پاکستان میں افغان مہاجرین کے حقوق: حقیقت یا افسانہ؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد: پاکستان کی غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسی عالمی اصولوں کے مطابق ہے اور اس کا مقصد ملک کی سلامتی، معیشت اور خودمختاری کو یقینی بنانا ہے۔ کوئی بھی ملک غیر معینہ مدت تک غیر قانونی تارکین وطن کی میزبانی کرنے کا پابند نہیں ہو سکتا، اور پاکستان نے اسی تناظر میں قانونی اور منصفانہ اقدامات کیے ہیں۔
پاکستان کا غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کا حق ایک خودمختار حق ہے، جو کہ سیکیورٹی خطرات، معاشی تناؤ اور قانونی نظام کی مضبوطی کے پیش نظر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی پر پاکستان کو غیر ضروری اور غیر متناسب تنقید کا سامنا ہے، حالانکہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بھی اپنے قومی مفادات اور سلامتی کے لیے اسی طرح کی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں۔ خاص طور پر، امریکی حکومت نے اپنے نئے انتظامیہ میں ہزاروں افراد کو قومی سلامتی کے خدشات کے تحت ملک بدر کر دیا ہے، لیکن پاکستان کو اسی نوعیت کی پالیسی پر تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان کی افغان مہاجرین کی میزبانی میں دہائیوں سے جاری فراخدلی کو نظرانداز کیا جاتا ہے، حالانکہ پاکستان نے کبھی بھی قانونی طور پر پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے یا قانون سازی کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھائی۔ 1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہ ہونے کے باوجود، پاکستان نے افغان شہریوں کو خیر سگالی کی بنیاد پر پناہ دی ہے۔
مزید یہ کہ، یو این ایچ سی آر نے پاکستان کی اجازت کے بغیر ہزاروں پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا، جس سے پاکستان کی خودمختاری متاثر ہوئی۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے بین الاقوامی ادارے بھی اس عمل میں رکاوٹ بنے ہیں، جس سے غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ ان عالمی اداروں کے انسانی حقوق کے واچ ڈاگ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے باوجود، وہ خود افغان مہاجرین کی ذمہ داری لینے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر مغرب کو حقیقت میں افغانوں کے بارے میں فکر ہے، تو اسے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان تنہا ان بوجھ کو نہیں اٹھا سکتا۔
پاکستان کے حفاظتی اقدامات افغان مہاجرین کے خلاف دشمنی نہیں بلکہ ضرورت ہیں، جیسا کہ کراچی میں 30 جنوری 2025 کو 225 افغان افراد کو سٹریٹ کرائمز کے الزام میں گرفتار کیے جانے اور پشاور میں جرائم میں 30% اضافے جیسے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، پشاور کے کریک ڈاؤن میں 352 افغان مجرموں کی گرفتاری اور ژوب میں ایک افغان عسکریت پسند کی ہلاکت جیسے واقعات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے داخلی تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین پاکستان کی
پڑھیں:
فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
پاکستان اور افغانستان کے مابین استنبول میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے بھرپور مذاکرات کے بعد اب اس خطے میں دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں کی نظریں 6 نومبر پر ہیں، جب دونوں ممالک کے متعلقہ وفود سیز فائر کا مستقبل طے کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہوں گے۔
لیکن 6 نومبر سے تین روز قبل 3 نومبر کو افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودہری نے واضح کر دیا ہے کہ ان مذاکرات کی اگلی نشست میں فیصلہ جو بھی ہو پاکستان سے دہشت گردی کو اب ختم ہونا ہو گا اور پاکستان اس کے لیے ہر حد تک جائے گا۔
احمد شریف چودہری نے تمام ابہام دور کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے کہ افغانستان سے حالیہ مذاکرات کا ایک ہی نقطہ ہے کہ اس سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی رکنی چاہیئے اور اس کو یقینی بنانے کے لئے نگرانی کا ایک نظام قائم کیا جانا چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پہلی مرتبہ پاکستان میں دہشت گردی کے میکانزم کو بھی بے نقاب کیا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منشیات کے تاجر اور ان کے سرپرست مقامی سیاستدان اس ناجائز کاروبار کی حفاظت کے لیے دہشت گردوں کی مدد لیتے ہیں اور بدلے میں اس کا حصہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان تک پہنچاتے ہیں، لیکن پاکستان اب اس طرح کی سرگرمیاں برداشت نہیں کرے گا۔
ان کھلم کھلا اعلانات کے بعد اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ افغان طالبان، ان کی طفیلی ٹی ٹی پی یا پاکستان کا ازلی دشمن انڈیا پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رکھ سکے۔ اب یا تو افغان طالبان کو ازخود اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا یا پھر پاکستان کے غیض و غضب کا سامنا کرنا ہو گاکیونکہ پاکستانی حکام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہاں سے ہونے والی کسی بھی دہشت گرد کاروائی کا مطلب جنگ بندی معاہدے کا خاتمہ ہو گا۔
لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کمانڈروں کو بچانے کے لیے افغانستان کے شہری علاقوں اور گلی محلوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اول تو انسانی شیلڈ استعمال کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو عام لوگوں میں چھپا دیا جائے یا پھر اگر پاکستانی فورسز ان تک پہنچ جائیں تو یہ واویلا کیا جائے کہ پاکستان نے عام لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔
مگر وقت اب ختم ہو چکا ہے۔ اب افغان طالبان جو بھی کوشش کریں وہ یقینی طور پر ناکام ہی ہو گی کیونکہ پاکستان نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب امن بھیک سے نہیں چھین کر حاصل کیا جائے گا۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا، کچھ ماہ پہلے تک پاکستان تمام ہمسائیوں سے انتہائی خوش اخلاقی سے یہ درخواست کررہا تھا کہ پاکستان میں دراندازی بند کی جائے اور دہشت گردی کی پراکسی جنگوں کا خاتمہ کیا جائے لیکن ہمارے مشرقی اور مغربی ہمسایوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
پھر پاکستان کی اعلی قیادت نے خوش اخلاقی اور بہترین ہمسائیگی کی قبا کو ایک طرف رکھا اور اپنے دشمنوں سے انہی کی زبان میں بات کرنے کی حکمت عملی اختیار کی، پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ [سخت ریاست] میں تبدیل کیا۔
رواں سال مئی میں پوری دنیا نے دیکھا کہ رویے میں اس تبدیلی نے ہمارے دشمن کو میدان جنگ سے بھاگنے پر کیسے مجبور کیا۔
اور پھر اکتوبر میں دہشت گردوں کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی سے دہشت گردی کا منبع ابھی تک لرز رہا ہے اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے اپنی معیشت چلانے والے اس انسانیت سوز رجیم کے سوداگر طالبان وقت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
مگر اب ان کے ہاتھ امن کے سوا کچھ نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان نے اپنے بین الااقوامی دوستوں اور اس معاملے کے ثالثین پر بھی واضح کر دیا ہے کہ اب اس معاملے پر مزید سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور یہ ختم ہو کر رہے گا کیوں نہ اس کے لیے طالبان رجیم کو گھر جانا پڑے۔
سو یہ تو طے ہے کہ اب پاکستان نے افغان رجیم کو ہر صورت امن یقینی بنانے کے لیے مجبور کر دینا ہے، لیکن پاکستان کے لیے یہ جنگ اتنی جلدی ختم نہیں ہونے والی۔
افغانستان کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے والے مقامی، علاقائی اور بین الااقوامی کھلاڑیوں نے اپنی دہائیوں کی مہم جوئیوں میں افغان عوام کو پاکستان کے خلاف کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات بونے میں کئی پاکستانی حکمرانوں کا بھی بڑا کردار ہے لیکن وجوہات جو بھی ہوں، پاکستان کو اس محاذ پر بھی ہر حال میں فتح حاصل کرنی ہے۔
پاکستان کے لیے جتنا ضروری اپنے ملک میں امن ہے اتنا ہی ضروری افغان عوام کی حمایت بھی ہے کیونکہ یہ پراکسیز اور جنگوں کی معیشت پر پلنے والی قاتل رجیمیں تو ختم ہو جائیں گی مگر پاکستان اور افغانستان کے عوام نے ہمیشہ ساتھ رہنا ہے اور یہ جتنے اچھے طریقے سے رہیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ اس لیے پاکستان کو یہ حالات بنانے کے لیے ایک سافٹ سٹیٹ [نرم دل ریاست] کا روپ بھی ضرور دھارنا ہے۔
ضرورت یہ ہے کہ پاکستان جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم اور اس کے سرپرستوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک شاندار حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے وہاں اس کے متوازی ایک ایسی حکمت عملی تیار کرے جو افغان عوام کو پاکستان کے قریب لانے کے نکات پر مبنی ہو، کیونکہ دونوں ممالک کے عوام نے ہمیشہ ساتھ رہنا ہے اور ان کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔
ہمیں ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی جو نہ صرف افغانستان کو ہمارے دشمنوں کے شکنجوں سے آزاد کرائے بلکہ افغان عوام کو ان دشمنوں کی زہریلی چالوں سے بھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں