Nai Baat:
2025-11-05@01:52:03 GMT

اسلامی کلچر

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اسلامی کلچر

کلچر کا تعلق براہِ راست انسانی فکر سے ہے۔ انسان نے اپنے رہن سہن کے لیے جو رنگ ڈھنگ اپنائے، وہ طرزِ زندگی بن کر اس کے معاشرے کا حصہ بن گئے۔ اس میںشک نہیں کہ ہر خطے کا کلچر اپنا اپنا ہے۔ یہ بھی درست کہ اپنے کلچر کی حفاظت انسان اپنی جان کی طرح کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کا معاشرہ دیگر معاشروں سے زیادہ تازہ، با رونق، امیر اور شاندار دکھائی دے۔ اس کی رسومات دیگر خطوںسے منفرد نظر آئیں۔ اس انفرادیت کے حصول کی خاطر وہ اپنی رسومات کو رواج بنانے کی کوشش میں محو رہتا ہے۔ اس یہی کوششیں اس کے کلچر کو پختہ کرتی چلی جاتی ہیں۔ انسان کو سب سے زیادہ متاثر اس کا عقیدہ کرتا ہے۔ اپنے عقیدے پہ سمجھوتا کرنا ہر دور کے انسان کے لیے مشکل رہا ہے۔ وہ رسومات، رواج اور تمدن میں تو اتنی لچک ضرور رکھتا ہے کہ دوسروں کی اچھی رسومات کو اپنے معاشرے میں اپنے انداز میں ڈھال کر اپنی ثقافتی ترتیب کو کچھ اور بہتر بنا لیتا ہے لیکن مذہب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان اپنا مذہب آسانی اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا خواہ اس کے مذہب میں ایسے عقائد بھی کیوں نہ شامل ہوں جن کا دفاع وہ اپنے مخالفین کے سامنے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انسان خطے کی رسومات کو اپنے کلچر میں شامل کرتا ہے، لیکن اصل کلچر وہی ہوتا ہے جس کو وہ اپنے مذہب سے حاصل کرتا ہے۔ مذہب سے انسانی تعلق جذبات میں ڈھلاہوتا ہے اور وہ اپنے مذہبی افکار کو دوسروں پہ مسلط کر کے اپنی تہذیبی حیثیت کو پختہ کرنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ’’اور آپؐ سے یہود اور نصاریٰ اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک آپؐ ان کی ملت کی اتباع نہ کر لیں۔‘‘ (البقرہ،۲:۱۲۰)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے کہ اسلام نے صرف قوانین ہی نہیں سمجھائے تھے بلکہ ان قوانین کی تشریح جس اعلیٰ طریقے سے کی ہے اس نے زمانے کو ایک نئی راہ دی۔ اسلامی تہذیب نے ایک نئی تہذیبی جہت کو جنم دیا۔ اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے انسانی عزت پہ زور دیا۔ اس کے تمام قوانین انسانی
عظمت ہی کے گرد گھومتے اور اسی کے ضامن ہیں۔ عقائدِ اسلام اپنے لحاظ سے منفرد ہیں، اس لیے کہ ایک ایسے رب کی عبادت پہ زور دیا جا رہا تھا، جو ظاہر میں نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کے ہونے کا احساس ہر دل تک اتارنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ آسان کام نہیں تھا اس لیے کہ انسان کسی بھی ایسی چیز کو کیسے مان سکتا تھا جسے اس کی نگاہ نے دیکھا نہ ہو، مگر اس میں ایک انفرادی پہلو بھی تھا۔ انسان کو یہ احساس دلایا گیا کہ اس کی عظمت اسی حقیقت میں پنہاں ہے کہ وہ ایک اللہ کے سامنے سر کو جھکائے۔ اس کے سامنے جھکنے کے بعد کہیں اور سر جھکانے یا دامن پھیلانے کی اسے ضرورت نہیں۔ اس روایت سے انسان کی حیثیت مسلم ہوئی۔ وحدانیت کا سبق پڑھنے کے بعد انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ اسلامی کلچر نے یقین کو پختہ کیا، انسان ان روایات کا امین بنا جن میں ابہام نہیں ہے۔ مضبوط تعلیمات نے جو کلچر عطا کیا وہ صرف اور صرف تفریح ِ طبع ہی کا سبب نہیں تھا بلکہ انسانی افکار کی سر بلندی کی وجہ بھی بنا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی تہذیب سے پہلے تہذیب موجود نہیں تھی۔ تہذیب کی ایسی صورت نہیں تھی جو اسلام نے مہیا کی ہے۔ اسلامی تہذیب نے جستجو کا جو پہلو انسانی فکر کو بخشا اس نے انسان کی کھوجی فطرت میں مزید اضطراب پیدا کیا۔ قرآن حکیم جیسی عظیم و مفصل کتاب کا اہلِ اسلام کے لیے وقف ہونا اور اس کی تعلیمات کا ان کے لیے دستور بننا، درحقیقت یہ اسلامی تہذیب کی بڑی برتری ہے۔ پہلی بار کسی مذہب نے علم و ادب اور انسانیت کی بات بغیر کسی تفریق کے کی تھی۔ تہذیب کے رنگ خطے کے اعتبار سے نہیں فکر کے لحاظ سے پھیلے۔ اسلام خطوں کا نہیں افکار کا مذہب ہے، محبت و یگانگت کا مذہب ہے، تحمل و رواداری کا مذہب ہے، برداشت اور بردباری کا مذہب ہے۔ یہ اسلامی تہذیب ہی تھی کہ مکہ میں محمدﷺ فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن ان کے لہجے میں کوئی للکار نہیں تھی بلکہ عاجزی سے داخل ہونے کے بعد عام معافی کا اعلان کر کے انسانی سوچ کو عملی تہذیب سے دعوتِ ملاقات دی۔ بتوں کو گرایا اور تمام غیر انسانی رسومات کو ختم کر کے انسان کو اس سے متعارف ہونے کا موقع دیا۔ اگر تہذیب انسانی فکر سے تعلق رکھتی ہے تو پھر تہذیب کے جو اصول اسلامی تہذیب نے مہیا کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آپﷺ نے مساوات، جمہوریت، رواداری، تحمل، برداشت اور بردباری کے جو اصول وضع کیے ہیں آج کی جدید دنیا اسی فکر سے سلیقہ حاصل کر کے زمانے پہ حاکمیت کے لیے کوشاں ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کو تشبیہی عبادات سے نکال کر، تنزیہی عبادات کی طرف راغب کیا۔ انسان تصورات کے لیے نہیں بنایا گیا۔ اسے اس دنیا میں نیابتِ الٰہی کا جو تاج عطا کیا گیا ہے اسلامی تہذیب اسے اسی بلندی کا احساس قدم قدم پہ دلاتی ہے۔ وہ پتھروںکی پرستش یا سورج کے سامنے سر جھکانے کے لیے نہیں تھا، اس کا مقصدِ تخلیق کچھ اور تھا وہ اس خالق کے کمالات کے اظہار کے لیے اس زمین پہ اتارا گیا تھا۔ اسے حقِ نیابت ادا کرنے کے لیے انبیا کی صورت میں معلم اور معلمین کے ذریعے ایسا آئین بھیجا جو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور سماجی ہر لحاظ سے انسانی فطرت کی تسکین کے عین مطابق تھا۔ اسلامی کلچر نے انسان کے تفریحی ذہن کے لیے ایسے تہوار بھی مہیا کیے جن میں ادب و احترام بھی ہے اور ایک امت ہونے کا احساس بھی ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کے اندر ایک جذبہ ابھارا جسے ایثار کہا جاتا ہے۔ ایثار نے انسان کی فطرت کو اس قدر بدلا کہ وہی لوگ جو ایک دوسرے کو قتل کرنے کے در پے تھے، وہی لوگ ایسے مذہبی رنگ میں رنگے گئے کہ ان کے رویوں سے جو محبت کی کونپلیں پھوٹیں، انہوں نے زمانے کو مہکا دیا۔ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ایک دوسرے کے محافظ بن گئے۔

تہذیب کے پکے رنگوں نے اپنا کمال دکھایا اور صحرا نشین عرب نے تخت نشین ہو کر آئین و جمہوریت کی نئی روایات مہیا کیں۔ رنگ و نسل، زبان و لہجے سے بالاتر ہو کر ایک قرآن، ایک قبلہ، ایک اللہ اور ایک رسولﷺ پہ ایمان لا کر انسان نے ایک ایسی تہذیب کی پیروی کی جس نے ایک نہ مٹنے والے دستور کو جنم دیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔ ’’تاریخی شعور عوام و خواص کی تفریق مٹا کر نا انصافیوں کو دور اور سب کے لیے یکساں مواقع و مساوات کو مرکز ِفکر بنانے میں ہماری دست گیری کر سکتا ہے۔ یہی روح اسلام ہے اور اسی کے نتیجے میں ایک متوازن و متجانس قوم وجود میں آ سکتی ہے ورنہ ہم اسی طرح مستقبل اور اپنے ’’وفاقی وجود‘‘ کی طرف سے بے یقینی کے بحران میں مبتلا رہیںگے‘‘۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسلامی تہذیب نے کا مذہب ہے رسومات کو کہ انسان کے سامنے انسان کو تہذیب کی انسان کی کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا

بالی ووڈ کے کنگ خان شاہ رخ اپنے بچوں کو فلم انڈسٹری سے متعلق کوئی مشورہ نہیں دیتے اور اس کی وجہ بتاکر اپنے مداحوں کو حیران کردیا۔

فلم ڈر اور بازیگر سے اپنا نام بنانے والے اور پھر دل والے دلہنیا لے جائیں گے سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے شاہ رخ خان ساٹھ سال کے ہوگئے۔

اپنی سالگرہ پر ایک خصوصی تقریب میں بات کرتے ہوئے شاہ رخ خان نے اپنے بچوں سہانا خان اور آریان خان کے بارے میں کھل کر بات کی۔

جب اداکار سے پوچھا گیا کہ آپ کے بچے بھی اب فلم انڈسٹری کا حصہ بن رہے ہیں تو کیا آپ ان کو مشورے بھی دیتے ہیں۔

کنگ خان نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا کہ نہیں ، میں اپنے بچوں کو فلمی کیریئر کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دیتا بس سراہتا ہوں۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے شاہ رخ خان نے کہا کہ تخلیقی لوگوں کو زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود اپنا راستہ بناتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں ان کا باپ ہوں اور 35 سال کے کیریئر کے بعد میں ان کو کچھ سیکھاؤں تو ان کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ پاپا کی بات ماننی پڑے گی۔

اداکار شاہ رخ خان نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ یہ بوجھ محسوس کریں اور جبراً میری بات مانیں۔ خود سیکھیں۔

کنگ خان نے مزید کہا کہ بیٹی سہانا اداکاری کر رہی ہے اور بیٹا آریان لکھاری اور ہدایت کاری کرتا ہے۔ وہ خود کام کرتے ہیں اور جب کبھی رائے مانگیں تو دیدیتا ہوں۔

شاہ رخ خان نے انکشاف کیا کہ میں کبھی تعریف کرتا ہوں تو کبھی تنقید کردیتا ہوں لیکن آخری بات یہی کہتا ہوں وہی کرو جو تمھیں ٹھیک لگے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ کلچر فیسٹیول پانچویں روز میں داخل، شرکا کی دلچسپی برقرار
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • ورلڈ کلچر فیسٹیول کا چوتھا دن، مختلف ثقافتوں کی رنگا رنگ سرگرمیاں جاری
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی