سچی بات یہ ہے کہ جب تک رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی صاحب موجود ہیں اور سیاسی صورت حال کا حصہ ہیں اس وقت تک پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی ، جتنی مرضی کمیٹیاں بنالیں ،جتنے مرضی وفد تیار کر لیں ،ایسا ممکن ہی نہیں ۔
یہی معاملہ پی ٹی آئی کا ہے کہ جب تک بانی تحریک انصاف خو د کو عقل کل سمجھنے کے غرے سے نہیں نکلتے ،کسی اور پر اعتبار کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتے ،اس حوالے سے سب پانی میں مدھانی مارنے کے مترادف ہے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ سمجھتی ہے اس کے پاس عرفان صدیقی سے بڑا دماغ نہیں ہے اور رانا ثنااللہ سے زیادہ بصیرت کا حامل کوئی سیاستدان نہیں ہے ۔اس وقت تک ملک میں سیاسی تنائو ایسا ہی رہے گا جیسا موجود ہے اور پی ٹی آئی والے جب تک کپتان کوکسی پروہت کے درجے سے نیچے کا انسان نہیں گردانتے، ملک اسی طرح سیاسی انتشار کی دلدل میں پھنسا رہے گا۔
کانوں کا کچا کپتان کچھ عرصے کے لئے شیر افضل مروت اور بیرسٹر گوہر کو کشادہ دست بنا نہیں دیتا توامکان کے سب در بند رہیں گے، اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ شہباز حکومت نے اب کسی نہ کسی طور معیشت کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال ہی لی ہے۔ان دنوں آٹا دال اور گھی نہ سہی سبزیوں اور پھلوں کو تو بگھیاڑوں کے پنجوں سے نجات کی راہ نکال ہی لی ہے ،ٹماٹر جو تین سو روپے کل تک پہنچ گئے تھے جنوبی پنجاب میں ایک سو روپے کلو سے بھی نیچے آگئے ہیں ،اسی طرح دوسری سبزیوں کا حال ہے ،گویاکہ مہنگائی کے جن کو کسی حد تک بوتل میں بند کرلیا ہے ۔
پنجاب کی مہارانی مریم نواز پنجاب کے عوام کو رام کرنے میں زینہ زینہ کامیابی کی اور روانہ ہیں ۔اچھا ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی جیسے مشیر نہیں رکھتیں بھلے ان کے منصوبوں کی غلط تشریح کرنے کے لئے عظمی بخاری ہی کافی ہیں جو مبالغہ آرائی میں مہارت رکھتی ہیں اور اچھی بھلی خبط عظمت کا شکار بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ وزیراعلیٰ اگر انہیں کے مشورں کے حصار میں ہوتیں تو بہت سارے کرنے کے کام رہ جاتے جو مریم بی بی بہت عمدہ طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔
ایک بات جو سمجھ میں نہیں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا پی ایم ایل این دونوں جانب کے سفارتکار سیاسی تدبرسے زیادہ سیاسی زعم میں ہی مبتلا ہیں اور لفظوں کے بیوپاری کا کاروبار تو افغان امریکہ جنگ میں چل نکلا تھا انہیں زیبا نہ تھا کہ فارم سینتالیس والوں کی حکومتوں کو الفاظ کے تاج محلوں کی زینت بنانے کی ہررت میں طلسماتی کردار اداکر کے فسطائیت کے راستے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ،مگر میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ ان کی بھی بہت مجبوریاں ہیں انہیں مجبوریوں کے بیچ دبئی اور سعودی عرب کے ایک مجرم نے اپنا راستہ کیا بنایا کہ قومی اسمبلی کا رکن بن بیٹھااور جن کامعاشی قتل کیا وہ آج تک اسے بددعائیں دے رہے ہیں۔
یقینا ان بد دعائوں کا اثر اس پر بھی تو پڑتا ہوگا جو سونے کا چمچ لے کر تو پیدا نہیں ہوا تھا مگر سیم زر اگلتے عہدوں پر تو رہ چکا اور ابھی تک انہیں مناصب کے سحر میں ہے جو اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتا اور رانا ثناء اللہ کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکتی ،کیونکر تشکیل کے عمل سے آشنا ہوجائے ؟ ایسا ہوگا تو ان کی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی سیاست کی کتاب بند ہوجائے گی۔ان کی معیشت تنگ ہوجائے گی۔معاشرت تہہ و بالا ہوجائے گی۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات کمیٹی کا ڈرامہ چلتے رہنا چاہیئے ،یہ رک گیا تو عالمی سطح پر کپتان کی شہرت کا جادو پھر سے جاگنے لگ جائے گا۔
اور وہ جنہیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ ٹرپ کوئی طوفان لے آئے گا ان کی ذہنی اذیت بڑھ جائے گی ،حالانکہ ٹرمپ بھی جانتا ہے کہ کپتان نے اسے ہی للکار کر کہا تھا’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ یہ الگ بات ہے کہ اب اس نعرے کو حرز جاں بنانے والے سب ایرے غیرے مراجعت پر تلے ہوئے ہیں اور وہ جن کی مظاہروں کے وقت ہوا نکل جاتی ہے وہ بھی اس خوش فہمی میں برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کی تبدیلی کا خواب اب ٹرمپ ہی پورا کرے گا۔ان سے کوئی پوچھے پھر تمہارے بڑے جس مذاکرات کمیٹی کا ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں اس کا کیا بنے گا ،جبکہ بیرسٹر گوہر تو اب بھی مصر ہیں کہ’’ اسٹیبلشمنٹ ڈائریکٹ ان سے بات کرے‘‘ اور اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے یو ٹرن لیتے دیر ہیں لگتی ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
نہ فارم 47 پر مذاکرات ہوں گے نہ اسٹیبلشمنٹ سے: عمران خان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی ائی) اور سابق وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ نہ فارم 47 کی حکومت سے مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی بات چیت کی جائے گی، البتہ اگر کوئی رابطہ ہوا تو وہ اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ذریعے ہوگا۔
اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی ائی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان نے بتایا کہ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو تمام تازہ ترین سیاسی صورتِ حال سے آگاہ کردیا ہے۔
ڈاکٹر عظمیٰ نے بتایا کہ عمران خان نے کہا کہ فارم 47 کی بنیاد پر بننے والی حکومت سے مذاکرات بے معنی ہیں، کیونکہ جب خود وزیراعظم اہم فیصلوں کے لیے اجازت کے منتظر ہوں تو ایسے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جب بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کی گئی، پارٹی پر دباؤ اور مظالم میں اضافہ ہوا ،موجودہ دور میں جتنا ظلم ہوا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، تمام امور پر گفتگو صرف محمود خان اچکزئی کے ذریعے ہی ممکن ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی کینسر کی مریضہ کو جیل میں رکھا گیا ہے، جبکہ بشریٰ بی بی کو قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، جو کارکن یا رہنما پارٹی کے ساتھ ڈٹا رہا، اس پر انتقامی کارروائی کی گئی، لہٰذا اب نہ فارم 47 حکومت سے بات ہوگی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رابطہ کیا جائے گا۔
ڈاکٹر عظمیٰ خان نے مزید بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی قیدی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ “آزادی یا موت” کے عزم پر قائم ہیں اور غلامی کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور سلمان اکرم راجا پارٹی کے قانونی اور سیاسی پیغامات کے واحد مجاز ترجمان ہوں گے۔