Express News:
2025-08-05@01:01:18 GMT

اسی طرح

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا جاتا تھا اور یہ بات درست بھی تھی‘ من موہن عام بھارتی شہری سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر خزانہ بن گئے تھے لیکن یہ کبھی وزیراعظم بھی بنیں گے یہ انھوں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا‘ کیوں؟ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ ان کا سکھ ہونا تھا‘1984 میں اندرا گاندھی کو ان کے سکھ سیکیورٹی گارڈز نے قتل کر دیا تھا جس کے بعد دہلی میں سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا‘ اس سے قبل اندرا گاندھی نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پر فوج چڑھا دی تھی لہٰذا نہرو خاندان سکھوں کو ناپسند کرتا تھا اور سکھ نہرو فیملی اور کانگریس سے نفرت کرتے تھے لہٰذا ان حالات میں کانگریس کی طرف سے کسی سکھ کو وزیراعظم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ دوسرا وزارت عظمیٰ طویل عرصے سے نہرو فیملی میں رہی تھی۔

 راجیو گاندھی کے بعد ان کا صاحب زادہ راہول گاندھی تیار تھا چناں چہ کسی دوسرے کو وزیراعظم کیوں بنایا جاتا لیکن کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے 2004 میں الیکشن جیتنے کے بعد اچانک من موہن سنگھ کو کولیشن گورنمنٹ کا وزیراعظم نامزد کر دیا جس نے من موہن سنگھ کے ساتھ ساتھ پورے بھارت کو حیران کر دیا یوں سردار جی حادثاتی طور پر وزیراعظم بن گئے‘ آج جب 2004 کی بھارتی سیاست کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو مورخ یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے راہول گاندھی کی عمر اس وقت محض 34سال تھی‘ سونیا گاندھی کا خیال تھا راہول گاندھی کم عمر اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے کولیشن گورنمنٹ نہیں چلا سکے گا‘ دوسرا ان کا خیال تھا وہ اور ان کا بیٹا پارٹی سنبھالیں گے۔

 اگلے الیکشن میں اکثریت حاصل کریں گے اور یوں نہرو فیملی کا اقتدار نہرو فیملی کو واپس مل جائے گا لیکن سونیا گاندھی کا یہ منصوبہ کام یاب نہ ہو سکا اور راہول گاندھی وزیراعظم نہ بن سکا‘ بہرحال ہم اب اصل ایشو کی طرف آتے ہیں۔ من موہن سنگھ نے 22مئی 2004 کو اقتدار سنبھالتے ہی اپنے سیکریٹری کو دس لوگوں کی لسٹ دی اور حکم جاری کیا یہ لوگ جس وقت چاہیں مجھ سے مل سکتے ہیں اور فون پر بھی بات کر سکتے ہیں‘ سیکریٹری فہرست دیکھ کر حیران رہ گیا کیوں کہ اس میں بھارت کے دس ٹاپ بزنس مینوں کے نام تھے۔

 اس زمانے میں پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا‘ انھیں پیسے کا پوت کہا جاتا تھا اور سیاست دان بالخصوص وزراء ان سے ملاقات سے کتراتے تھے‘ سیکریٹری نے ادب سے سمجھانے کی کوشش کی ’’سر اس سے آپ پر بہت الزامات لگیں گے‘‘ من موہن سنگھ یہ سن کر ہنسے اور پھر بولے ’’بھارت کو بھارت یہ بزنس مین بنا رہے ہیں‘ یہ ہمارے محسن ہیں‘ یہ اگر کام نہیں کریں گے تو آپ کو تنخواہ ملے گی اور نہ مجھے اور نہ عام آدمی پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے گا چناں چہ بھارت کے وزیراعظم کے دروازے اپنے محسنوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں ‘‘۔

اس حکم کے بعدوزیراعظم اگلے دس سال دس بڑے بزنس مینوں کے لیے ہمیشہ دستیاب رہے لہٰذا ہمیں یہ ماننا ہو گا آج اگر بھارت دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے یا اس میں 334بلینئریز ہیں تو یہ من موہن سنگھ کے اس چھوٹے سے فیصلے کا نتیجہ ہے‘ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا تھا‘ من موہن سنگھ نے 1992 میں پہلی بار وزیر خزانہ کی حیثیت سے شائننگ انڈیا کا پراجیکٹ شروع کیا تھا‘ اس نے اپنی معیشت کو لبرل بنایا تھا‘ صنعتوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا تھا اور اس کا پھل آج نریندر مودی اور بھارت کے لوگ کھا رہے ہیں۔

من موہن سنگھ حقیقتاً ایک وژنری انسان تھے‘ چکوال کے قریب گاہ گاؤں میں پیدا ہوئے‘ 1947 میں بلوایوں نے ان کے دادا کو قتل کر دیا‘ یہ اس وقت 15سال کے لڑکے تھے‘ یہ واقعہ ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور پوری زندگی نکل نہیں سکا‘ ان کا خاندان بھارت نقل مکانی پر مجبور ہوا‘ شروع کی زندگی بہت کٹھن تھی مگر خاندان محنت کرتا رہا‘ من موہن سنگھ نے پوری زندگی اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کی‘ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی‘ بین الاقوامی اداروں میں کام کیا‘ 1970 کی دہائی میں بھارت واپس آئے اور کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت میں کام شروع کر دیا‘ چیف اکنامک ایڈوائزر بنے‘ انڈین ریزرو بینک کے گورنر رہے اور پلاننگ کمیشن کے چیئرمین بنے‘ زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن 1991 میں ان کی زندگی میں میجر شفٹ آئی۔

 نرسیما راؤ وزیراعظم بن گئے‘ بھارت اس وقت شدید معاشی مسائل کا شکار تھا اور وزیراعظم کو ایک ایسا وزیر خزانہ چاہیے تھا جو ’’آؤٹ آف باکس‘‘ سوچ سکے اور اس وقت پورے سسٹم میں من موہن سنگھ سے بہتر کوئی شخص دستیاب نہیں تھا لہٰذا نرسیما راؤ نے انھیں وزیر خزانہ بنا دیا‘ من موہن سنگھ نے یہ پیش کش صرف ایک شرط پر قبول کی اور وہ یہ تھی کہ وزیراعظم انھیں ان کی مرضی سے کام کرنے دیں گے‘ یہ شرط مان لی گئی‘ اس زمانے میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے‘ میاں صاحب نے دو کام شروع کیے تھے۔

 موٹر وے بنانے کا اعلان کیا تھا اور معیشت کی لبرلائزیشن شروع کی تھی‘ من موہن سنگھ کو یہ اپروچ اچھی لگی‘ اس وقت جے این ڈکشت پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر تھے‘ من موہن سنگھ نے انھیں دہلی بلایا اور پاکستان میں ہونے والی معاشی اصلاحات پر بریفنگ لی‘ اس زمانے میں پاکستان اور بھارت دونوں کے فارن ریزروز دو ارب ڈالر تھے یعنی بھارت کے خزانے میں بھی دو ارب ڈالر تھے اور پاکستان کے پاس بھی دو ارب ڈالر تھے‘ من موہن سنگھ ایک دن دونوں ملکوں کی بیلنس شیٹ لے کر وزیراعظم کے پاس چلے گئے اور ان کو بتایا ہم سے چھ گنا چھوٹا ملک معیشت میں ہمارا مقابلہ کر رہا ہے اور یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

 وزیراعظم نے ان سے اس کا حل پوچھا‘ من موہن سنگھ کا جواب تھا ’’ہمیں بھارت کا ایک ایسا معاشی آئین بنانا ہوگا جسے کوئی چھیڑ نہ سکے‘‘ ان کا کہنا تھا ہمیں اپوزیشن‘ فوج‘ بیوروکریسی اور چیف جسٹس کو اکٹھا بٹھا کر ایک ایسا فارمولا بنانا چاہیے جس میں اگلے بیس سال تک کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے ہم پھر ترقی کر سکیں گے ورنہ ہم ایک ارب لوگوں کی روٹی پوری نہیں کر سکیں گے‘‘ نرسیما راؤ کو یہ بات ٹھیک لگی چناں چہ انھوں نے انھیں اجازت دے دی۔

 من موہن سنگھ نے اس کے بعداگلے20سال کا معاشی ایجنڈا بنایا‘ وزیراعظم نے اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو لوک سبھا میں اکٹھا کیا‘ بزنس مینوں‘ صنعت کاروں‘ پروفیسرز‘ بیوروکریٹس اور ججوں کو بھی پارلیمنٹ میں بٹھایا گیا‘ دھواں دھار تقریریں ہوئیں‘ لوگوں نے ایک دوسرے کے گریبان تک پھاڑنے کی کوشش کی لیکن آخر کار تمام لوگ 20 سالہ معاشی ایجنڈے پر رضا مند ہو گئے‘ یہ من موہن سنگھ کی بہت بڑی اچیومنٹ تھی‘ اس ایک فیصلے نے بھارت کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔

اٹل بہاری واجپائی اس زمانے میں اپوزیشن لیڈر تھے ‘ وہ بھی من موہن سنگھ کا احترام کرتے تھے اور من موہن سنگھ بھی‘ نرسیما راؤ کے زمانے میں وزارت خزانہ نے کھاد کی قیمت میں چار روپے اضافہ کر دیا‘ بھارت کے کسانوں نے اس پر وبال کھڑا کر دیا‘ اپوزیشن نے یہ معاملہ اٹھا کر پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنا دیا‘ میڈیا نے بھی وزیر خزانہ کے لتے لینا شروع کر دیے‘ من موہن سنگھ نے قیمتیں کم کرنے سے انکار کر دیا‘ وزیراعظم عوامی دباؤ میں آ گئے اور انھوں نے وزارت خزانہ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا‘ من موہن سنگھ نے وزیر خزانہ بنتے وقت وزیراعظم سے وعدہ لیا تھا یہ ان کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے چناں چہ سردار نے استعفیٰ دے دیا اور جا کر گھر بیٹھ گئے۔

 وزیراعظم نرسیما راؤ نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی مگر یہ نہ مانے‘ آپ بھارتی حکمرانوں اور سیاست دانوں کا کمال دیکھیے‘ وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی اور انھیں من موہن سنگھ کے گھر بھجوا دیا‘ آپ اب صورت حال دیکھیے‘ کھاد کی قیمتیں وزیر خزانہ نے بڑھائیں‘ ایشو اپوزیشن نے اٹھایا اور اپوزیشن کے دباؤ کی وجہ سے وزیر خزانہ نے استعفیٰ دے دیا‘ یہ اپوزیشن کی سیاسی کام یابی تھی اور واجپائی صاحب کو اس کا ڈھول بجانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس وزیراعظم کی درخواست پر وزیر خزانہ ان کے گھر گئے اور انھیں استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کرنے لگے‘ واجپائی اور من موہن سنگھ کے طویل ڈائیلاگ کے بعد یہ طے ہوا وزیر خزانہ اضافے میں سے دو روپے کم کردیں گے‘ اس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی عزت بچ جائے گی اور کسانوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا‘ من موہن سنگھ نے اگلے دن قیمتوں کے اضافے سے دو روپے کم کر دیے اور یوں واجپائی کی وجہ سے یہ معاملہ نبٹ گیا۔

آپ نے یہ دونوں واقعات پڑھے‘ آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر پاکستان میں آج کی حکومت کو آج کی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کا بیس سال کا ایجنڈا طے کرنا پڑے تو کیا یہ کریں گے اور دوسرا سوال اگر ہمارے وزیرخزانہ اورنگ زیب مستعفی ہو رہے ہوں تو کیا میاں شہباز شریف کی درخواست پر عمر ایوب یا عمران خان ان کے گھر جا کر انھیں راضی کریں گے؟ آپ کا جواب یقینا ناں ہو گا اور ہم آج اس ناں کی وجہ سے عالمی دوڑ میں پیچھے ہیں اور بھارت ہم سے بہت آگے ہے اور آپ یقین کریں ہم جب تک اپنے سسٹم میں من موہن سنگھ جیسے لوگ تلاش نہیں کریں گے اور واجپائی اور نرسیما راؤ جیسے بڑے دل پیدا نہیں کریں گے ہم اس وقت تک اسی طرح دردر بھیک مانگتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: من موہن سنگھ نے نہیں کریں گے نہرو فیملی کی وجہ سے نے انھیں بھارت کے نہیں کر شروع کی چناں چہ تھا اور اور ان کر دیا کے بعد

پڑھیں:

نو مئی کیس، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کوگرفتار کر لیا گیا

نو مئی کیس، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کوگرفتار کر لیا گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 3 August, 2025 سب نیوز

سماہنی (سب نیوز)سابق وزیرِ اعظم آزاد کشمیر اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کے صدر سردار عبدالقیوم نیازی کو حراست میں لے لیا گیا،پی ٹی آئی رہنما سردارعبدالقیوم نیازی کوجنڈی چونترہ کے مقام سے گرفتارکیاگیا،ان کے 9مئی کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ صدر پی ٹی آئی و سابق وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کو سماہنی سے حراست میں لیا گیا ہے۔سردار عبدالقیوم نیازی سماہنی میں ریلی سے خطاب کے لیے پہنچے تھے۔ریلی میں شرکت سے پہلے عبدالقیوم نیازی کو حراست میں لیا گیا، عبد القیوم نیازی پولیس کو مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔

ڈی آئی جی لیاقت چوہدری کے مطابق عبدالقیوم نیازی کو 16ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا اور ان کی گرفتاری ڈپٹی کمشنر کے حکم پر عمل میں لائی گئی۔واضح رہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی 4 اگست 2021 تا 14 اپریل 2022 آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران خان کے بچے قانونی منظوری کے بعد انسے ملاقات کر سکتے ہیں ،غیر ملکی شہریوں کو عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جا سکتی،حذیفہ رحمان عمران خان کے بچے قانونی منظوری کے بعد انسے ملاقات کر سکتے ہیں ،غیر ملکی شہریوں کو عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جا... بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں سے کوئی خطرہ نہیں ، گرفتار نہیں کیا جائیگا، طلال چودھری مزید بارشوں کی پیشگوئی، الرٹ جاری، حالیہ بارشوں سے اموات کی تعداد 299ہوگئی یو کرین کا روس کے آئل ڈپو پر ڈرون حملہ، آگ بھڑک اٹھی، قریبی ہوائی اڈے پر پروازیں معطل سعودی عرب میں ایک ہفتے کے دوران 22ہزار سے زائدغیرقانونی تارکین گرفتار،سعودی وزارت داخلہ سندھ حکومت نے بجلی صارفین کو مفت سولر سسٹم دینے کا فیصلہ کر لیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • صدر، وزیراعظم اور وزیراعظم آزاد کشمیر کا کشمیری عوام سے غیرمتزلزل یکجہتی کا اعادہ
  • بھارت کا ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا عندیہ
  • غزہ میں کسی کو بھوکا نہیں دیکھنا چاہتے، وہاں بہت برا ہو رہا ہے؛ امریکی صدر ٹرمپ
  • بھارت کی سیاسی اور سفارتی مشکلات
  • قصور، چچا بھتیجی بی آر بی نہر میں ڈوب کر جاں بحق
  • الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کیطرح بیان بازی نہیں کرنی چاہیئے، اکھلیش پرساد سنگھ
  • نو مئی کیس، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کوگرفتار کر لیا گیا
  • امریکی دھمکیوں کے باوجود بھارت روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا
  • ’چاہ یوسف سے صدا‘ دینے والے گیلانی کی خاموشی
  • سنا ہے بھارت نے روس سے تیل کی خریداری روک دی ہے؛ ٹرمپ