میں پہلی مرتبہ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی (ونڈ پاور) نے ملک کا سب سے بڑا بجلی کا ذریعہ بن کر گیس سے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کُل بجلی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔
امریکا کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف امریکی جوہری ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھائے گا بلکہ برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پورے پروگرام سے 40 ارب پاؤنڈ (54 ارب ڈالر) کی معاشی قدر پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دنیا بھر میں ایڈوانسڈ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مانگ 2050 تک تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے۔
امریکا میں بھی جوہری توانائی کی طلب 100 گیگا واٹ سے بڑھ کر 400 گیگا واٹ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ نے ملک کی جوہری پیداواری صلاحیت کو چار گنا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
عالمی اوسط کے مطابق ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر میں تقریباً 7 سال لگتے ہیں تاہم چین میں یہ مدت پانچ سے چھ سال ہے جبکہ جاپان نے ماضی میں کچھ ری ایکٹرز صرف تین سے چار سال میں مکمل کیے تھے۔