معروف نوجوان ٹک ٹاکر گولی لگنے سے چل بسا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
لاہور میں ایک لڑکا ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے دوران پستول سے اچانک گولی چلنے کے نتیجے میں ہلاک ہوگیا۔
پنجاب کے دارالحکومت، لاہور کے علاقے شاد باغ میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا، جہاں ٹک ٹاک بنانےکا شوق ایک اور زندگی نگل گیا۔پولیس حکام کے مطابق عبدالرحمٰن نامی لڑکا ٹک ٹاک بناتے ہوئے پستول سے اچانک گولی چلنے سے زندگی کی بازی ہار گیا، واقعےکی اطلاع ملتے ہی متعلقہ پولیس موقع پرپہنچ گئی تھی۔
ٹک ٹاک بنانے کے دوران جاں بحق ہونے والے عبدالرحمٰن کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانےمنتقل کیا گیا، تاہم اہل خانہ نے کسی بھی قانونی کارروائی سے انکار کر دیا۔پولیس کے مطابق جاں بحق ہونے والا لڑکا مزنگ کا رہائشی تھا، اور وسن پورہ اپنے ماموں کےگھر آیا ہوا تھا، جہاں ٹک ٹاک بنانے کے دوران گولی لگنے سے اپنی زندگی گنوا بیٹھا۔
یاد رہے کہ مئی 2024 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد کے کال سینٹر ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے نوجوان عبداللہ ہلاک ہوگیا تھا، جس کا مقدمہ لیاقت آباد تھانے میں درج کرلیا گیا تھا۔مدعی مقدمہ محمد علی نے موقف اپنایا تھا کہ میرا بیٹا پیپر دینے کے بعد ساڑھے 12 بجے گھر آیا اور پھر ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے نکلا، لیکن واپس گھر نہیں آیا، ہم اس کے کال سینٹر پہنچے تو وہاں پولیس موجود تھی، ہمیں بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا گولی لگنے سے جاں بحق ہوچکا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ٹک ٹاک
پڑھیں:
سعودی عرب میں معروف صحافی کو سزائے موت دیدی گئی
سعودی عرب میں نامور صحافی اور بلاگر 40 سالہ ترکی الجاسر کی سزائے موت پر آج عمل درآمد کردیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافی ترکی الجاسر کو 2018 میں ان کے گھر سے گرفتار کرکے موبائل اور لیپ ٹاپ تحویل میں لے لیئے گئے۔
عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ترکی الجاسر کے موبائل اور لیپ ٹاپ سے ایسا مواد ملا تھا جو ملک سے غداری اور جاسوسی کے ذمرے میں آتا ہے۔
صحافی ترکی الجاسر کا مقدمہ کب اور کہاں چلا اس کی تفصیلات منظرِعام پر نہیں لائی گئیں۔
تاہم سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سنگین جرائم میں ترکی الجاسر کو سزائے موت سنائی گئی تھی جس کی توثیق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی کی تھی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ صحافی ترکی الجاسر کو ٹویٹس میں سعودی شاہی خاندان اور ان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر سزا دی گئی۔
صحافیوں کی حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے بقول سعودی حکام کا دعویٰ تھا کہ الجاسر ایک ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے پیچھے تھے جو شاہی خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات شائع کرتا رہا۔
سعودی حکام کے مطابق صحافی ترکی الجاسر پر شدت پسند گروہوں سے متعلق متنازع ٹویٹس کرنے کا بھی الزام تھا۔
ترکی الجاسر نے 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ بھی چلایا اور عرب بہار تحریک کے حق، خواتین کے حقوق، اور بدعنوانی جیسے موضوعات پر کھل کر لکھا۔
ان کا شمار سعودی عرب کے ان آوازوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اصلاحات کے حق میں آواز بلند کی۔
سعودی عرب پر پہلے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں سزاؤں اور ان کے طریقوں جیسے سر قلم کرنا اور اجتماعی سزائیں دینے پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب میں گزشتہ برس 2024 میں 330 مجرموں کو سزائے موت دی گئی تھی اور رواں برس کے پہلے 5 ماہ میں بھی یہ تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے۔