Islam Times:
2025-07-26@14:50:42 GMT

اہل غزہ کی فتح اور سید مقاومت کی جدائی

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

اسلام ٹائمز: آزادی قدس و غزہ کی اس جنگ میں ایک ایسی عظیم ہستی کے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا، جس کو ’’سید مقاومت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، اس جنگ میں سید حسن نصراللہ کی شہادت امت مسلمہ کا مشترکہ نقصان ثابت ہوا، شہید سید کی جدائی کا غم لبنان سمیت پوری امت مسلمہ بشمول فلسطینیوں کیلئے بھی ناقابل برادشت ہے۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: سید عدیل زیدی

غزہ میں ایک سال سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ میں 46 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کی مظلومانہ شہادت اور شدید تباہی کے بعد جب صیہونی ناجائز ریاست مقاومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو زخموں سے چور فلسطینی عوام تمام تر غم و تکالیف کو بھلا کر فتح کا جشن منانے سڑکوں پر نکل آئے، ہزاروں شہداء اور غزہ کی تباہ کاری کے باوجود ان حریت پسندوں کی خوشی اور جشن یہ واضح کر رہا تھا کہ لگ بھگ سوا سال تک امریکہ اور دیگر استعماری طاقتوں کی مکمل سپورٹ کے باوجود اسرائیل فلسطینی عوام اور مجاہدین کو شکست نہ دے سکا، صیہونی ریاست اپنے ان عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکی، جس کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ آزادی قدس و غزہ کی اس جنگ میں ایک ایسی عظیم ہستی کے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا، جس کو ’’سید مقاومت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، اس جنگ میں سید حسن نصراللہ کی شہادت امت مسلمہ کا مشترکہ نقصان ثابت ہوا، شہید سید کی جدائی کا غم لبنان سمیت پوری امت مسلمہ بشمول فلسطینیوں کیلئے بھی ناقابل برادشت ہے۔ مزید احوال اس ویڈیو رپورٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.

youtube.com/c/IslamtimesurOfficial

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ کی

پڑھیں:

مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود

العھد نیوز ویب سے اپنی ایک گفتگو میں سابق لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ کیا یہ عاقلانہ اقدام ہے کہ ہم ایسے حالات میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی بات کریں جب دشمن نے گزشتہ مہینوں میں طے پانے والے معاہدے کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی؟۔ اسلام ٹائمز۔ سابق لبنانی صدر "امیل لحود" نے "العھد" نیوز ویب سے بات چیت میں اسرائیل کے ساتھ 33 روزہ جنگ کی سالگرہ پر اپنی عوام کو مبارکباد دی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مقاومت کی چنگاری اب بھی روشن ہے۔ اس سال مذکورہ جنگ کی سالگرہ ایک نئے پہلو کے ساتھ آئی ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ لبنان و خطے کے حالات نے ثابت کیا کہ صیہونی دشمن کو مقاومت کے بغیر روکنا ناممکن ہے۔ انہوں نے استقامتی محاذ کے ہتھیاروں پر جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ عاقلانہ اقدام ہے کہ ہم ایسے حالات میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی بات کریں جب دشمن نے گزشتہ مہینوں میں طے پانے والے معاہدے کی ایک شرط بھی پوری نہیں کی؟۔ امیل لحود نے خبردار کیا کہ کیا اس بات کا یہ حل ہے کہ ہم تمام دفاعی طاقت دشمن کے حوالے کر دیں تاکہ وہ لبنان کو تباہ کر سکے؟۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم نے 33 روزہ جنگ میں اس لیے فتح حاصل کی کیونکہ ہم نے اس دوران فوج، قوم اور مزاحمت کا سنہری فارمولا بنایا۔ یہ فارمولا آج بھی کارآمد ہے اور کل بھی رہے گا۔  

اپنی گفتگو کے اختتام پر سابق صدر نے کہا کہ یہ پہلا سال ہے جب ہم 33 روزہ جنگ کی سالگرہ منا رہے ہیں اور شہید سید حسن نصر الله اپنی روح کے ساتھ ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ قبل ازیں امیل لحود نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک نئی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ تعلقات کی بحالی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔ یہی امر لبنان کے اندر کچھ لوگوں کو جھوٹے خواب میں مبتلا کر رہا ہے۔ حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرارداد 425 ناقص طور پر بھی نافذ نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مزاحمت کو میدان عمل میں کودنا اور طاقت کا توازن تبدیل کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کا کردار جاری رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقاومت نہ ہوتی تو سال 2000ء میں جنوبی علاقوں کی آزادی ممکن نہ ہوتی۔ اب بھی مقبوضہ علاقوں سے دشمن کو مقاومت ہی باہر نکال سکتی ہے۔ امیل لحود نے کہا کہ جو لوگ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں، اُن کا خواب کبھی پورا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود