چین اور ویتنام دوستانہ پڑوسی اور اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرہ ہے، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
چین کے صدر شی جن پھنگ نے چین-ویتنام سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ویتنام کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ٹو لن اور صدر لونگ کونگ کے ساتھ مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ کیا۔ہفتہ کے روز
شی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور ویتنام سوشلسٹ دوستانہ پڑوسی اور اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرہ ہے۔ 2023 میں دورہ ویتنام کے دوران دونوں فریقوں نے چین-ویتنام اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرے کی مشترکہ تعمیر کا اعلان کیا، جس سے دونوں جماعتوں اور دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئے۔
شی جن پھنگ نے زور دیا کہ وہ چین-ویتنام تعلقات کی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ وہ چین-ویتنام سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ اور “چین-ویتنام عوامی تبادلے کا سال” سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسٹریٹجک باہمی اعتماد اور عملی تعاون کو مضبوط بنانے، سوشلسٹ جدیدیت کی تعمیر کے نئے سفر پر ایک دوسرے کی مدد کرنے، چین-ویتنام اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو بڑھانے اور دونوں ممالک کے عوام کو مزید فوائد پہنچانے کے خواہاں ہیں۔
ٹولن نے کہا کہ گزشتہ 75 سال سے ویتنام کی پارٹی، حکومت اور عوام ہمیشہ سے چین کے ساتھ تعلقات کو ویتنام کی مستقل خارجہ پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسے اولین ترجیح دیتے ہیں۔ یقین ہے کہ دونوں جماعتوں اور ممالک کے رہنماؤں کی قیادت میں دونوں فریقوں کے مختلف شعبے قریبی تعاون کے ذریعے چین-ویتنام اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو ایک نئی بلندی تک پہنچائیں گے۔
لونگ کونگ نے کہا کہ چین-ویتنام سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے 75 سالوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ چین-ویتنام کی روایتی دوستی اور تعلقات کی ترقی دونوں ممالک کے عوام کی بنیادی خواہش اور طویل مدتی فوائد کے مطابق ہے، جو خطے اور دنیا کے امن و استحکام، تعاون اور ترقی کے لئے بھی خدمات سر انجام دے گی۔ ویتنام چین کے ساتھ مل کر جامع اسٹریٹجک تعاون کو بڑھاتے ہوئے چین-ویتنام اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کے لئے تیار ہے۔
اسی دن چینی وزیر اعظم لی چھیانگ نے ویتنام کے وزیر اعظم فام من چن کے ساتھ مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ کیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی واحد بیرونِ ملک موجودگی سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ تاجکستان نے بھارتی فوج جو دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع آینی ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے۔ نئی دہلی نے تاجکستان میں اپنی اس موجودگی کو “اسٹریٹجک کامیابی” قرار دیا تھا۔ اب اس اڈے کا مکمل کنٹرول روسی افواج نے سنبھال لیا ہے جبکہ بھارت کے تمام اہلکار اور سازوسامان 2022 میں واپس بلا لیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق بھارت اور تاجکستان کے درمیان 2002 میں ہونے والا معاہدہ چار سال قبل ختم ہوا، اور تاجکستان نے واضح طور پر بھارت کو اطلاع دی کہ فضائی اڈے کی لیز ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ تاجک حکومت کو روس اور چین کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ “غیر علاقائی طاقت” یعنی بھارت کو مزید اپنے فوجی اڈے پر برداشت نہ کرے۔
آینی ایئربیس بھارت کے لیے نہ صرف وسطی ایشیا میں قدم جمانے کا ذریعہ تھی بلکہ پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی کا ایک حصہ بھی تھی۔
یہ فضائی اڈہ افغانستان کے واخان کاریڈور کے قریب واقع ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے سے متصل ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ماضی میں یہاں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تعینات کیے تھے تاکہ بوقتِ جنگ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
مگر اب روس اور چین کی شراکت سے بھارت کی یہ تمام منصوبہ بندی خاک میں مل چکی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق تاجکستان کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہے، کیونکہ اس اڈے کے ذریعے بھارت وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی ظاہر کر رہا تھا۔ تاہم، اب روس اور چین اس خلا کو پر کر چکے ہیں اور بھارت مکمل طور پر خطے سے باہر ہو گیا ہے۔
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے بھی نریندر مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آینی ایئربیس کا بند ہونا بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ہماری اسٹریٹجک سفارت کاری کے لیے ایک اور زبردست جھٹکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت محض دکھاوے کی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاجکستان کے اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اس خطے میں اب روس اور چین کا مکمل تسلط ہے، اور بھارت کے پاس نہ کوئی اسٹریٹجک بنیاد بچی ہے اور نہ کوئی مؤثر اثرورسوخ بچا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ بھارتی عزائم کے لیے ایک سبق ہے کہ غیر ملکی زمین پر فوجی اڈے بنانے کی کوششیں صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب بڑی طاقتیں آپ کے پیچھے کھڑی ہوں، اور اس وقت بھارت کو نہ واشنگٹن کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور نہ ماسکو یا بیجنگ کا۔
یوں تاجکستان سے بھارتی فوج کا انخلا دراصل نئی دہلی کی “عظیم طاقت بننے” کی خواہش پر کاری ضرب ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک واضح سفارتی فتح ہے، کیونکہ خطے میں بھارت کے تمام تر اسٹریٹجک منصوبے ایک ایک کر کے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔