Nai Baat:
2025-07-26@14:53:14 GMT

عروس البلاد میں مسائل ہی مسائل

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

عروس البلاد میں مسائل ہی مسائل

شہر کراچی میں گیارہ سال بعد آیا تو احساس ہوا کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ہر آنےو الا دن ترقی اور خوشحالی کی نوید لاتا ہے ، ارتقائی دور میں کوئی چیز ایک جیسی نہیں رہتی مگر آنے والے وقت میں ترقی اور خوشحالی، اور شہر کی حالت زارمیں خوشنمائی ایک لازمی امر ہے مگر ایک دہائی کے بعد کوئی خوبصورت شہر کھنڈر میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس شہر کو حکمرانوں، ذمہ داروںکی کرپشن کھا گئی بدعنوانی اس وقت ہوتی ہے جب اقتدار میں لوگ ذاتی فائدے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کراچی میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کراچی کے علاقے جہاں مراعات یافتہ لوگ رہتے ہیں وہاں لگتا ہے سب کچھ اچھا ہے ، اور وہاں ”سب کچھ اچھا ہے “ کہ کر زندگی اور نوکری کھڑکانے والے رہتے ہیںوہاں چند شارع ابھی میںیوں کہونگا کہ ابھی زندہ ہیں، باقی شہر کھندرات کا منظر پیش کرتا ہے ، گر د و غبار میں رہنے والے اپنے ہر سانس میں گرد و غبار کو سمونے والے باسی ، سڑکوں پر آمد و رفت میں مشکلا ت برداشت کرنے والے شام کو گھر لوٹتے ہوئے اپنے حکمرانوںکے لئے ”تبرہ “ نہ پڑھیں تو کیا کریں ؟؟اپنے نام نہاد حکمرانوںکو چنتے وقت ، گولی کے خوف اور مستقبل کے سہانے اور جھوٹے خواب دکھانے والوں کو ایک مرتبہ پھر ووٹ ڈال دیتے ہیں اور وہ حکمران بن بیٹھتے ہیں۔ مگر عروس بلاد جو اب کسی بیوہ کا اجڑا چہرہ لگتا ہے ، ہر سڑک کھنڈر کا منظر، آمد و رفت کی الگ الگ شاہراہ ہونے کے باوجود ہر سڑک دونوں جانب سے رواں دواں ہے دکانیں ، خوانچے ، مصروف ، اور کھنڈرات بنی شاہراہ کے درمیان موجود ہوتی ہیں ، پھل ،کھانے پینے کی اشیاءپر مکھیوں، اور گرد و غبار کا راج ہے ، لوگ مجبور ہیں اسی حال میں مہنگے پھل خریدتے، پرائس کنٹرول شعبے کے حکومتی عہدیدار جو صرف تنخواہ لیتے ہیں یاخوانچہ فروشوں سے مفت پھل اور سبزیاںحاصل کرتے ہیں جسکے نتیجے میں وہ عوام کو دیدہ دلیری سے اشیاءفروخت کرتے ہیںاس کا مطلب ہے کہ سرکاری اہلکار رشوت لیتے ہیں یا بے ایمان ہیں۔ دہائیوں سے سنا جاتا ہے کہ کراچی کو درپیش مسائل سے چھٹکارہ دلانے کیلئے حکومت اور
بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے ، بین الاقوامی تعاون تو ہوتاہے اور اس وجہ سے بھاری فنڈز بھی ملتے ہیں جو نوکر شاہی اور زبردستی کے ”منتخب “ نمائندے اپنی عیش و عشرت پر خرچ کرتے ہیں یا انکے بیرونی بنک اکاوئنٹس کی زینت بن جاتے ہیں ۔ غرض 17.

6 ملین افراد کا یہ شہر اپنے حکمرانوں کو منہ چڑا رہا ہے ، اس میں کراچی کے پیدائشی سیاست دان اور صوبے کے اندرونی علاقوں میں پیدا ہونے والے سب ہی شامل ہیں شفافیت، احتساب اور اخلاقی حکمرانی کو فروغ دینے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ان نامساعد حالات میں ملازمتوں، روزگار کے مواقع کم سے کم ہورہے ہیں جس وجہ سے جرائم اور نشہ لازمی امر ہے ، شہر میںشائد بیس فیصد کی آبادی کے منہ میں صحت کیلئے مضر ”گٹکا “ (جو بھارت کی سوغات ہے) نہ لگا ہو۔ جرائم، پانی اور بجلی کی قلت کچھ بڑے مسائل ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر اس طرح کے جان لیوا مسائل کے نقصان دہ اثرات کے نیچے پھنسا ہوا ہے۔ ان مسائل نے نہ صرف پاکستان کے معاشی حب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے بلکہ کراچی کے بے بس لوگوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ شاید غزہ میں اسرائیل ایسا نہیںکرتاہوگا خدا ناخواستہ پانی ، بجلی سے محروم کسی دن قانون کواپنے ہاتھ میںلے لینگے تو حکمرانوں کو منہ چھپانا مشکل ہوجاے گا ، شرم ہو تو منہ تو ابھی بھی چھپا نا چاہئے ، دوسرے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں ابتر ہوتی پبلک ٹرانسپورٹ نے بھی آگ پر مزید تیل ڈال دیا ہے۔ میٹرو اور گرین بس منصوبے ابھی مکمل ہونا باقی ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریفک جام کی صورتحال اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ کا اچھا اور مہذب نظام ہوتا تو لوگوں کو اس مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے کراچی سے غیر قانونی بستیوں اور زمینوں پر قبضے ہر جگہ نظر آتے ہیں سیاسی حمایت یافتہ لینڈ مافیاز بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ متعلقہ حکام روشنیوں کے شہر کی مٹی سے ایسے مافیا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔وفاق بھی ماشااللہ خوب کام کررہا ہے کراچی وفاقی محصولات کا 60 فیصد پیدا کرنے کے باوجود بمشکل 10 فیصد وفاقی وسائل حاصل کرتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ کاوشیں کراچی کو جرائم، بجلی کی قلت اور بے روزگاری سے نجات دلا سکتی ہیں وقاق اور صوبے کی حکومتوں میں ہمیشہ سے ہی آنکھ مچولی کے کھیل جاری ہے، ایم کیوایم دعویدار ہے کہ کراچی اسکا ہے ، مگر جب ایم کیوایم خود شہر میں برسراقتدار تھی اس نے شہر میںکب چاند ستارے لگائے تھے ؟؟کراچی میں جرائم اور سیکیورٹی سب سے بڑے مسائل ہیں۔ چوری اور ڈکیتی جیسے اسٹریٹ کرائمز بہت ہیں۔ بہت سے لوگ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، گروہوں اور منظم جرائم کے مسائل بھی ہیں۔ پولیس کے پاس ہمیشہ اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ فوری مدد فراہم کر سکے۔ پولیس میں بدعنوانی حالات کو مزید خراب کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی میں بہتری اور جرائم پر قابو پانا ضروری ہے۔سڑکیں کھنڈر ہیں اسلئے ٹریفک جام ہونا لازمی امرہے رش کی وجہ سے تاخیر ( وقت کی تو شائد کوئی قیمت نہیںہوتی ہمارے ملکوں میں ) نیز مہنگے پیٹرول کا خرچ ِ؟؟باسی بتاتے ہیں کہ سڑکیں ٹوٹتی ہیں ، مرمت کے ٹینڈر شائع ہوتے ہیں کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہوتے ہیں مرمت پر کم نجی اکاﺅنٹس میں زیادہ جاتے ہیں، بلڈوزر پھرتا ہے ، وقتی سڑک ٹھیک ہوتی ہے چند ہفتے بعد پھر وہی سڑک کھنڈر بن جاتی ہے ۔ کراچی میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کئی علاقوں میں پانی تک رسائی نہیں ہے اور لوگوں کو اکثر قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی فراہمی کا نظام پرانا اور خستہ حال ہے جس کی وجہ سے رساو اور ضیاع ہو رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں پانی کے پائپ ہی نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ٹینکروں سے پانی خریدنا پڑتا ہے جو مہنگا ہے۔ ناقص انتظام اور غیر قانونی کنکشن بھی دستیاب پانی کو کم کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں رہائشیوں کو پینے، کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی کے لیے صاف پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کراچی میں بجلی کی کمی ایک مسئلہ ہے۔ اکثر اور کئی گھنٹوں تک بجلی کی بندش۔ اس سے لوگوں کے لیے کام کرنا، پڑھنا، کاروبار بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں مسلسل بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کا نظام پرانا ہے اور طلب کو پورا نہیں کر سکتا۔ کچھ علاقوں کو دوسروں سے زیادہ بجلی ملتی ہے، جو کہ مناسب نہیں ہے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کراچی میں کی وجہ سے لوگوں کو کرتے ہیں بجلی کی سے لوگ کے لیے

پڑھیں:

’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا

مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔

تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔

ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘

فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘

یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔

پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔

واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“

ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟

یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • کراچی: بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ٹینک بنانے کا کام مکمل
  •  باغبانپورہ : بچی بجلی کے کھمبے سے کرنٹ لگنے کے باعث زخمی
  • خطے کی سب سے زیادہ مہنگی بجلی اور گیس بیچ کر ترقی نہیں ہو سکتی: مفتاح اسماعیل
  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج ہوگی، اپوزیشن کا شرکت سے انکار
  • امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • مسائل بندوق سے نہیں، مذاکرات سے حل ہوتے ہیں، ینگ پارلیمنٹری فورم