اماراتی بزنس ٹائیکون سے بڑھتی قربتیں؛ کیا ثانیہ مرزا نے نیا ساتھی چن لیا؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک کی سابق اہلیہ بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہیں۔
بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا اور متحدہ عرب امارات کے بزنس ٹائیکون عدیل ساجن کے درمیان ممکنہ تعلقات کے حوالے سے افواہیں گردش کررہی ہیں۔
عدیل ساجن ایک مشہور ارب پتی بزنس مین ہیں، جو دبئی میں ثانیہ کے ولا کو ڈیزائن کر رہے ہیں۔ یہ افواہیں زوروں پر ہیں کہ ان دونوں کے درمیان پیشہ ورانہ تعلقات کے علاوہ بھی کچھ اور ہوسکتا ہے۔
ہندوستانی بزنس ٹائیکون رضوان ساجن کے بیٹے عدیل ساجن متحدہ عرب امارات میں ایک نجی گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور انھیں اپنے پرتعیش طرز زندگی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
عدیل ساجن کی مجموعی دولت کی مالیت 1.
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ثانیہ مرزا اس وقت اپنے بیٹے اذہان مرزا ملک کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں۔ ثانیہ مرزا اور عدیل ساجن نے ان افواہوں کے جواب میں فی الحال خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل شعیب ملک سے علیحدگی کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ ثانیہ مرزا کے بھارتی کرکٹر محمد شامی کے ساتھ تعلقات ہیں، تاہم بعد میں ان افواہوں کی تردید کردی گئی تھی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ثانیہ مرزا عدیل ساجن
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔