پاکستانی جرنیلوں نے پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ کولہو کا بیل برسوں ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے اور کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ پاکستانی سیاست بھی 1958ء سے ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور کہیں نہیں پہنچ پائی۔ اس سیاست نے ملک کو سیاسی استحکام عطا کیا ہے نہ معیشت کو مضبوط بنایا ہے۔ نہ ملک کے نظریاتی تشخص کا دفاع کیا ہے اور نہ ہی انتخابات کو ساکھ عطا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1958ء سے آج تک پاکستانی سیاست پر جرنیلوں کا قبضہ ہے اور پاکستانی سیاست ’’مقبوضہ سیاست‘‘ کا منظر پیش کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی سیاست دان جرنیلوں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کیوں نہیں کرپاتے؟

اس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ البتہ اس سوال کا جواب پاکستانی سیاست دانوں کی ’’اخلاقی ساکھ‘‘ کا نہ ہونا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا اسلامی اور متفقہ آئین دیا تھا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس بلا کر عالم اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔ وہ عوام میں ’’مشہور‘‘ ہی نہیں ’’مقبول‘‘ بھی تھے مگر وہ عوام کے ’’محبوب‘‘ نہیں تھے۔ لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ دے سکتے تھے۔ ’’نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر لوگ ان کے لیے جان نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے کامیابی کے ساتھ ان کے خلاف بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مگر پاکستان میں کہیں بھی بڑا عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سندھ تک میں راوی چین لکھتا رہا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اگر انہیں پھانسی دی گئی تو سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر ان کی پھانسی پر بھی سندھ میں دوچار لوگوں نے خود سوزیاں ضرور کیں لیکن خون کی کوئی ندی نہ بہی۔ بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ نے مسلح تنظیم بنائی مگر یہ تنظیم بھی ایک طیارہ اغوا کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے برسوں بعد مرتضیٰ کو پاکستان واپس بلایا اور کچھ عرصے بعد اسے کراچی میں بے دردی سے قتل کرادیا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو ’’خاموش مزاحمت‘‘ کرتی رہیں اور بالآخر ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔

الطاف حسین سیاسی رہنما سے آگے بڑھ کر ’’پیر‘‘ بن گئے تھے۔ ان کی تصاویر کروٹن کے پتوں پر آیا کرتی تھیں اور وہ ’’پیغمبری‘‘ کا اعلان کرنے ہی والے تھے کہ ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ الطاف حسین کو اس کی اطلاع پہلے ہی ’’دے دی گئی‘‘ تھی۔ چنانچہ وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ تکبیر کے بانی محمد صلاح الدین کے مطابق جو اسٹیبلشمنٹ کے بے حد قریب تھے ملک کی ایک بڑی ایجنسی الطاف حسین کے تعاقب میں تھی اور دوسری بڑی ایجنسی کی گاڑی میں الطاف حسین کو ہوائی اڈے پہنچایا گیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین ہر پانچ منٹ کے بعد فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ انہیں ہر بار ایک ہی جواب دیا گیا کہ کراچی میں کہیں بھی لوگ فوج کی مزاحمت نہیں کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چار پانچ ہزار لوگ موجود تھے فوج وہاں پہنچی تو وہاں موجود لوگ بھی خاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔ اس صورتِ حال کی وجہ بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی اخلاقی ساکھ تھی۔ لوگ الطاف حسین کو ’’ووٹ اور نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر کوئی ان کے لیے ’’جان‘‘ نہیں دے سکتا تھا۔

میاں نواز شریف کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کی تو میاں نواز شریف کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی۔ میاں صاحب کے جلسوں میں لوگ ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے مگر جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے نکالا تو کہیں اور کیا میاں صاحب کے سیاسی مرکز لاہور تک میں دس لوگوں نے مظاہرہ نہیں کیا۔ میاں نواز شریف کی رخصتی کے پندرہ دن بعد کراچی میں مشاہد اللہ نے ریگل چوک پر پندرہ بیس لوگوں کا ایک مظاہرہ کیا۔ وہاں موجود پولیس دو منٹ یہ مظاہرین کو گاڑیوں میں بھر کر چلی گئی۔ مظاہرہ شروع ہی ہوا تھا کہ ختم ہوگیا۔ میاں نواز شریف کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ وہ ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ تو تھے مگر ’’محبوب‘‘ نہیں تھے۔ لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ اور ’’نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر ان کے لیے ’’جان‘‘ نہیں دے سکتے تھے۔

عمران خان مقبولیت میں میاں نواز شریف سے بھی آگے ہیں۔ اگر کل انتخابات ہوجائیں تو وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کی عوامی مقبولیت کو زک پہنچانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ مگر عمران خان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ مشہور اور مقبول تو بہت ہیں مگر ’’محبوب‘‘ نہیں ہیں۔ لوگ انہیں ووٹ اور نوٹ دے سکتے ہیں ان کے لیے جان نہیں دے سکتے۔ چنانچہ عمران خان اب تک اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ انہوں نے اسلام آباد پر جو یلغار کی اس میں آٹھ دس ہزار لوگ شریک تھے اگر یہ لشکر ایک لاکھ کا ہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

ان مثالوں کے برعکس مثال ترکی کے صدر طیب اردوان کی ہے۔ وہ ملک سے باہر تھے کہ ترکی کی فوج نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ طیب اردوان نے موبائل فون پر قوم کے نام پیغام میں قوم سے فوج کی مزاحمت کے لیے کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ انہوں نے فوجیوں کو ٹینکوں سے نکالا اور ان کی خوب دھنائی کی۔ لوگوں نے سروں پر منڈلانے اور فائرنگ کرتے ہیلی کاپٹروں تک کی پروا نہیں کی۔ چنانچہ فوجی بغاوت چند گھنٹوں میں ناکام ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ طیب اردوان صرف ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ نہیں ہیں وہ عوام کے ’’محبوب‘‘ بھی ہیں، لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ اور ’’نوٹ‘‘ بھی دیتے ہیں اور لوگ ان کے لیے جان بھی دینے پر آمادہ ہیں۔

پاکستان میں سیاسی رہنمائوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ان کی سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں ’’جمہوری‘‘ نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ جماعتیں جماعت سے زیادہ ایک ’’ہجوم‘‘ ہیں۔ اور ہجوم جلسے جلوس کے لیے تو کفایت کرتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی ’’مزاحمت‘‘ کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی نہیں بعد میں بھی پیپلز پارٹی سیاسی جماعت سے زیادہ بھٹو خاندان کی ’’میراث‘‘ تھی اور ہے۔ ایم کیو ایم بھی صرف الطاف حسین کے ہاتھ کی گھڑی تھی۔ نواز لیگ کل بھی شریف خاندان کی رکھیل تھی اور آج بھی شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ اسے شریف خاندان نے کبھی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان بڑے انقلابی بنتے ہیں مگر انہوں نے آج تک پی ٹی آئی کو جمہوری بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے ایک بار پی ٹی آئی میں انتخابات کرائے تھے مگر یہ انتخابات فراڈ تھے۔

مزاحمت کے حوالے سے خطوں کی تاریخ اور نفسیات بھی اہم ہوتی ہے۔ دلی، یوپی، حیدر آباد و دکن اور بنگال نے ہمیشہ انگریزوں کی مزاحمت کی، دلی اور یوپی میں اس مزاحمت کی علامت جنرل بخت خان تھا۔ بنگال میں سراج الدولہ اور دکن میں ٹیپو سلطان۔ لیکن پنجاب طاقت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ نہیں رکھتا۔ سکھوں نے چالیس سال تک لاہور کی بادشاہی مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل بنائے رکھا مگر اس کے باوجود مسلم پنجاب نے سکھوں کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ تحریک پاکستان چلی تو پنجاب انگریزوں کی پٹھو یونیسیٹ پارٹی کے ساتھ تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران کے پی کے سرحدی گاندھی غفار خان کے ساتھ کھڑا تھا۔ بلوچستان پر سرداروں کا غلبہ تھا۔ سندھ نے کبھی انگریزوں کی مزاحمت نہیں کی۔ تحریک پاکستان میں سندھ کا حصہ صرف اتنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے 1943ء میں پاکستان کے حق میں ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ پاکستان میں شامل علاقے طاقت وروں کی مزاحمت کی تاریخ ہی نہیں رکھتے۔ تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ بنگال نے انگریزوں کی مزاحمت کی۔ مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا تو جنرل ضیا الرحمن نے بابائے قوم شیخ مجیب کا تختہ الٹ دیا اور حالیہ دنوں میں بنگلا دیش کے طلبہ نے شیخ حسینہ واجد کو ایک طویل جدوجہد کے بعد ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست میاں نواز شریف کی مزاحمت کی پاکستان میں انگریزوں کی ایم کیو ایم الطاف حسین لوگ انہیں کراچی میں ان کے لیے انہوں نے نہیں کی تھے مگر کے خلاف نہیں دے ہے اور ایم کی تھا کہ لوگ ان

پڑھیں:

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟

پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحال

خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔

ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

‘‘

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیت

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔

جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔

‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔

سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔

لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

عالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • میچ ریفری تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی،محسن نقوی
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • علی امین گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ سے چھٹی؟ اسٹیبلشمنٹ کو منانے کی کوشش، ’وی ٹاک‘ میں اہم انکشافات
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور