مزاحمتی محور کی عظیم فتح
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ جنگ بندی عارضی ہے، کیونکہ ظالم ایک وقفہ لے گا اور پھر پوری طاقت سے حملہ کریگا۔ وہ اپنی کمزوریاں دور کریگا اور اپنی غلطیوں کو درست کریگا۔ مزاحمت کیلئے بھی خود کو منظم کرنے کا وقت ہے۔ لبنان، عراق، یمن اور ایران میں طاقت کو جمع کیا جائے۔ جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، انکی نشاندہی کی جائے۔ طاقتور پہلووں کو مزید طاقتور بنایا جائے۔ ہر جگہ نئے چیلنجز آرہے ہیں اور اب منافقین کو استعمال کیا جائیگا۔ اس سب پر ان شاء اللہ تفصیل سے لکھیں گے۔ یہ وقت اپنے شہیدوں کی یاد کیساتھ خوشی منانے کا ہے کہ شکر خدا مزاحمتی محور جیت چکا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
اسرائیل نے جدید دور میں لائیو فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ سات اکتوبر 2023ء سے لے کر آج تک ہر روز ایک نیا المیہ لے کر آیا، جبر کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ فرعونیت کے لہجے میں کہا گیا کہ ہم ملیا میٹ کر دیں گے۔ حماس اب ماضی کا قصہ بن جائے گی اور اب ہم خود یا ہمارے کنڑولڈ نمائندے حکومت کریں گے۔ ہم طاقت کے زور پر قیدی چھڑائیں گے اور کسی کی ایک نہیں سنیں گے۔ اسرائیل کے جبر اور نسل کشی نے امریکہ اور یورپ کو پوری طرح سے بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کا جال بچھایا ہوا ہے، اہل فلسطین کی قربانیوں سے واضح ہوگیا کہ یہ سب ڈھونگ ہیں اور اصل میں دنیا پر قبضے کا جدید ہتھیار ہے۔ کچھ لوگ عقل کل بن کر سوال اٹھا رہے ہیں کہ مزاحمت نے کیا حاصل کیا۔؟ جناب مزاحمت موجود ہے اور پورے قد سے موجود ہے، یہی کیا کم ہے۔؟
وہ جو فرعون کے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ ہم کسی کی نہیں سنیں گے، وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ حماس کیا جواب دیتی ہے؟ اہل غزہ نے صبر کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ اسرائیل اور یورپ اس بات پر حیران تھے کہ اتنے مظالم سہنے کے باوجود یہ لوگ حماس کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں کر رہے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آزادی کا راستہ اس وقت قریب ہو جاتا ہے، جب قوم میں یکسوئی پیدا ہو جائے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگرچہ چار طرف اور آسمان سے پابندیوں کا شکار ریاست بھی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہو تو آپ اپنا دفاع اس طرح کرسکتے ہو کہ پوری دنیا سوا سال تک آپ کے وجود کی دشمن رہے، پھر بھی آپ پوری طاقت سے موجود رہتے ہیں۔ بس ریاست اپنی ہو اور اپنے لوگوں کے لیے ہو اور مخلص ہو کر کام کر رہی ہو۔
صلح کی شرائط آپ نے پڑھ لی ہوں گی، پورا غزہ حماس کے پاس ہوگا، جو مجاہد شہید ہوگئے، اگلے ایک سال میں اس سے زیادہ بھرتی کر لیے جائیں گے۔ عمارتیں تعمیر ہو جائیں گی، مگر ان ممالک کے خواب خواب ہی رہیں گے، جو اپنے ذاتی مفادات میں اہل فلسطین کا سودا کرچکے تھے۔ اہل فلسطین کی قربانیوں نے انہیں پسپا کر دیا ہے۔ اہل فلسطین نے یہ راہ دکھلائی ہے کہ مزاحمت اور مسلسل مزاحمت کی جائے تو قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں، مگر آخر میں فتح آپ کی ہوتی ہے۔قابض کے خلاف مزاحمت کی جیت یہی ہے کہ مزاحمت موجود رہے اور متحرک رہے۔اس مزاحمت نے مصر، اردن، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی منافقت سے بھی پردہ چاک کیا ہے، اس پر وقتاً فوقتاً تفصیل سے لکھا جائے گا۔
بی بی سی کے ثقلین امام لکھتے ہیں، فلسطینیوں کی کامیابی صرف ان کے اپنے جان و مال کی قربانیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوئی ہے، بلکہ حزب اللہ، حوثیوں، ایران اور مزاحمت کے محور کی بدولت ہوئی ہے۔ اس یکجہتی نے ایک عالمی تحریک کو جنم دیا ہے، جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ، طلباء، ماہرین تعلیم اور عام شہری فلسطین کے کاز میں شامل ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو فلسطینیوں کی حمایت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، جیسے نوکریوں کا نقصان، قید، ہراسانی، گرفتاری، جسمانی حملے اور زبانی و بدسلوکی۔ جس طرح دنیا فلسطین کے کاز کو نہیں بھلے گی، اُسی طرح جنگی جرائم کرنے والوں کو نہیں بھولا جائے گا۔
جو ہر چیز کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، ان کو خبر ہو، جنوب لبنان کے شیعہ شیروں کی مزاحمت یاد رکھی جائے گی، یمن کے شیعوں نے حق وفا ادا کیا، عراق کے پیروان امام حسینؑ نے مسلسل محاذ گرمائے رکھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران براہ راست شریک جنگ رہا۔ مسلکی مینڈکوں خبر ہو، صرف لبنان کی شیعہ قیادت کی پہلی تین لیرز جنگ میں شہید کر دی گئی ہیں۔ پورا جنوبی لبنان جو سب کا سب شیعہ ہے، اس وقت کھنڈرات کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ جب حوثیوں پر سعودی اور اماراتی وفادار حملے کر رہے تھے، اس وقت ان کے میزائل اسرائیل پر برس رہے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان شیعہ خطوں کو ایک لمبے عرصے تک اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، جو وہ کر بھی رہے ہیں۔ دوسروں نے کیا کیا؟ جب اسرائیل کے ساتھ معاملہ درپیش تھا تو ترکی کی سرپرستی میں شام پر قابض ہو کر فلسطین کی سپلائی لائن ہی کاٹ دی۔ یہ تاریخ کا سیاہ باب سب کو یاد رہے گا۔
لطیف علیانی نے درست تجزیہ کیا کہ لبنان کے بعد غزہ میں جنگ بندی کے بعد اس خطے میں دونوں محاذوں پر جنگیں رک گئی ہیں اور اگر اس دوران شامی حکومت نہ گرتی تو اس وقت مزاحمتی محاذ مضبوط ترین حالت میں ہوتا اور اسرائیل کمزور ترین دور سے گزر رہا ہوتا، لیکن نہیں جناب ایک بار پھر سے ترکی نے جہادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کا تحفظ یقینی بنایا اور شام کی اسرائیل مخالف حکومت گرا دی اور مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے، اسرائیل کو لبنان و غزہ جنگوں میں اہداف کو حاصل کرنے میں جو ناکامی کا داغ لگا ہوا تھا، وہ شام ان کے قدموں میں رکھ کر ان کی لاج رکھ لی، تاریخ ترکی اور خوارج کی امت مسلمہ سے غداری اور پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے اس واقعہ کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
یہ جنگ بندی عارضی ہے، کیونکہ ظالم ایک وقفہ لے گا اور پھر پوری طاقت سے حملہ کرے گا۔ وہ اپنی کمزوریاں دور کرے گا اور اپنی غلطیوں کو درست کرے گا۔ مزاحمت کے لیے بھی خود کو منظم کرنے کا وقت ہے۔ لبنان، عراق، یمن اور ایران میں طاقت کو جمع کیا جائے۔ جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، ان کی نشاندہی کی جائے۔ طاقتور پہلووں کو مزید طاقتور بنایا جائے۔ ہر جگہ نئے چیلنجز آرہے ہیں اور اب منافقین کو استعمال کیا جائے گا۔ اس سب پر ان شاء اللہ تفصیل سے لکھیں گے۔ یہ وقت اپنے شہیدوں کی یاد کے ساتھ خوشی منانے کا ہے کہ شکر خدا مزاحمتی محور جیت چکا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں اور رہے تھے گا اور
پڑھیں:
غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ : مجرم کون ہے؟
پاکستان بھر کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک مرتبہ پھر غزہ کی داستان ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ یہ ابال سات اکتوبر کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا لیکن آج کل یہ ایک اور زاویہ کے ساتھ نظر آرہا ہے، یعنی غزہ میں بھوک اور قحط کے مسائل پر ہے۔ جی ہاں! یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گزشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔
نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ راقم نے متعدد جلسوں اور تحریروں میں ہمیشہ اس اہم مسئلہ طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ پاکستان کے ذرایع ابلاغ پر غزہ کی بھوک اور پیاس کو بیان کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے اثر ات سے یہ بات بھی بیان ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع ہونیوالے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو اس وقت اپنی نشانہ بازی کا شکار کرتے ہیں جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کر کے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں اچانک غاصب صیہونی درندہ فوجی ان کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کو اپنے پیاروں سے دور کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو صیہونی غاصب حکومت اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹر ٹینمنٹ کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسرائیل کی درندہ صفت فوج جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی وڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔ آج ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغربی دنیا بلند کرتی ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے؟
بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ ان کو قتل کرنے والی صرف غاصب اسرائیلی فوج ہی ذمے دار تو نہیں ہے بلکہ یہی غاصب صیہونی فوج جب ان لوگوں کو قتل کرتی ہے اس کے بعد جو منرل واٹر پینے کا استعمال کرتی ہے وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہے، یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔
حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمے دار ہے ہی لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورونوش اسرائیل کے لیے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمے دار اور شریک جرم ہیں۔
آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ غزہ میں حاملہ خواتین اور بزرگوں کی حالت زار دل دہلا دینے والی ہے۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ انتہائی وسیع پیمانے پر ہولناک نسل کشی ہے۔
انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی حکومتیں خاموش ہیں۔ عالمی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی غزہ کے عوام کو دانستہ قحط کا شکار بنانے میں شراکت داری ہے۔ مسلم دنیا کے اقوام کی ذمے داری ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرے، بصورت دیگر یہ نسل کشی ختم نہ ہو پائے گی۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کے دہشت گرد وزیر اعظم نیتن یاہو ایک انسان کش درندہ ہے۔دوسری جانب غزہ کی اس ساری صورتحال پر اقوام متحد ہ نے بھی تصدیق کی ہے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمے دار ایجنسی ’انروا‘ کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے انتہائی دل سوز الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہو چکی ہے۔
انھوں نے تصدیق کی کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔اقوام متحدہ کے نمایندے نے واضح کیا ہے کہ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عدنان ابو حسنہ کا کہنا تھا کہ اگر قابض اسرائیل چاہے تو روزانہ سات سو ٹرک غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں، مگر دانستہ طور پر انسانی امداد کو روکا جا رہا ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے کراسنگ پوائنٹس کو فی الفور کھولا جائے اور انسانی تنظیموں خصوصاً ’’ انروا‘‘ کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ کم از کم جانیں تو بچائی جا سکیں۔دوسری جانب ’’ انروا‘‘ کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ ’’ اب تو وہ لوگ بھی جنھیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہو چکے ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔