میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کالموں میں ہمیشہ مثبت کام کرنے والے لوگوں اور اداروں کا ذکر کروں اور جس کے لئے روزنامہ ’نئی بات‘ کی پوری ٹیم کا تعاون مجھے حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں کہ اگر انہیں چھپانے کی لاکھ کوشش بھی کر لی جائے تو ضمیر اندر سے لعنت ملامت کرتا رہتا ہے اور یوں معاشرے کے ان بد نما داغ بننے والے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھانا لازم ہو جاتا ہے ۔
قارئین ! خبر ہے کہ لاہور میں ایجوکیشن اتھارٹی حکام کی جانب سے خواجہ سرائوںکے سکولز قائم کر نے کے لئے ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں سے فنڈز جمع کئے ۔ فی سکول سے 25ہزار روپے لئے گئے ۔ سکولوں کے علاوہ اساتذہ کی جیبوں سے بھی فنڈز نکلوائے گئے لیکن جس منصوبے کے لئے کروڑوں کے فنڈز جمع کئے گئے اس پر ابھی تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ان حرام خوروں کا کمال دیکھیں کہ خواجہ سرائوں کے نام پر جمع کئے جانے والے فنڈزکا کوئی ریکارڈ ہی مو جود نہیں اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ فنڈزکس اکائونٹس میں جمع ہوئے اور کہاں ہیں؟حالیہ سی۔ای۔او ایجوکیشن بھی اس ساری کارروائی سے بے خبر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فنڈز میری دور تعیناتی سے پہلے جمع کئے گئے ہیں ۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ مافیا کس قدر طاقتور ہے کہ جو خواجہ سرائوں کے لئے بنا ئے جانے والے سکولوں کے فنڈز کو ہڑپ کر گیا وہ دیگر سکولوں کے فنڈز کو اپنے باپ کا مال سمجھتے ہوئے کیسے استعمال کرتے ہونگے ۔ حالانکہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کے سپیشل پرسنز ہیں اور ان کے لئے شروع ہونے والے کسی بھی پروجیکٹ کی نگرانی محکموں کے سربراہان کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات لکھنا پڑ رہی ہے کہ بظاہر اس سارے معاملے میںپروجیکٹ میں ملوث تمام لوگوں نے معاشرے کے ان خوبصورت لوگوں کے نام پر خوب انجوائے کیا اور اس میں سے سے بڑی ذمہ داری سابقہ سی۔ای۔او ایجوکیشن اتھارٹی کی بنتی ہے۔ اس ساری کرپشن پر ابھی تک ایوان اقتدار میں خاموشی ہے ۔ مجھے یقین ہے وزیر اعلیٰ پنجاب جو شہر شہر پہنچ کر طالبعلموں کو ان حق دے رہی ہیں وہ اور وزیرتعلیم رانا سکند حیا ت جوانتہائی پروفیشنل ہیں، خواجہ سرائوں کے نام پر مال پڑپ کرنے اور انہیں زیور تعلیم سے فیض یاب نہ کر نے والے ان ظالموں کا کڑا احتساب کریں گے۔ یہ معاشرے کے وہ درندے ہیں جن کی وجہ سے انسانیت خوف میں مبتلا ہے ۔
یہ معاشرے کے دو چہرے رکھنے والے انہی لوگوں میں شامل ہیںجو دکھتے کچھ اور ہیں اور ہوتے کچھ اور ہیں۔ حالیہ دنوں میں ، میرا ایسے ہی ایک کردار سے پالا پڑا،ایک جائز اور میرٹ پر پورا اترنے والے کام کے سلسلے میں ان کے دفتر گیا، سلام دعا کے بعد دینی معاملات پر گفتگو ہونا شروع ہو گئی میں ان کی عالمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور شکر کے احساسات دل میں پیدا ہوئے کہ اس گئے گذرے دور میں بھی سرکاری اداروں میں ایسے نیک صفت لوگ موجود ہیں ۔ میں نے جیسے ہی اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھا تو فوری طور پر عالمانہ انداز میں میری دینی تربیت کر نے والے صاحب دوسرے چہرے کے ساتھ میرے سامنے آگئے اور بلا جھجک و خوف دیدہ دلیری کے ساتھ مخاطب ہوئے کہ اس کام کی فیس(رشوت) دو لاکھ روپے ہو گی۔ میں نے بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ رشوت کس چیز کی۔ میرا تو کام میرٹ پر ہے ؟ فر مانے لگے بھائی صاحب! یہ رشوت نہیں ،فیس ہے ۔ اس فیس کا’’ چکہ‘‘ اوپر سے نیچے گھومتا ہے ،فیس دیں گے تو فائل کو پہیے لگ جائیں گے نہیں تو فائل یہیں کہیں پڑی رہے گی اور بالآخر آپ بھی چکر لگا لگا کر تنگ آجائوگے۔
قارئین کرام ! میں جب سے اب تک نہی سوچوں میں گم تھا کہ کیا ہمارے بڑوں نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم ان منافقوں کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں تو پھر سے میری نظروں کے سامنے ایک خبر گذری کہ لاہور میں 2025کے پہلے قتل میں ملوث شوٹر نے ایک قیمتی جان صرف عمرے کے دو ٹکٹوں کے عوض لے لی ، یعنی صرف دین اور مذہب کو ہم نے بطور لوگوں کو متاثر کر نے کے لئے استعمال کر نا شروع کر دیا ہے ۔ جبکہ دین کی تو اصل جڑ ہی نیت ہے ۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں چند بد نما چہروں نے اسلام کی اقدار کو بھی خوب پامال کیا۔ یہ حرام خوری کے نشے میں اس قدر مست ہو چکے کہ الامان الحفیظ! قارئین کرام !ان حرام خوروں کی حرام خوری کی وجہ سے معاشرے میں مایوسی اور نا امیدی کی سائے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ بالخصوص سر کاری دفاتر میں موجود ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے عام تاثر یہی پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ اپنے جائز کام کے لئے بھی رشوت عرف عام میں ’’فیس‘‘ ادا کر نا ہوگی اور یہ فیس اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ احتساب کرنے اداروں میں بھی اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرائوں کے حقوق غضب کر نے والے ، جائز کام کی رشوت طلب کر نے والے اور عمرے کے ٹکٹ کی خاطر معصوم جان لینے والوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ ہم بھی آگے فیس دے کے بچ جائیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے ارباب اختیار فوری طور پر معاشرے کے ان بد نما چہروں کو بے نقاب کریں تاکہ عام عوام میںمقام تحفظ پیدا ہو سکے ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: خواجہ سرائوں کے کر نے والے معاشرے کے ہیں اور کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والے کشتی روک لی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) فلسطینی نواز فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی جانب سے برطانوی پرچم بردار میڈیلین نامی کشتی کو، جس کے ذریعے غزہ پٹی تک امدادی سامان لے جایا جا رہا تھا، اسرائیلی افواج نے آج بروز پیر سمندری سفر کے دوران راستے میں ہی روک لیا۔ اس کشتی پر گریٹا تھنبرگ سمیت بارہ ایکٹیوسٹس سوار تھے۔
یہ کشتی غزہ پٹی تک لے جانے کا مقصد غزہ کے فلسطینی علاقے کی سمندری ناکہ بندی کو توڑنا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بحران کے شکار فلسطینیوں تک امداد کی فراہمی کو ممکن بنانا تھا۔
اس کشتی پر یورپی پارلیمان کی ایک فلسطینی نژاد رکن ریما حسن بھی موجود تھیں۔فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ میڈیلین نامی جہاز پر ''اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی پانیوں میں حملہ کیا اور اسے زبردستی روکا۔
(جاری ہے)
‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا، ''کشتی میں غیر قانونی طور پر سوار ہو کر اس پر موجود نہتے سویلین افراد اور عملے کو اغوا کیا گیا اور زندگی بچانے کے لیے ضروری سامان کو، جس میں بےبی فارمولا ملک، اشیائے خور و نوش اور طبی سامان بھی شامل تھا، قبضے میں لے لیا گیا۔
‘‘فریڈم فلوٹیلا کی منتظم ہویدہ عراف نے کہا کہ اسرائیل کے پاس میڈیلین نامی شپ پر سوار رضاکاروں کو ''حراست میں لینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں‘‘ اور کشتی کو قبضے میں لینا بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ عالمی عدالت انصاف کے غزہ پٹی تک بغیر کسی رکاوٹ کے امداد کی فراہمی کے احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ کشتی پر سوار رضاکاروں کو غزہ تک ''امداد پہنچانے اور ایک غیر قانونی ناکہ بندی کو چیلنج کرنے کے لیے مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
‘‘ہویدہ عراف نے میڈیلین پر سوار ایکٹیوسٹس کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر فریڈم فلوٹیلا نے پوسٹ کیا تھا کہ میڈیلین ''بین الاقوامی پانیوں میں ایک حملے کی زد میں ہے‘‘ اور اس پر اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کے سوار ہونے سے پہلے سفید 'اریٹنٹ‘ اسپرے کیا گیا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے بھی میڈیلین کو غزہ پٹی تک کے سفر کے دوران راستے میں ہی روکے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس کشتی کو بحفاظت اسرائیلی ساحل کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وزارت خارجہ کی ایک پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ اس پر سوار مسافر ممکنہ طور پر اپنے ممالک لوٹ جائیں گے۔ اس بیان میں الزام لگایا گیا کہ کشتی پر سوار کارکنوں نے میڈیا کے ذریعے اشتعال پھیلانے کی کوشش کی، جس کا واحد مقصد ''ان کی تشہیر تھا۔‘‘
ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کشتی پر موجود امدادی سامان ایک ٹرک لوڈ سے بھی کم تھا، جبکہ پچھلے دو ہفتوں میں امدادی سامان کے 1,200 ٹرک اسرائیل کے راستے غزہ پہنچ چکے ہیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ کشتی پر لدی ہوئی ''قلیل امداد‘‘ کو ''حقیقی امدادی راستوں کے ذریعے غزہ پہنچایا جائے گا۔‘‘
اسرائیل کی طرف سے عائد تین ماہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد، جس کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا، تل ابیب حکومت نے گزشتہ ماہ غزہ میں کچھ بنیادی امداد کی فراہمی کی اجازت دینا شروع کی تھی تاہم انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی کام کرنے والے کارکنوں نے کہا ہے کہ اگر ناکہ بندی اور جنگ کا خاتمہ نہیں ہوتا، تو مزید فلسطینی قحط کا شکار ہوں گے۔
گزشتہ ماہ فریڈم فلوٹیلا کی سمندری راستے سے غزہ پہنچنے کی کوشش اس وقت ناکام ہو گئی تھی، جب اس جہاز پر مالٹا سے دور بین الاقوامی پانیوں میں دو ڈرونز سے حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں جہاز کے اگلے حصے کو نقصان پہنچا تھا۔ اس گروپ نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔
م ا / ا ا ، م م (روئٹرز، اے ایف پی)