Islam Times:
2025-09-18@23:27:27 GMT

مزاحمتی محور کی عظیم فتح

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

مزاحمتی محور کی عظیم فتح

اسلام ٹائمز: یہ جنگ بندی عارضی ہے، کیونکہ ظالم ایک وقفہ لے گا اور پھر پوری طاقت سے حملہ کریگا۔ وہ اپنی کمزوریاں دور کریگا اور اپنی غلطیوں کو درست کریگا۔ مزاحمت کیلئے بھی خود کو منظم کرنے کا وقت ہے۔ لبنان، عراق، یمن اور ایران میں طاقت کو جمع کیا جائے۔ جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، انکی نشاندہی کی جائے۔ طاقتور پہلووں کو مزید طاقتور بنایا جائے۔ ہر جگہ نئے چیلنجز آرہے ہیں اور اب منافقین کو استعمال کیا جائیگا۔ اس سب پر ان شاء اللہ تفصیل سے لکھیں گے۔ یہ وقت اپنے شہیدوں کی یاد کیساتھ خوشی منانے کا ہے کہ شکر خدا مزاحمتی محور جیت چکا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اسرائیل نے جدید دور میں لائیو فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ سات اکتوبر 2023ء سے لے کر آج تک ہر روز ایک نیا المیہ لے کر آیا، جبر کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ فرعونیت کے لہجے میں کہا گیا کہ ہم ملیا میٹ کر دیں گے۔ حماس اب ماضی کا قصہ بن جائے گی اور اب ہم خود یا ہمارے کنڑولڈ نمائندے حکومت کریں گے۔ ہم طاقت کے زور پر قیدی چھڑائیں گے اور کسی کی ایک نہیں سنیں گے۔ اسرائیل کے جبر اور نسل کشی نے امریکہ اور یورپ کو پوری طرح سے بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کا جال بچھایا ہوا ہے، اہل فلسطین کی قربانیوں سے واضح ہوگیا کہ یہ سب ڈھونگ ہیں اور اصل میں دنیا پر قبضے کا جدید ہتھیار ہے۔ کچھ لوگ عقل کل بن کر سوال اٹھا رہے ہیں کہ مزاحمت نے کیا حاصل کیا۔؟ جناب مزاحمت موجود ہے اور پورے قد سے موجود ہے، یہی کیا کم ہے۔؟

وہ جو فرعون کے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ ہم کسی کی نہیں سنیں گے، وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ حماس کیا جواب دیتی ہے؟ اہل غزہ نے صبر کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ اسرائیل اور یورپ اس بات پر حیران تھے کہ اتنے مظالم سہنے کے باوجود یہ لوگ حماس کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں کر رہے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آزادی کا راستہ اس وقت قریب ہو جاتا ہے، جب قوم میں یکسوئی پیدا ہو جائے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگرچہ چار طرف اور آسمان سے پابندیوں کا شکار ریاست بھی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہو تو آپ اپنا دفاع اس طرح کرسکتے ہو کہ پوری دنیا سوا سال تک آپ کے وجود کی دشمن رہے، پھر بھی آپ پوری طاقت سے موجود رہتے ہیں۔ بس ریاست اپنی ہو اور اپنے لوگوں کے لیے ہو اور مخلص ہو کر کام کر رہی ہو۔

صلح کی شرائط آپ نے پڑھ لی ہوں گی، پورا غزہ حماس کے پاس ہوگا، جو مجاہد شہید ہوگئے، اگلے ایک سال میں اس سے زیادہ بھرتی کر لیے جائیں گے۔ عمارتیں تعمیر ہو جائیں گی، مگر ان ممالک کے خواب خواب ہی رہیں گے، جو اپنے ذاتی مفادات میں اہل فلسطین کا سودا کرچکے تھے۔ اہل فلسطین کی قربانیوں نے انہیں پسپا کر دیا ہے۔ اہل فلسطین نے یہ راہ دکھلائی ہے کہ مزاحمت اور مسلسل مزاحمت کی جائے تو قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں، مگر آخر میں فتح آپ کی ہوتی ہے۔قابض کے خلاف مزاحمت کی جیت یہی ہے کہ مزاحمت موجود رہے اور متحرک رہے۔اس مزاحمت نے مصر، اردن، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی منافقت سے بھی پردہ چاک کیا ہے، اس پر وقتاً فوقتاً تفصیل سے لکھا جائے گا۔

بی بی سی کے ثقلین امام لکھتے ہیں، فلسطینیوں کی کامیابی صرف ان کے اپنے جان و مال کی قربانیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہوئی ہے، بلکہ حزب اللہ، حوثیوں، ایران اور مزاحمت کے محور کی بدولت ہوئی ہے۔ اس یکجہتی نے ایک عالمی تحریک کو جنم دیا ہے، جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ، طلباء، ماہرین تعلیم اور عام شہری فلسطین کے کاز میں شامل ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو فلسطینیوں کی حمایت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، جیسے نوکریوں کا نقصان، قید، ہراسانی، گرفتاری، جسمانی حملے اور زبانی و بدسلوکی۔ جس طرح دنیا فلسطین کے کاز کو نہیں بھلے گی، اُسی طرح جنگی جرائم کرنے والوں کو نہیں بھولا جائے گا۔

جو ہر چیز کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، ان کو خبر ہو، جنوب لبنان کے شیعہ شیروں کی مزاحمت یاد رکھی جائے گی، یمن کے شیعوں نے حق وفا ادا کیا، عراق کے پیروان امام حسینؑ نے مسلسل محاذ گرمائے رکھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران براہ راست شریک جنگ رہا۔ مسلکی مینڈکوں خبر ہو، صرف لبنان کی شیعہ قیادت کی پہلی تین لیرز جنگ میں شہید کر دی گئی ہیں۔ پورا جنوبی لبنان جو سب کا سب شیعہ ہے، اس وقت کھنڈرات کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ جب حوثیوں پر سعودی اور اماراتی وفادار حملے کر رہے تھے، اس وقت ان کے میزائل اسرائیل پر برس رہے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان شیعہ خطوں کو ایک لمبے عرصے تک اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، جو وہ کر بھی رہے ہیں۔ دوسروں نے کیا کیا؟ جب اسرائیل کے ساتھ معاملہ درپیش تھا تو ترکی کی سرپرستی میں شام پر قابض ہو کر فلسطین کی سپلائی لائن ہی کاٹ دی۔ یہ تاریخ کا سیاہ باب سب کو یاد رہے گا۔

لطیف علیانی نے درست تجزیہ کیا کہ لبنان کے بعد غزہ میں جنگ بندی کے بعد اس خطے میں دونوں محاذوں پر جنگیں رک گئی ہیں اور اگر اس دوران شامی حکومت نہ گرتی تو اس وقت مزاحمتی محاذ مضبوط ترین حالت میں ہوتا اور اسرائیل کمزور ترین دور سے گزر رہا ہوتا، لیکن نہیں جناب ایک بار پھر سے ترکی نے جہادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کا تحفظ یقینی بنایا اور شام کی اسرائیل مخالف حکومت گرا دی اور مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے، اسرائیل کو لبنان و غزہ جنگوں میں اہداف کو حاصل کرنے میں جو ناکامی کا داغ لگا ہوا تھا، وہ شام ان کے قدموں میں رکھ کر ان کی لاج رکھ لی، تاریخ ترکی اور خوارج کی امت مسلمہ سے غداری اور پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے اس واقعہ کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

یہ جنگ بندی عارضی ہے، کیونکہ ظالم ایک وقفہ لے گا اور پھر پوری طاقت سے حملہ کرے گا۔ وہ اپنی کمزوریاں دور کرے گا اور اپنی غلطیوں کو درست کرے گا۔ مزاحمت کے لیے بھی خود کو منظم کرنے کا وقت ہے۔ لبنان، عراق، یمن اور ایران میں طاقت کو جمع کیا جائے۔ جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، ان کی نشاندہی کی جائے۔ طاقتور پہلووں کو مزید طاقتور بنایا جائے۔ ہر جگہ نئے چیلنجز آرہے ہیں اور اب منافقین کو استعمال کیا جائے گا۔ اس سب پر ان شاء اللہ تفصیل سے لکھیں گے۔ یہ وقت اپنے شہیدوں کی یاد کے ساتھ خوشی منانے کا ہے کہ شکر خدا مزاحمتی محور جیت چکا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں اور رہے تھے گا اور

پڑھیں:

مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس

مقررین نے کہا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت عین ایمان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع ہی ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیاب کر سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی جامع مسجد اللہ والی سنگڑی میرا میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں علماء کرام سمیت اہلیان علاقہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدارت امام و خطیب جامع مسجد اللہ والی علامہ وسیم میر نے کی۔ سیرت النبیؐ کانفرنس سے شیخ الحدیث علامہ فضل الوہاب، علامہ شیخ محمد الطاف، عبدالرحمن ہاشمی، قاری نورالحق قاسمی نے خطاب کیا جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاج شکیل نے پیش کی جس پر شرکاء کانفرنس نے وہاج شکیل کو خوب داد دی۔ اس موقع پر سیرت النبیؐ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت عین ایمان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع ہی ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیاب کر سکتی ہے۔ مقررین نے سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر مفصل روشن ڈال کر حاضرین کے ایمان تازہ کیے۔ مقررین نے کہا سیرت النبی ﷺ ہمارے تمام مسائل کا حل ہے اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے حضور اکرم ﷺ کی سیرت انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے اور آج کے دور میں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ سیرت النبی ﷺ ہمیں اتحاد، ایثار اور خدمتِ خلق کا درس دیتی ہے بعدازاں سیرت النبیؐ کانفرنس کے اختتام پر ملک پاکستان کے استحکام، سلامتی، خوشحالی و کامیابی اور مقبوضہ جموں و کشمیر و فلسطین کی آزادی کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

متعلقہ مضامین

  • کلاسیکی غلاموں کی تشویش
  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • اسرائیلی فوجی و چینی پروفیسر کے درمیان غیر معمولی تلخ مکالمہ
  • 22ستمبر: عظیم اسلامی مفکر، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا 46واں یوم وفات
  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • چین کا ’’پانچ سالہ منصوبہ‘‘: ایک عظیم جہاز کے پرسکون سفر کا نقشہ
  • اسرائیل، ایتھوپیا اور سوئز کینال کا نیا کھیل
  • فلم “731” لوگوں کو کیا بتاتی ہے؟
  • مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس
  • کراچی، صدر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ، دو افراد زخمی