Express News:
2025-09-18@13:17:03 GMT

افغانستان سے پاکستانی سلامتی کو خطرات

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والا امریکی اسلحہ پاکستان اور اس کے شہریوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث رہا ہے۔ یہ ہتھیار دہشت گرد تنظیموں، بشمول ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ ہم مسلسل کابل میں امر واقعہ حکام سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ تمام ضروری اقدامات کریں تاکہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔

درحقیقت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں جدید ہتھیاروں تک رسائی ایک بڑا خطرہ ہے، یہ جدید ہتھیار اس اسٹاک یعنی ذخیرے سے حاصل کیے گئے ہیں جو غیر ملکی افواج انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑ کر نکلیں۔ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کے دوران کوئی ایسا سامان نہیں چھوڑا جسے دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکیں۔

تاہم، 20 جنوری کو اپنے حلف برداری کے دن واشنگٹن میں ایک ریلی میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’انھوں نے ہمارے فوجی سازوسامان، کا ایک بڑا حصہ، دشمن کو دیا۔‘‘ٹرمپ نے افغانستان کے لیے امداد کو فوجی سازوسامان کی واپسی سے مشروط کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس معاملے پر اپنی انتظامیہ کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے جارہے ہیں تو، انھیں بتائیں کہ جب تک وہ ہمارا فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے ہم انھیں رقم نہیں دیں گے۔‘‘

تاہم، طالبان نے مبینہ طور پر ہتھیاروں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ داعش سے لڑنے کے لیے انھیں مزید جدید ہتھیار فراہم کرے۔پاکستانی فوج گزشتہ دو دہائیوں سے ٹی ٹی پی کے خلاف دہشتگردی کی جنگ لڑ رہی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی دستیاب ہے۔ٹی ٹی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان رجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک تنظیم (ٹی ٹی پی) ان ہتھیاروں تک رسائی کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ پاکستان پہلے ہی اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کی مکمل جانچ کرے کہ یہ ہتھیار کیسے ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگے اور وہ ان کو واپس کرانے کا راستہ تلاش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی افغانستان کی سرزمین پر کئی دہشت گرد گروپ موجود ہیں اور اس بات کے شواہد ہیں کہ انھیں افغانستان کی عبوری حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔

کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظیمیں سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کے تسلسل سے پیش آنے والے واقعات میں ملوث ہیں، جس سے ہمارے عام شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کا قابل ذکر جانی نقصان ہوا ہے جب کہ فوجی اور دیگر تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ حالیہ بیان سے قبل بھی پاکستان عالمی برادری کو خبردارکرچکا ہے کہ افغانستان کے اندر اور اس سے ہونے والی دہشت گردی ملک، خطے اور دنیا کے لیے واحد سنگین خطرہ ہے۔

افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان القاعدہ کے بازو کے طور پر ابھر کر علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے ایجنڈے کے ساتھ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے اپنے چھ ہزار ارکان کے ساتھ ٹی ٹی پی ایک بڑ ا اور مضبوط گروپ ہے جو پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنی محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے دوران ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں نے افغانستان میں تعینات رہنے والی غیر ملکی افواج کی طر ف سے چھوڑے گئے کچھ جدید ہتھیار پکڑے ہیں۔ دہشت گرد گروپ کو بھارت کی طرف سے بیرونی حمایت اور مالی اعانت بھی حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی تیزی سے دوسرے دہشت گرد گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے والی تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے، جس کا مقصد افغانستان کے پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔

ہمارے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان حملوں اور دہشت گرد کارروائیوں میں بہت سے دہشت گرد پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہوجاتے ہیں اور بچے کچھے واپس افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی خود افغان عبوری حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس پر مٹی ڈال کر چھپانے کی کوشش کرنے کی بجائے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو موجودہ افغان حکومت کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

اس طرح ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے افغان عبوری حکومت کی نیک نامی ہوگی اور افغانستان کی ایک ذمے دار ریاست کے طور پر پہچان میں مدد کرے گی اور یہی سمجھنے اور قبول کرنے کا وقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں جو افغانستان میں موجود ہیں ان کے خلاف ٹھوس اور عملی کارروائی کی جائے۔دوسری طرف اس طرح کے دہشت گروہوں کا دوبارہ سر اٹھانا خود افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے،کیونکہ یہ گروہ افغانستان میں امن و استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں خود افغان حکومت بھی اس صورتحال کو بے چینی سے دیکھ رہی ہے۔

افغان عبوری حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ مستقبل میں افغان حکومت اور افغانستان کے لیے بھی سنگین خطرے اور نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ افغان عبوری حکومت کو یہ بات بھی سمجھنی اور تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر ملک اور پڑوسی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کی مدد کی ہے۔

لاکھوں افغان بہن بھائیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی مہمان نوازی کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ بڑی دکھ کی بات ہے کہ افغان حکومت نے اب تک ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی۔ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ، پروپیگنڈا مواد کی تواتر سے ترسیل، مقامی آبادیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں اور سابق علیحدہ ہونے والے گروہوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کالعدم تنظیم دوبارہ بحال ہونے کی کوشش میں کافی آگے بڑھ چکی ہے۔

بلکہ ٹی ٹی پی کے امیر کے بقول وہ زیادہ حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں لیکن ایک حکمت عملی کے تحت محدود کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو واضح طور پر افغان طالبان کا دباؤ ہوسکتا ہے لیکن دوسرا ماضی کی طرح کسی علاقے پر قبضہ حاصل نہ کرنے کی نئی پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔ علاقہ حاصل کرنے کے بعد اس کا دفاع اس سے بھی زیادہ مشکل پہلو بن جاتا ہے۔

پاکستانی طالبان کی اس قسم کی حکمت عملی بیوقوفی ہوگی لہٰذا وہ رفتہ رفتہ ملک اور حکومت کو کمزور کرنے کی حکمت علمی پر زیادہ کاربند ہیں۔ اس میں بھی وہ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کابل میں حکومت کی تبدیلی سے ٹی ٹی پی کو مزید تقویت اور حوصلہ ملا، جس سے حملوں میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں اور سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے سرحد پار حملوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کی۔افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو افغانستان سے باہر کارروائیاں نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود بہت سوں نے ایسا کیا جس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی۔ایک قابل ذکر پیش رفت ٹی ٹی پی کی صفوں میں افغان شہریوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

اہم پہلو یہ تھا کہ جس کی پاکستان بھی بارہا شکایت کر چکا ہے کہ افغان طالبان کے ارکان نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور انھیں مدد فراہم کی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ بڑی تعداد میں افغان طالبان اپنے ملک میں لڑائی کے خاتمے کے بعد سرحد پار متوجہ ہوئے ہیں۔ ان کے لیے بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھائیں۔

افغان عبوری حکومت’’دوحہ معاہدے‘‘ کے اپنے اس دعوے کو پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ دونوں ممالک کے ماحول اور ترقی کے مفادات کی طرح سیکیورٹی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک میں امن واستحکام دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ انکار کے بجائے افغان عبوری حکومت کو سرحدی ریاستوں کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ افغان طالبان حکومت اس پر غور کرے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں دہشت گرد گروپ افغانستان کے افغان طالبان دہشت گردی کے افغان حکومت جدید ہتھیار ہے کہ افغان سے ٹی ٹی پی سے پاکستان ٹی ٹی پی کی میں اضافہ ان کے لیے حکومت کو سرحد پار کے ساتھ خطرہ ہے کرنے کی رہی ہے ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہ سب سے بڑا خطرہ، پاکستان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے اندر مبینہ پناہ گاہوں سے سرگرم دہشت گرد گروہ اس کی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس نے اسی کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ ان نیٹ ورکس، جو فزیکل اور ڈیجیٹل دونوں پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں، کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مزید مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق منگل کو افغانستان سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد نے کہا کہ القاعدہ، داعش-خراسان، ٹی ٹی پی، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور بلوچ عسکریت پسند گروہ جیسے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ اب بھی سرحد پار سے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس ان گروہوں کے درمیان تعاون کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحے کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ دینا اور مربوط حملے شامل ہیں۔‘‘

ان کے مطابق 60 سے زائد دہشت گرد کیمپ دراندازی کے مراکز کے طور پر کام کر رہے ہیں، جو پاکستان میں شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی تعاون ضروری

پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ خطرہ سائبر اسپیس تک بھی پھیلا ہوا ہے، جہاں تقریباً 70 پراپیگنڈہ اکاؤنٹس، جو افغان آئی پی ایڈریسز سے منسلک ہیں، انتہا پسندانہ پیغامات پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ''ان نیٹ ورکس پر قابو پانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا حکومتوں کے ساتھ مکمل تعاون ضروری ہے۔

‘‘

عاصم افتخار احمد نے بتایا کہ پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر سلامتی کونسل کی پابندیوں والی کمیٹی سے درخواست کی ہے کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کونسل فوری کارروائی کرے۔

انہوں نے ٹی ٹی پی کی طرف بھی اشارہ کیا، اسے افغان سرزمین پر سب سے بڑی اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تنظیم قرار دیا، جس کے قریب 6 ہزار جنگجو ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان نے متعدد دراندازی کی کوششوں کو ناکام بنایا اور وہ جدید فوجی سازوسامان قبضے میں لیا جو افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے دوران چھوڑا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، "دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہیں … صرف اسی ماہ ایک ہی واقعے میں 12 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔

افغانستان اب بھی متعدد مسائل سے دوچار

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان کی چار سالہ حکمرانی نے دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کا خاتمہ کیا، لیکن ملک اب بھی پابندیوں، غربت، منشیات اور انسانی حقوق کے مسائل میں جکڑا ہوا ہے۔

انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اقوام متحدہ کے 2025 کے'ہیومینٹیرین نیڈز اینڈ ریسپانس پلان‘ کو مطلوبہ 2.42 ارب ڈالر میں سے صرف 27 فیصد فنڈز ملے ہیں۔

انہوں نے کونسل کو یاد دلایا کہ پاکستان نے، ناکافی بین الاقوامی امداد کے باوجود چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے. عاصم افتخار
  • افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہ سب سے بڑا خطرہ، پاکستان
  • افغانستان سے جنم لینے والی دہشتگردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے سب سے سنگین خطرہ ہے: عاصم افتخار احمد
  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، عاصم افتخار
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے ، عاصم افتخار
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام