کراچی یونیورسٹی…ڈریس کوڈ مراسلہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ کے لباس کے حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں ۔ طلبہ امورکی مشیر اسسٹنٹ پروفیسر نوشین رضا کے مراسلے کے مطابق یونیورسٹی میں طلبہ صاف ستھرے کپڑے پہنیں، اشتعال انگیز، نفرت پھیلانے والے یا دھیان بھٹکانے والے کپڑے نہ پہنے جائیں۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں جسم کو ظاہر کرنے والے کپڑے نہ پہنیں۔ تنگ کپڑے، قابلِ اعتراض پرنٹ یا گرافک والے کپڑے نہ استعمال کریں۔ طلبہ عام چپلیں بھی نہ پہنیں۔ کراچی یونیورسٹی کی مشیر طلبہ نے یہ ہدایت نامہ یقیناً وائس چانسلر کی ہدایات پر جاری کیا ہوگا۔
اس مراسلے میں طلبہ کو صرف یہ ہدایت نہیں دی گئیں کہ وہ کیا پہنیں نہ ہی طلبا یا طالبات کی تفریق نہیں کی گئی مگر اس مراسلے کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبات کے لباس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں برسوں بعد طلبہ کے ڈریس کوڈ کے حوالے سے کوئی ہدایت سامنے آئی ہے۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں خاص طور پر اور پنجاب کی کئی یونیورسٹیوں میں عمومی طور پر طلبا وطالبات کو مخصوص نوعیت کا لباس نا پہننے یا پہننے کے بارے میں ہدایات جاری کی جاتی رہی ہیں۔
خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا گہرا اثر ہے۔ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ طالبان خواتین کی تعلیم کے حق میں نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی ہے۔ طالبان کی سوچ کے حامل افراد خیبر پختون خوا میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ وہاں کی یونیورسٹیوں میں طالبات کے لباس کے بارے میں رجعت پسندانہ پابندیاں عائد کی جاتی رہیں، جن کی دنیا بھر میں مذمت ہوتی ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں برسوں بعد ڈریس کوڈ کے حوالے سے ہدایت نامہ جاری ہونے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ ملک میں خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں شمولیت اور خواتین کے لباس کے حوالے سے ایک منفی مہم ہمیشہ سے جاری ہے۔ جب 50ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ملک میں مارشل لاء لگا اور جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے میجر آفتاب کو کراچی یونیورسٹی کا پروموٹر مقررکیا تھا۔ میجر آفتاب اس سے قبل اردو کالج کے پرنسپل تھے۔ انھوں نے مولوی عبدالحق کو انجمن ترقی اردو اور اردو کالج سے نکالنے کی ناکام کوشش کی۔ اس زمانے میں کراچی میں طلبہ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریکوں میں خاصے متحرک تھے۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سرگرمیاں کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے لیے تشویش کا باعث رہی تھیں۔ اس دور میں معروف صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کے اہم کارکن حسین نقی جو طلبہ یونین کے منتخب صدر تھے کو یونیورسٹی سے برطرف کیا گیا اور این ایس ایف سے وابستہ طلبہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
اس وقت میجر آفتاب کو طلبہ کے اخلاق کو بلند کرنے کا خیال آیا۔ انھوں نے ایک مراسلہ جاری کیا کہ طلبا اور طالبات کے درمیان 3 فٹ کا فاصلہ ضروری ہے۔ اخبارات کی فائلوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ میجر آفتاب طلبا اور طالبات کے درمیان فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے یونیورسٹی کی راہداریوں میں بیلٹ ہاتھ میں لیے چکر لگاتے تھے۔ وہ طلبا اور طالبات کے درمیان فاصلے کو یقینی بنا کر اپنے طور پر کوئی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ریٹائر کردیے گئے اور پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت آنے کے بعد میجر آفتاب کو یونیورسٹی سے رخصت پر بھیج دیا گیا تو دائیں بازو کی طلبہ تنظیم نے تھنڈر اسکواڈ قائم کیا۔
اس کا بنیادی فریضہ بھی طلبہ کے اخلاقی معیار کو بلند کرنا تھا، مگر اب اسکواڈ کا اصل مقصد اپنے نظریاتی مخالفین کو سزا دینا تھا، یوں یہ تھنڈر اسکواڈ ایک استعارہ بن گیا۔ تھنڈر اسکواڈ میں شامل بعض سابق طالب علم رہنما نجی محفلوں میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں مگر المیہ یہ ہوا کہ کراچی یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی۔ کراچی یونیورسٹی اپنے قیام کے بعد سے ہی رجعت پسند انتظامیہ کے نرغے میں رہی لہٰذا روشن خیال اساتذہ کے داخلے بند رکھے۔ انگریزی کے معروف استاد پروفیسر کرار حسین، اردو کے عظیم نقاد پروفیسر ممتاز حسین، ماہرِ سیاسیات ڈاکٹر م ر حسان، پروفیسر جمال نقوی اور کئی اہم روشن خیال اساتذہ کو یونیورسٹی میں تدریس کا موقع نہیں دیا گیا۔
سینئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ سوشل سائنسز کے مضامین کے نصاب کو دنیا کی جدید یونیورسٹیوں کی طرح جدید تقاضوں کے مطابق بہتر نہیں بنایا گیا بلکہ سائنس کے مضامین میں بھی خاص طور پر بائیولوجیکل سائنسز میں ڈارون کے ارتقاء کے نظریے کی کبھی اس کی روح کے مطابق تدریس نہیں کی گئی اور طلبہ کو غیر سائنسی نظریات پڑھا کر سائنٹیفک سوچ سے دور کیا گیا۔ ابھی تک کراچی یونیورسٹی میں موسیقی اور فنون لطیفہ کا شعبہ پروان نہ چڑھ سکا۔ کراچی یونیورسٹی میں Visual Studies کا شعبہ گزشتہ صدی میں قائم نہ ہوسکا۔ کراچی یونیورسٹی مسلسل مالیاتی بحران کا شکار رہی جس کے نتیجے میں تدریسی اور تحقیقی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں تحقیق کا معیار انتہائی پست ہے۔ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی جانچ پڑتال کے لیے ملک کی دیگر جامعات میں جو طریقہ کار رائج ہے، ان کا کراچی یونیورسٹی میں اب تک تصور نہیں ہے۔ سوشل سائنسز کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ صرف اسلامیات، تجارت، معاشیات اور کاروباری نظمیات کے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے موضوعات کا تقابلی جائزہ لیا جائے کہ بہت سے طالب علموں نے ان سارے مضامین میں ایک مخصوص مذہبی نظریے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں کبھی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جیسے سائنٹسٹ موجود تھے مگر اب تو ایسا کوئی ماہر نظر نہیں آتا۔ کراچی یونیورسٹی میں علمی آزادی کا معیار اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ اساتذہ کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے اور علمی آزادی کی جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر ریاض کی ریٹائرمنٹ پر انھیں رخصت کرنے کے استقبالیے کی اجازت نہیں دی گئی۔
کراچی یونیورسٹی کا نقشہ ایک ماہر فرانسیسی آرکیٹیکٹ نے تیارکیا تھا۔ جب کراچی یونیورسٹی کا کیمپس تیار ہوا تھا تو ایک خوبصورت کیمپس کہلاتا تھا، مگر یونیورسٹی کے نقشے کے تحت یونیورسٹی میں تعمیرات نہیں ہوئیں اور یونیورسٹی کی پرانی عمارتیں مخدوش ہوگئیں۔ کراچی یونیورسٹی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کا شمار ملک کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ اس لائبریری میں نادرکتابوں کے ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ کے کاغذات کا ذخیرہ تھا۔ ایک زمانے میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے علاوہ بھارت اور یورپ سے ماہرین بھی تحقیقی مواد کے لیے ڈاکٹر محمود حسین لائبریری آتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمود حسین لائبریری زبوں حالی کا شکار ہے۔
اس لائبریری کے لیے گزشتہ پندرہ سال سے کوئی کتاب نہیں خریدی گئی۔ لائبریری کی کتابوں کو محفوظ رکھنے کا انتظام نہیں ہے اور لائبریری کے کئی کمروں کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔
اساتذہ بار بارکہتے ہیں کہ یونیورسٹی کی مختلف عمارتیں تباہی کا شکار ہیں۔ اپلائیڈ کیمسٹری، بائیولوجی، جیولوجی کے شعبوں کے تو بعض بلاکس کی چھتیں کئی بارگرچکی ہیں۔ یونیورسٹی کے بجٹ میں ہر سال مرمت کے لیے خاطرخواہ رقم مختص کی جاتی ہے مگر کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ انگریزی، اردو اور مطالعہ پاکستان کی تدریس کے لیے جز وقتی اساتذہ کو 480 روپے فی پیریڈ کے معاوضے پر تقررکیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال 22 شعبوں میں انگریزی کی تدریس نہیں ہوسکی۔ المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بجائے فروہی اقدامات کی طرف زیادہ توجہ دے رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کراچی یونیورسٹی میں کراچی یونیورسٹی کی کراچی یونیورسٹی کا کے حوالے سے میجر آفتاب طالبات کے کے لباس کیا گیا طلبہ کے جاری کی کے لیے
پڑھیں:
ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-7
جاوید احمد خان
ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔
ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔
بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔