سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر نوٹس جاری کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 جنوری ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر نوٹس جاری کر دیے ہیںعدالت عظمیٰ نے فل کورٹ کی تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے.
(جاری ہے)
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، فریقین کے وکلا حامد خان اور فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے اور چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ کی خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بینچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے، کیسز کی فکسیشن 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے، جوڈیشل کمیشن نے جن ججز کو آئینی بینچ کے لیے نامزد کیا، وہ سب اس بینچ کا حصہ ہیں.
جسٹس محمد علی مظہر نے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوز ہیں، آپ اس بینچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں وکلا نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں، آئینی معاملہ صرف آئینی بینچ ہی سنے گا. جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آئینی بینچ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ ہی بنایا ہے جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے فل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ 26ویں ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے وقت ایوان نامکمل تھا. جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا چھبیسویں ترمیم کے لیے کل ممبرز پر ووٹنگ ہوئی یا دستیاب ممبرز پر؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی ہے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دو تہائی پر پورا اترتا ہے؟فیصل صدیقی نے موقف اپنایا گنتی انہوں نے پوری ہی کرلی تھی، ہم اس کا مسئلہ نہیں اٹھا رہے. جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی؟ فیصل صدیقی نے کہا خیبرپختونخوا کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں تھی، خیبر پختونخوا کی حد تک سینیٹ انتخابات رہتے تھے وکیل صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ اختر مینگل کی درخواست میں ترمیم کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے ارکان اسمبلی ووٹ دینے میں کتنے آزاد تھے، اسے بھی مدنظر رکھا جائے. جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا وکیل صلاح الدین نے کہا درخواست میں ایک نکتہ مخصوص نشستوں کا بھی اٹھایا گیا ہے، ایوان مکمل ہی نہیں تھا تو ترمیم کیسے کر سکتا تھا؟ وکیل شاہد جمیل نے کہا عوام کے حقیقی نمائندے ہی آئینی ترمیم کا اختیار رکھتے ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں پہلے انتخابات کے کیسز کے فیصلوں کا انتظار کریں اور پھر آئینی ترمیم کا کیس سنیں؟ اس طرح تو آئینی ترمیم کا کیس کافی عرصہ لٹکا رہے گا عدالت نے فل کورٹ کی تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی. سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت عظمی کی عمارت میں خصوصی انتظامات کئے گئے تھے، 26 آئینی ترمیم کیخلاف تحریک انصاف سمیت دو درجن کے قریب درخواستیں دائر کی گئی ہیں.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آئینی ترمیم کے خلاف فیصل صدیقی نے درخواستوں پر سپریم کورٹ جسٹس جمال فل کورٹ نے کہا کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود کو بطور جج کام کرنے سے روک دیا گیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روک دیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کیسز کی سماعت سے روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈویژن بینچ نے میاں داؤد کی درخواست پر آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روک دیا۔ عدالت نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کیا جب کہ اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کرلی۔ دوسری جانب اس فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سنگل بینچ اور ڈویژن بینچ میں کیسز کی سماعت سے روک دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 17 ستمبر سے 19 ستمبر کے لیے ججز کا جو نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کیا گیا اس میں کیسز کی سماعت کے لیے جسٹس طارق محمود جہانگیری کا نام شامل نہیں ہے۔