رائٹ سائزنگ پالیسی؛ ریلوے میں سے 17 ہزار پوسٹیں ختم کردی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی حکومت نے حکومتی اخراجات میں کمی کیلیے رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت وزارت ریلوے میں سے رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت 17 ہزار 101 پوسٹیں ختم کردی ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق پیر کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی رائٹ سائزنگ کا اجلاس ہوا جس میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں میں رائٹ سائزنگ میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ 29 وزارتوں اور آئینی اداروں نے 11 ہزار 877 پوسٹوں کی منسوخی کی تصدیق کردی ہے جبکہ 4 ہزار 660 ڈائنگ پوسٹوں کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد اور متعلقہ وزارتوں اور محکموں کی کاوشوں کو سراہا، دوران اجلاس وزارت ریلوے کے حکام نے اپنے رائٹ سائزنگ کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور بریفنگ دی کہ وزارت میں موجود 95 ہزار 859 پوسٹوں میں سے 17 ہزار 101 پوسٹیں ختم کی جاچکی ہیں جبکہ مزید 5 ہزار 695 پوسٹوں کے خاتمے کا عمل جاری ہے۔
ریلوے حکام نے بتایا کہ مستقبل میں مزید 15000 پوسٹیں ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اجلاس کے دوران پیش کردہ منصوبے میں آپریشنل کارکردگی اور وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کیلئے اقدامات پر زور دیا گیا اور پاکستان ریلویز کو جدید بنانے اور اس کے آپریشنز کو موثر اور فعال رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پوسٹیں ختم
پڑھیں:
گھوٹکی میں سیلاب، 60 سالہ خاتون ہنر کی بدولت اپنے بچوں کا سہارا بن گئیں
گھوٹکی میں دریائے سندھ کے اونچے درجے کے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو نقل مکانی کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ایک خاتون نے حالات سے ہار ماننے کے بجائے اپنے روایتی ہنر کو سہارا بنالیا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں بہت سے گھروں کو اجاڑ گئیں، مگر حوصلے اور ہنر کے ساتھ جینے کی جستجو آج بھی زندہ ہے۔ سیلاب سے متاثر دریائے سندھ میں واقع ضلع گھوٹکی کے گاؤں ابرو لکھن کی 60 سالہ مائی ڈاتول نے اپنے ہاتھوں کی محنت سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے پالتو جانوروں کا بھی سہارا بن کر سب کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
جلال پور پیروالا سے پانی نہ نکالا جاسکا، ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویزمحکمہ انہار نے پر موٹروے پر شگاف ڈالنے کو انتہائی ضروری قرار دیا، چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور متعلقہ حکام پر مشتمل کمیٹی آج جائزہ لے گی۔
یہ بہادر خاتون مختلف رنگوں کے دھاگوں اور شیشہ کا استعمال کرکے سندھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا، مگر میرے ہاتھوں کا ہنر میرے ساتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھوکے نہ سوئیں اور جانور بھی زندہ رہیں۔ مشکل حالات کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حالیہ سیلاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام گھر سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے، روڈا اور ایل ڈی اے سے دریائے راوی کی زمین پر غیر قانونی سوسائٹیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب میں گھر بہہ گیا، مجبوری ہے اب یہاں بیٹھے ہیں، بچیوں کیلئے ٹینٹ ملا ہے مگر کھانا خوراک کچھ نہیں دیا ابرو کے گاؤں سے آئے ہیں۔
خاتون نے مزید کہا کہ ٹوپیاں بناتی ہوں، اس میں ایک سے دو ہفتے لگ جاتے ہیں اور 500 سے ایک ہزار میں فروخت ہوتی ہے، سات بچے ہیں ان کا کھانا پورا کروں یا مال مویشی کا چارہ پورا کروں۔
مقامی لوگ بھی اس خاتون کے حوصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں ایک جیتی جاگتی مثال قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور سماجی ادارے ایسے باہمت سیلاب متاثرین کی مدد کریں تو یہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ اس عارضی خیمہ بستی میں مکین خاندانوں کیلئے روشنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔