بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا جاتا تھا اور یہ بات درست بھی تھی‘ من موہن عام بھارتی شہری سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر خزانہ بن گئے تھے لیکن یہ کبھی وزیراعظم بھی بنیں گے یہ انھوں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا‘ کیوں؟ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ ان کا سکھ ہونا تھا‘1984 میں اندرا گاندھی کو ان کے سکھ سیکیورٹی گارڈز نے قتل کر دیا تھا جس کے بعد دہلی میں سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا‘ اس سے قبل اندرا گاندھی نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پر فوج چڑھا دی تھی لہٰذا نہرو خاندان سکھوں کو ناپسند کرتا تھا اور سکھ نہرو فیملی اور کانگریس سے نفرت کرتے تھے لہٰذا ان حالات میں کانگریس کی طرف سے کسی سکھ کو وزیراعظم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ دوسرا وزارت عظمیٰ طویل عرصے سے نہرو فیملی میں رہی تھی۔
راجیو گاندھی کے بعد ان کا صاحب زادہ راہول گاندھی تیار تھا چناں چہ کسی دوسرے کو وزیراعظم کیوں بنایا جاتا لیکن کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے 2004 میں الیکشن جیتنے کے بعد اچانک من موہن سنگھ کو کولیشن گورنمنٹ کا وزیراعظم نامزد کر دیا جس نے من موہن سنگھ کے ساتھ ساتھ پورے بھارت کو حیران کر دیا یوں سردار جی حادثاتی طور پر وزیراعظم بن گئے‘ آج جب 2004 کی بھارتی سیاست کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو مورخ یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے راہول گاندھی کی عمر اس وقت محض 34سال تھی‘ سونیا گاندھی کا خیال تھا راہول گاندھی کم عمر اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے کولیشن گورنمنٹ نہیں چلا سکے گا‘ دوسرا ان کا خیال تھا وہ اور ان کا بیٹا پارٹی سنبھالیں گے۔
اگلے الیکشن میں اکثریت حاصل کریں گے اور یوں نہرو فیملی کا اقتدار نہرو فیملی کو واپس مل جائے گا لیکن سونیا گاندھی کا یہ منصوبہ کام یاب نہ ہو سکا اور راہول گاندھی وزیراعظم نہ بن سکا‘ بہرحال ہم اب اصل ایشو کی طرف آتے ہیں۔ من موہن سنگھ نے 22مئی 2004 کو اقتدار سنبھالتے ہی اپنے سیکریٹری کو دس لوگوں کی لسٹ دی اور حکم جاری کیا یہ لوگ جس وقت چاہیں مجھ سے مل سکتے ہیں اور فون پر بھی بات کر سکتے ہیں‘ سیکریٹری فہرست دیکھ کر حیران رہ گیا کیوں کہ اس میں بھارت کے دس ٹاپ بزنس مینوں کے نام تھے۔
اس زمانے میں پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا‘ انھیں پیسے کا پوت کہا جاتا تھا اور سیاست دان بالخصوص وزراء ان سے ملاقات سے کتراتے تھے‘ سیکریٹری نے ادب سے سمجھانے کی کوشش کی ’’سر اس سے آپ پر بہت الزامات لگیں گے‘‘ من موہن سنگھ یہ سن کر ہنسے اور پھر بولے ’’بھارت کو بھارت یہ بزنس مین بنا رہے ہیں‘ یہ ہمارے محسن ہیں‘ یہ اگر کام نہیں کریں گے تو آپ کو تنخواہ ملے گی اور نہ مجھے اور نہ عام آدمی پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے گا چناں چہ بھارت کے وزیراعظم کے دروازے اپنے محسنوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں ‘‘۔
اس حکم کے بعدوزیراعظم اگلے دس سال دس بڑے بزنس مینوں کے لیے ہمیشہ دستیاب رہے لہٰذا ہمیں یہ ماننا ہو گا آج اگر بھارت دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے یا اس میں 334بلینئریز ہیں تو یہ من موہن سنگھ کے اس چھوٹے سے فیصلے کا نتیجہ ہے‘ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا تھا‘ من موہن سنگھ نے 1992 میں پہلی بار وزیر خزانہ کی حیثیت سے شائننگ انڈیا کا پراجیکٹ شروع کیا تھا‘ اس نے اپنی معیشت کو لبرل بنایا تھا‘ صنعتوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا تھا اور اس کا پھل آج نریندر مودی اور بھارت کے لوگ کھا رہے ہیں۔
من موہن سنگھ حقیقتاً ایک وژنری انسان تھے‘ چکوال کے قریب گاہ گاؤں میں پیدا ہوئے‘ 1947 میں بلوایوں نے ان کے دادا کو قتل کر دیا‘ یہ اس وقت 15سال کے لڑکے تھے‘ یہ واقعہ ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور پوری زندگی نکل نہیں سکا‘ ان کا خاندان بھارت نقل مکانی پر مجبور ہوا‘ شروع کی زندگی بہت کٹھن تھی مگر خاندان محنت کرتا رہا‘ من موہن سنگھ نے پوری زندگی اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کی‘ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی‘ بین الاقوامی اداروں میں کام کیا‘ 1970 کی دہائی میں بھارت واپس آئے اور کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت میں کام شروع کر دیا‘ چیف اکنامک ایڈوائزر بنے‘ انڈین ریزرو بینک کے گورنر رہے اور پلاننگ کمیشن کے چیئرمین بنے‘ زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن 1991 میں ان کی زندگی میں میجر شفٹ آئی۔
نرسیما راؤ وزیراعظم بن گئے‘ بھارت اس وقت شدید معاشی مسائل کا شکار تھا اور وزیراعظم کو ایک ایسا وزیر خزانہ چاہیے تھا جو ’’آؤٹ آف باکس‘‘ سوچ سکے اور اس وقت پورے سسٹم میں من موہن سنگھ سے بہتر کوئی شخص دستیاب نہیں تھا لہٰذا نرسیما راؤ نے انھیں وزیر خزانہ بنا دیا‘ من موہن سنگھ نے یہ پیش کش صرف ایک شرط پر قبول کی اور وہ یہ تھی کہ وزیراعظم انھیں ان کی مرضی سے کام کرنے دیں گے‘ یہ شرط مان لی گئی‘ اس زمانے میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم تھے‘ میاں صاحب نے دو کام شروع کیے تھے۔
موٹر وے بنانے کا اعلان کیا تھا اور معیشت کی لبرلائزیشن شروع کی تھی‘ من موہن سنگھ کو یہ اپروچ اچھی لگی‘ اس وقت جے این ڈکشت پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر تھے‘ من موہن سنگھ نے انھیں دہلی بلایا اور پاکستان میں ہونے والی معاشی اصلاحات پر بریفنگ لی‘ اس زمانے میں پاکستان اور بھارت دونوں کے فارن ریزروز دو ارب ڈالر تھے یعنی بھارت کے خزانے میں بھی دو ارب ڈالر تھے اور پاکستان کے پاس بھی دو ارب ڈالر تھے‘ من موہن سنگھ ایک دن دونوں ملکوں کی بیلنس شیٹ لے کر وزیراعظم کے پاس چلے گئے اور ان کو بتایا ہم سے چھ گنا چھوٹا ملک معیشت میں ہمارا مقابلہ کر رہا ہے اور یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
وزیراعظم نے ان سے اس کا حل پوچھا‘ من موہن سنگھ کا جواب تھا ’’ہمیں بھارت کا ایک ایسا معاشی آئین بنانا ہوگا جسے کوئی چھیڑ نہ سکے‘‘ ان کا کہنا تھا ہمیں اپوزیشن‘ فوج‘ بیوروکریسی اور چیف جسٹس کو اکٹھا بٹھا کر ایک ایسا فارمولا بنانا چاہیے جس میں اگلے بیس سال تک کوئی تبدیلی نہ کی جا سکے ہم پھر ترقی کر سکیں گے ورنہ ہم ایک ارب لوگوں کی روٹی پوری نہیں کر سکیں گے‘‘ نرسیما راؤ کو یہ بات ٹھیک لگی چناں چہ انھوں نے انھیں اجازت دے دی۔
من موہن سنگھ نے اس کے بعداگلے20سال کا معاشی ایجنڈا بنایا‘ وزیراعظم نے اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو لوک سبھا میں اکٹھا کیا‘ بزنس مینوں‘ صنعت کاروں‘ پروفیسرز‘ بیوروکریٹس اور ججوں کو بھی پارلیمنٹ میں بٹھایا گیا‘ دھواں دھار تقریریں ہوئیں‘ لوگوں نے ایک دوسرے کے گریبان تک پھاڑنے کی کوشش کی لیکن آخر کار تمام لوگ 20 سالہ معاشی ایجنڈے پر رضا مند ہو گئے‘ یہ من موہن سنگھ کی بہت بڑی اچیومنٹ تھی‘ اس ایک فیصلے نے بھارت کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔
اٹل بہاری واجپائی اس زمانے میں اپوزیشن لیڈر تھے ‘ وہ بھی من موہن سنگھ کا احترام کرتے تھے اور من موہن سنگھ بھی‘ نرسیما راؤ کے زمانے میں وزارت خزانہ نے کھاد کی قیمت میں چار روپے اضافہ کر دیا‘ بھارت کے کسانوں نے اس پر وبال کھڑا کر دیا‘ اپوزیشن نے یہ معاملہ اٹھا کر پارلیمنٹ کو مچھلی منڈی بنا دیا‘ میڈیا نے بھی وزیر خزانہ کے لتے لینا شروع کر دیے‘ من موہن سنگھ نے قیمتیں کم کرنے سے انکار کر دیا‘ وزیراعظم عوامی دباؤ میں آ گئے اور انھوں نے وزارت خزانہ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا‘ من موہن سنگھ نے وزیر خزانہ بنتے وقت وزیراعظم سے وعدہ لیا تھا یہ ان کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے چناں چہ سردار نے استعفیٰ دے دیا اور جا کر گھر بیٹھ گئے۔
وزیراعظم نرسیما راؤ نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی مگر یہ نہ مانے‘ آپ بھارتی حکمرانوں اور سیاست دانوں کا کمال دیکھیے‘ وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی اور انھیں من موہن سنگھ کے گھر بھجوا دیا‘ آپ اب صورت حال دیکھیے‘ کھاد کی قیمتیں وزیر خزانہ نے بڑھائیں‘ ایشو اپوزیشن نے اٹھایا اور اپوزیشن کے دباؤ کی وجہ سے وزیر خزانہ نے استعفیٰ دے دیا‘ یہ اپوزیشن کی سیاسی کام یابی تھی اور واجپائی صاحب کو اس کا ڈھول بجانا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس وزیراعظم کی درخواست پر وزیر خزانہ ان کے گھر گئے اور انھیں استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کرنے لگے‘ واجپائی اور من موہن سنگھ کے طویل ڈائیلاگ کے بعد یہ طے ہوا وزیر خزانہ اضافے میں سے دو روپے کم کردیں گے‘ اس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی عزت بچ جائے گی اور کسانوں کو بھی فائدہ ہو جائے گا‘ من موہن سنگھ نے اگلے دن قیمتوں کے اضافے سے دو روپے کم کر دیے اور یوں واجپائی کی وجہ سے یہ معاملہ نبٹ گیا۔
آپ نے یہ دونوں واقعات پڑھے‘ آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر پاکستان میں آج کی حکومت کو آج کی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کا بیس سال کا ایجنڈا طے کرنا پڑے تو کیا یہ کریں گے اور دوسرا سوال اگر ہمارے وزیرخزانہ اورنگ زیب مستعفی ہو رہے ہوں تو کیا میاں شہباز شریف کی درخواست پر عمر ایوب یا عمران خان ان کے گھر جا کر انھیں راضی کریں گے؟ آپ کا جواب یقینا ناں ہو گا اور ہم آج اس ناں کی وجہ سے عالمی دوڑ میں پیچھے ہیں اور بھارت ہم سے بہت آگے ہے اور آپ یقین کریں ہم جب تک اپنے سسٹم میں من موہن سنگھ جیسے لوگ تلاش نہیں کریں گے اور واجپائی اور نرسیما راؤ جیسے بڑے دل پیدا نہیں کریں گے ہم اس وقت تک اسی طرح دردر بھیک مانگتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: من موہن سنگھ نے نہیں کریں گے نہرو فیملی کی وجہ سے نے انھیں بھارت کے نہیں کر شروع کی چناں چہ تھا اور اور ان کر دیا کے بعد
پڑھیں:
فیلڈ مارشل کی قیادت میں بھارت کو جو سبق سکھایا وہ زندگی بھر نہیں بھولے گا وزیراعظم
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جون2025ء) وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے کہاہے کہ فیلڈ مارشل کی قیادت میں بھارت کو جو سبق سکھایا وہ زندگی بھر نہیں بھولے گا،جب مورخ پاکستان کی تاریخ لکھے گا، خیبرپختونخوا کے عوام کی اس 77 سالہ تاریخ میں جو عظیم قربانیاں اور جدوجہد ہیں، وہ ہمیشہ سنہری حروف سے یاد رکھی جائیں گے۔پشاور میں امن وامان پر جرگے کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور گورنر فیصل کریم کنڈی سمیت دیگر سیاسی وعسکری قیادت اور قبائلی عمائدین شریک ہوئے۔وزیراعظم شہباز شریف نے امن وامان پر جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 6 اور 7 مئی کو جس طرح دشمن نے گھات لگاکر حملہ کیا اور بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا، جس کے جواب میں افواج پاکستان نے فیلڈ مارشل کی قیادت میں جو زندگی کا سبق سکھایا ہے وہ ہندوستان قیامت تک کبھی نہیں بھولے گا۔(جاری ہے)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جرگے کے شرکا کو سلام پیش کرتا ہوں، خیبرپختونخوا بہت عظیم صوبہ ہے یہ بہت خوبصورت صوبہ ہے اور یہاں کے عوام دلیر، غیور اور غیرت مند قوم ہیں۔
انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا کے عوام نے 1947 میں پاکستان کا ساتھ دیا، صوبے کے عوام نے ہمیشہ پاکستان کا پرچم بلند کیا، آپ نے قوت اور دلیری کے ساتھ ہمیشہ پاکستان کا دفاع کیا۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے عوام نے بہت قربانیاں دی جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گا اورجب بھی پاکستان کی بات آئی، آپ نے تمام باتوں اور اختلافات کو ایک طرف کرکے پاکستان کا پرچم بلند کیا، میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے تحسین پیش کرنے آیا ہوں۔شہباز شریف نے کہا کہ جب مورخ پاکستان کی تاریخ لکھے گا، خیبرپختونخوا کے عوام کی اس 77 سالہ تاریخ میں جو عظیم قربانیاں اور جدوجہد ہیں، وہ ہمیشہ سنہری حروف سے یاد رکھی جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ 2016 میں اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو کس طرح بچوں اور اساتذہ کو شہید کیا گیا جس میں سپایوں کے بچے بھی تھے، پشاور میں ایک میٹنگ میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا گیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔انہوںنے کہاکہ قبائلی عمائدین نے جو آج باتیں کی ہیں، ہمیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور مل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے، علی امین گنڈا پور نے جو بات کی کہ این ایف سی ایوارڈ کو 15 سال ہوگئے اور اب اس کو دوبارہ نظرثانی کرنا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی میں خیبرپختونخوا کے حصے کے حوالے سیکمیٹی تشکیل دی جائے گی جب کہ اگست میں این ایف سی سے متعلق پہلی میٹنگ بلائیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ 2010 کے ایوارڈ میں پہلا آئٹم خیبرپختونخوا کے لیے دہشت گردی کے خلاف جو وسائل ہیں، اس پر چاروں صوبوں نے ایک فیصد پر اتفاق کیا اور مختلف ادوار میں صرف اس مد میں خیبرپختونخوا کو 700 ارب روپے دیے گئے جب کہ دہشتگردی کیخاتمے تک کے پی کو فنڈ کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہیگا۔انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن صوبہ تھا اور آج بھی ہے جب کہ بلوچستان میں بھی دہشتگردی کے واقعات ہورہے تھے لیکن بلوچستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے این ایف سی کے تحت فنڈ ملنے پر شامل نہیں کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور نے دیگر مطالبات بھی کیے ہیں، جیسے این ایف سی ایوارڈ کے لیے کمیٹی بنائی، اسی طرح آپ کے معاملات کے لیے بیٹھ جاتے ہیں اور ایک کمیٹی تشکیل دے دیں گے جو اس کو سنجیدگی سے دیکھیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ جنگ میں پاکستان کے جہاں باقی صوبوں کے عوام کی افواج پاکستان کے ساتھ دعائیں شامل تھیں، ویسے ہی پشاور سمیت دیگر جنوبی اضلاع میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں نے افواج پاکستان کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگیں۔انہوںنے کہاکہ 6 اور 7 مئی کو جس طرح دشمن نے گھات لگاکر حملہ کیا اور بے گناہ پاکستانیوں کو شہید اور زخمی کیا، ڈھائی بجے مجھے فیلڈ مارشل نے اٹھایا اور کہا کہ بھارت نے دوبارہ حملہ کردیا اور اس کے بعد جو افواج پاکستان نے فیلڈ مارشل کی قیادت میں جو زندگی کا سبق سکھایا ہے وہ ہندوستان قیامت تک کبھی نہیں بھولے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جس طرح اس جنگ میں عزت عطا فرمائے، اسی طرح معاشی میدان میں بھی پاکستان ایک عظیم قوم بن کر ابھرے گی، آج قوم ایک ہے تو ہمیں پاکستان کی کامیابی کے لیے بڑے اور کڑے فیصلے کرنے ہیں۔انہوںنے کہاکہ مودی سرکار کو جو شکست فاش ہوئی ہے، مودی سرکار اپنے شکست کے زخم چاٹ رہی ہے، غصے اور ہیجانی کیفیت میں ہے، کبھی کہتے ہیں کہ گولی ماریں گے تو کبھی کہتے ہیں پانی بند کریں گے تو میں واضح کردوں ، پانی کا ایک ایک قطرہ پاکستانیوں کا حق ہے جب کہ بھارت نے دوبارہ کوئی حرکت کی تو اسی طرح سبق سکھایا جائے گا۔شبہاز شریف نے کہا کہ پانی کے معاملے پر ہم نے فیصلہ کرنا ہے اور اس حوالے سے چاروں صوبوں کو دعوت دیں گے، بیٹھ کر بات کریں گے پانی کو ذخائر کو کس طرح بڑھانا ہے تاکہ بھارت کے ناپاک اور مذموم عزائم دفن ہوجائیں۔