قابضین کی لبنان کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے، حزب اللہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
حزب اللہ تحریک نے لبنان کی سرزمین سے صیہونی فوجیوں کے انخلاء کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنانی عوام ملک کی خود مختاری کے محافظ ہیں اور کسی قسم کی دھمکی یا جارحیت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ تحریک نے اسرائیلی فوجیوں کے لبنان کی سرزمین سے نکلنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لبنانی عوام ملک کی خودمختاری کے نگہبان ہیں اور کسی بھی قسم کی دھمکی یا جارحیت کے سامنے تسلیم نہیں ہوں گے۔ فارس نیوز کے مطابق، حزب اللہ نے آج اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو اسرائیلی ریاست کو جنوبی لبنان سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ حزب اللہ نے مزید کہا کہ قابضین کا لبنان کی سرزمین میں کوئی جگہ نہیں ہے اور فوج-عوام-مقاومت کا معادلہ لبنان کو دشمنوں کی چالبازیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
لبنانی مزاحمت نے کہا کہ لبنانی عوام نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اپنے وطن کی سرزمین میں جڑیں رکھتے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی دھمکی یا جارحیت کے سامنے سر تسلیم نہیں جھکائیں گے۔ حزب اللہ نے کہا کہ سال 2000 سے آج تک یہ منظر دہرایا جا چکا ہے اور ہمارے عوام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ فتح کے اصل رہنما ہیں اور اس عمل کو اپنی جرات مندانہ مزاحمت اور دشمن کو پیچھے دھکیل کر مکمل کیا ہے۔ لبنان کے صدر جوزف عون نے جنوبی لبنان میں ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں، قابضین کے وعدہ خلافی اور اسرائیلی فوجیوں کے لبنانی شہریوں پر فائرنگ کا جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ لبنان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی، اور میں اس مسئلے کو اعلیٰ سطح پر پیگیری کروں گا تاکہ ہمارے حقوق کی ضمانت دی جا سکے۔ صہیونی ریاست کے لبنان سے پیچھے ہٹنے کے لیے 60 دن کی مہلت کا اختتام آج صبح 4 بجے ہوا، اس کے باوجود اسرائیلی قبضے کی جاری صورتحال میں لبنانی سرحدی گاؤں اور شہر اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے، تاہم وہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا سامنا کر رہے تھے۔
جوزف عون نے کہا کہ میں بھی جنوبی لبنان کے عوام کی فتح میں ان کے ساتھ شریک ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ تحمل سے کام لیں اور مسلح افواج پر اعتماد کریں۔ جنوبی لبنان کے مکین لبیک یا نصر اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے اور سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی تصاویر پکڑے ہوئے اپنے علاقوں کی طرف واپس جا رہے ہیں اور وہ اسرائیلی مرکاوا ٹینکوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
مزاحمت لبنان نے یہ بھی کہا کہ ان لوگوں کی تصاویر جو اپنے گاؤں واپس جا رہے تھے اور شہداء کی تصاویر اور حزب اللہ کے پرچموں کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے، انہوں نے استقامت اور فتح کی بلند ترین معانی کو بیان کیا ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ لبنانی عوام ایک شکست نہ کھانے والی قوت کے طور پر حزب اللہ کے لیے سب سے طاقتور ہتھیار بن چکے ہیں۔
حزب اللہ نے کہا کہ لبنان کے عوام کی عظمت کے سامنے وہ سر تسلیم خم کرتے ہیں اور مزید کہا کہ فوج، عوام، مقاومت کا معادلہ صرف کاغذ پر نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے لبنانی عوام روزانہ اپنی زندگی کے ساتھ جیتے ہیں اور اس کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ حزب اللہ نے لبنان کے تمام عوام، خاص طور پر جنوبی لبنان کے رہائشیوں سے کہا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قومی یکجہتی کے معانی کو اجاگر کریں اور ایک ایسا حقیقی خودمختار نظام قائم کریں جو آزادی اور فتح پر مبنی ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لبنان کی سرزمین کہ لبنانی عوام کہا کہ لبنان حزب اللہ نے نے کہا کہ لبنان کے کے سامنے ہیں اور
پڑھیں:
عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
اسلام ٹائمز: علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔ تحریر: سید عدنان زیدی
امریکہ اور جولانی کے باہمی تعاون سے عراق کے خلاف ایک نیا اور خطرناک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ شام کے الحسکہ صوبے میں واقع الہول کیمپ میں موجود تقریباً 20 ہزار تربیت یافتہ داعشی دہشت گردوں کو عراق منتقل کرنے کی تیاریاں زیرِ عمل ہیں اور یہ منصوبہ محض عسکری حرکت نہیں، بلکہ سیاسی انتشار، انتخابی مداخلت اور علاقائی تسلط کے لیے ایک سازش ہے۔ لیکن یہ سلسلہ صرف عراق تک محدود نہیں رہا۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ سیاسی و عسکری منظرنامے میں ایک اور اہم نکتہ سامنے آرہا ہے: حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کی امریکی کوششیں اور اس کے نتیجے میں لبنان کی داخلی اور علاقائی پالیسی میں پیدا ہونے والا شدید تناؤ۔ الہول کیمپ میں مقیم شدت پسندوں کی منتقلی کا مقصد واضح ہے: عراق میں خوف و ہراس پھیلانا، تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل مرجعیت اور مزاحمتی بلاک کا اثر کم کیا جا سکے۔
امریکہ کے پالیسی ساز اپنے حامی پروکسیز کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو عوامی رائے کو تقسیم کرے اور انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوسکے۔ یہ ایک گہرا اور خطرناک جال ہے، جس میں عوامی جان و مال اور سیاسی آزادی دونوں داؤ پر ہیں۔ اس خطے میں جب بھی کسی طاقت نے مزاحمتی تنظیموں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تو اس کے نتیجے میں عدم استحکام اور جوابی ردِعمل سامنے آیا۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن کی جانب سے حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبات اور دباؤ میں اضافہ ہوا۔۔۔ مگر لبنان کے اعلیٰ سرکاری حلقوں نے اس خیال کو محض بعید بلکہ ناممکن قرار دیا ہے۔ لبنان کے صدر نے سرکاری طور پر واضح کیا کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ملک کی سیاسی حقیقت اور دفاعی ضرورت کے تناظر میں ممکن نہیں۔ صدر کا مؤقف ہے کہ حزبِ اللہ لبنان کی قومی حقیقت کا حصہ ہے اور اسے ختم کرنے یا غیر فعال کرنے کے مطالبات لبنان کی سالمیت اور عوامی امن کے خلاف جائیں گے۔
واشنگٹن نے لبنان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک اور راستہ اپنایا۔۔۔ کہا گیا کہ اگر حزبِ اللہ غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل کے ساتھ تعاون یا سیاسی دباؤ کے ذریعے لبنان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واضح دھمکیاں لبنان کے سیاسی استحکام کو مزید خطرے میں ڈالتی ہیں اور خطے میں جنگ کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔ ایسی بلیک میلنگ سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ طاقتیں علاقائی معاملات کو حل کرنے کے بجائے دھمکی اور جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ حالانکہ یہ طریقہ کار نہ تو پائیدار امن لائے گا، نہ ہی عوامی بھلائی کا ضامن بنے گا۔ قریبِ مشرق کی متعدد صحافتی رپورٹس میں بھی اس بات کی تصدیق ملتی ہے کہ حزبِ اللہ نے اپنی دفاعی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بڑی سطح پر تیاری کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے متعدد رپورٹس میں حزبِ اللہ کی عسکری تیاریوں، نئے اسٹرائیک صلاحیتوں اور دفاعی منصوبہ بندی کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔۔۔ جو ظاہر کرتی ہیں کہ لبنان کی مزاحمتی قوتیں کسی بھی بیرونی دباؤ کے جواب میں مضبوطی سے قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ رپورٹس ان دھمکیوں کے پیشِ نظر اہم پیغام دیتی ہیں: حزبِ اللہ اپنی عوامی حمایت اور علاقائی تجربے کی بنیاد پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ دفاعی اقدامات کر رہی ہے اور اس میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عراق میں ایک ایسا سیاسی توازن قائم رہے، جو امریکی مفادات کے مطابق ہو۔ اسی لیے الہول کے جنگجوؤں کی منتقلی، سکیورٹی صورتحال میں ردوبدل اور معلوماتی آپریشنز۔۔۔ سب ایک جامع حکمتِ عملی کا حصہ لگتے ہیں۔ قومی انتخابات سے قبل خوف و دہشت پھیلانے کا مقصد ووٹروں کی سرِ حراستی صورتحال پیدا کرنا ہے، تاکہ عوامی مزاحمتی اور مرجعیت پسند جماعتوں کی سیاسی قوت کمزور پڑ جائے۔ یہ وہی کلاسِک طریقہ ہے، جس کے ذریعے بیرونی قوتیں اندرونی تقاضوں کو متاثر کرکے اپنے سیناریو نافذ کرواتی ہیں۔
موجودہ حالات واضح کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے نام پر چلنے والی پالیسیوں کے پیچھے اکثر سیاستِ تسلط کام کرتی ہے۔ عراق میں داعش کی واپسی جیسی کہانیاں، لبنان میں حزبِ اللہ کے خلاف دباؤ اور یمن میں القاعدہ کو استعمال کرنے کی کوششیں۔۔۔۔ یہ سب ایک مربوط تصویر پیش کرتی ہیں: وہی پرانا جال، نئے حربے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخی تجربات نے بارہا دکھایا ہے کہ طاقت کے ذریعے امن مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک علاقائی اقوام اپنی خود مختاری، سیاسی وفاق اور عوامی امن کے لیے متحد منصوبہ بندی نہیں کریں گی، تب تک بیرونی طاقتیں اپنی سفارتی اور عسکری حکمتِ عملیاں جاری رکھیں گی۔ لبنان کا صدر جب کہتا ہے کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، وہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے۔۔۔
وہ حقیقت جو واشنگٹن سمجھنے سے قاصر ہے: خطے کی مزاحمتی قوتیں عوامی حمایت اور تاریخی پس منظر کی حامل ہیں، انہیں زباں سے نہیں، پالیسی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔