پولیس افسروں کے جائز ناجائز تبادلے
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
پنجاب حکومت کے اس عمل کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی دور بْزدار یا دور بْودار کی طرح روزانہ تھوک کے حساب سے تبادلے اب نہیں ہوتے، اْس دور میں تقرریاں و تبادلے باقاعدہ ایک ’’کاروبار‘‘ بن گیا تھا، فیلڈ میں مالی اعتبار سے ہر اچھی تقرری کا ایک ریٹ مقرر ہوتا تھا، بیشمار واقعات کا میں گواہ ہوں جن کی بنیاد پر میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں عمران خان اپنے وزیراعلیٰ پنجاب بزدار کی کرپشن کہانیوں سے بخوبی واقف تھے، اللہ جانے کون سی ایسی مجبوری تھی بزدار کی کرپشن کہانیوں کا کوئی نوٹس نہ لے کر وہ اپنے ایماندارہونے کا تاثر بھی گنوا بیٹھے، اْن کے دور میں پنجاب کا وزیراعلیٰ ہاؤس باقاعدہ ایک ’’نیلام گھر‘‘ تھا جہاں ہر اچھی پوسٹنگ کی ’’ بولی‘‘ لگتی تھی، شْکرہے یہ سلسلہ اب تقریباً ختم ہوگیا ہے، دیگر کچھ معاملات میں ہم وزیراعلیٰ مریم نواز کی تعریف کرنے کی ابھی پوزیشن میں نہیں، سوائے اس کے اب پوسٹنگ ٹرانسفرز میں کچھ نہ کچھ خیال میرٹ کا بھی رکھ لیا جاتا ہے، گزشتہ روز انتہائی مشکوک سرگرمیوں کے حامل سی پی او فیصل آباد ناکامران ناعادل کو بھی اْنہوں نے تبدیل کر دیا ہے، اس نکمے افسر کو شکر ادا کرنا چاہئے وہ پی ایس پی ہے ورنہ فیصل آباد کے ایک تھانے میں پانچ افراد کے قتل کے واقعے کی نااہلی پر اْس کا صرف تبادلہ نہیں معطلی بلکہ برطرفی بنتی تھی، وہ جہاں بھی گیا نااہلی کی ایسی داستاں چھوڑ آیا اْس کے بعد آنے والوں کو معاملات درست کرنے کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو نئے سی پی او فیصل آباد کو بھی اب کرنا پڑے گا، اس ماہ کی آخری تاریخوں میں تبادلہ بھی اْس کے لئے باعث پریشانی ہوگا کیونکہ ہر ماہ پہلے ہفتے میں تنخواہ کے علاوہ جو کچھ اْسے ملتا تھا اْس سے وہ اب محروم رہے گا، اپنی ’’غربت‘‘ اللہ جانے کب تک مٹانے میں وہ لگا رہے گا ؟ یعنی کب تک اپنے محکمے کا بیڑا غرق کرنے میں وہ لگا رہے گا ؟ ایسے نااہل افسران کو فیلڈ پوسٹنگ کے لئے مستقل طور پر نااہل قرار دے دینا چاہئے، پولیس بینڈ کا کوئی ڈی آئی جی ہوتا اس عہدے کا سب سے زیادہ مستحق یہ سابقہ سی پی او فیصل آباد ہوتا، فیصل آباد میں اْس کی تعیناتی صرف اس حوالے سے یاد رکھی جائے گی جرائم پیشہ افراد کی وہ مہمان نوازی کرتا رہا اْنہیں شیلڈیں پیش کرتا رہا اور اْن مشکوک صحافیوں کے ساتھ تصاویر بنوانے کا اعزاز حاصل کرتا رہا جو اْس کی ماتحت پولیس کو تھانوں کے اندر بیٹھ کر گالیاں بکتے تھے، اس نکمے پولیس افسر نے ثابت کر دیا پولیس اور جرائم پیشہ افراد کا چولی دامن کا ساتھ ہے، البتہ آر پی او فیصل آباد ڈاکٹر محمد عابد خان کے تبادلے پر مجھے حیرت ہوئی، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا ’’ایک انتہائی ایماندار اور شاندار پولیس افسر ڈاکٹر محمد عابد خان کو اپنے نکمے سی پی او کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنا چاہئے ورنہ وہ اپنے ساتھ اْنہیں بھی لے ڈوبے گا‘‘، سو وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا، جس روز یہ کالم شائع ہوا اْسی روز تقرریوں تبادلوں کے اصل مرکز کی جانب سے مجھے بتا دیا گیا تھا اگلے ہفتے سی پی او فیصل آباد کو تبدیل کر دیا جائے گا، آر پی او فیصل آباد ڈاکٹر محمد عابد خان کی تبدیلی کا کوئی جواز نہیں تھا، مجھے یقین ہے حکومت پنجاب اپنی اس زیادتی کا جلد ازالہ کرے گی، اعلیٰ کردار کے حامل ایسے نیک دل اور خدا ترس پولیس افسر ہمیشہ حکمرانوں کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں اْنہیں ضائع نہیں کرنا چاہئے، یہاں مجھے ملتان پولیس کا ذکر کرنا ہے، آر پی او ملتان کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چودھری اور سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر کی بہترین کوآرڈی نیشن سے ملتان میں جرائم کے خاتمے کی جدوجہد کافی حد تک کامیاب ہو رہی ہیں، ملتان میں پولیس کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کے روزانہ کئی واقعات میرے نوٹس میں آتے ہیں، کسی روز ان کی تفصیلات بھی عرض کروں گا، گزشتہ ہفتے اعلیٰ کارکردگی پر جن ڈی پی اوز اور سی پی اوز کو حکومت پنجاب نے دو ماہ کی تنخواہ کے برابر کیش انعام دیا سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر بھی اْن میں شامل ہیں، وہ اسی محنت اور لگن سے کام کرتے رہے مجھے یقین ہے اگلی بار اعلیٰ کارکردگی پر اْن کا ضلع پانچویں نمبر سے پہلے نمبر پر آئے گا، تیسرے نمبر پر شاید ساہیوال آیا ہے جہاں سے انتہائی اعلیٰ روایات کے حامل ڈی پی او فیصل شہزاد حال ہی میں تبدیل ہو کر ڈی پی او سیالکوٹ لگے ہیں، اللہ کرے اْن کی نفاست کی خوشبو سیالکوٹ میں بھی اْسی طرح پھیلے جیسے اس سے پہلے ساہیوال، اوکاڑہ اور ننکانہ صاحب میں پھیلی تھی، حال ہی میں وزیراعلیٰ مریم نواز کے ایڈیشنل سیکریٹری لائاینڈ آرڈر محمد ذیشان رضا کو تبدیل کر کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور لگایا گیا ہے، گو کہ مجھے اس پر شدید اعتراض ہے بیشمار سینئر پولیس افسروں کی موجودگی میں جونیئر افسروں کو سینئر عہدوں پر کیوں لگایا جاتاہے مگر ذیشان رضا کی عمومی شہرت اچھی ہے، وہ جب ڈی پی او سیالکوٹ تھے ایک دو بار مظلوم لوگوں کی مدد کے لئے میں نے اْن سے گزارش کی اْنہوں نے فوری نوٹس لیا، اللہ کرے بطور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن مظلوموں کی مدد کرنے کی اپنی روایات کو وہ برقرار رکھ سکیں اور اْس گریس کو بھی برقرار رکھ سکیں جو اْن سے پہلے ذیشان اصغر نے بطور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن رکھی ہوئی تھی اور ذیشان اصغر سے پہلے دو ڈی آئی جیز نے تباہ کی ہوئی تھی، ذیشان رضا کی خوش قسمتی ہے محمد نوید جیسے اعلیٰ کردار کے حامل انتہائی محنتی ایس ایس پی اْنہیں میسر ہیں، اب وزیراعلیٰ ہاؤس میں بطور ایڈیشنل سیکریٹری لاء اینڈ آرڈر سیف انور جپہ کو تعینات کیا گیا ہے، وہ بھی کمال کے افسر ہیں، اْن کا تعلق افسروں کی ایک عظیم فیملی سے ہے، جہاں بھی رہے خدمت اور محبت کے چراغ روشن کرنے میں مگن رہے، جہاں تک لاہور میں کرائم کی شرح کم ہونے کا تعلق ہے یہ خبر اگر واقعی درست ہے اس کا مطلب ہے ایک اعلیٰ آپریشنی پولیس افسر اب اپنی توجہ لیڈی کانسٹیبلوں اور مختلف اقسام کی نشہ آوریوں سے ہٹا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ واقعی اس عہدے کا حقدار تھا، ممکن ہے اب پنڈی میں خود سے جْڑی قبضے کی مشہور و معروف داستان کا لاہور میں کوئی قبضہ نہ کرا کر تھوڑا بہت وہ ازالہ بھی کردے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سی پی او فیصل ا باد پولیس افسر ڈی ا ئی جی ڈی پی او کے حامل سے پہلے ا نہیں کے لئے
پڑھیں:
ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق اہم سماعت، بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جہاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ پہلے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اپنے دلائل مکمل کریں۔
یہ بھی پڑھیں:ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل پر شاید جواب الجواب دینا پڑے، اس لیے بانی پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل کے بعد دلائل دیں۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1955 میں پاکستان کے گورنر جنرل کے آرڈر سے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا۔ اس وقت تمام ہائیکورٹس کے سطح کی عدالتوں کو یکجا کر کے ایک عدالت بنایا گیا، تاہم ججز کی سابقہ سروس کو برقرار رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری کی تاریخ کی بنیاد پر ایک سینیارٹی لسٹ مرتب کی گئی۔ 1970 میں ون یونٹ کے خاتمے پر ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں منتقل کیا گیا اور ان کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔
مزید دلائل دیتے ہوئے امجد پرویز نے کہا کہ 1976 میں سندھ اور بلوچستان کی ہائیکورٹس کو علیحدہ کیا گیا اور اس موقع پر بھی ججز کو ٹرانسفر کرتے ہوئے ان کی سینیارٹی برقرار رکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:‘ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی’، سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس کی سماعت
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں صورتحال مختلف ہے، کیونکہ ون یونٹ پر نئی عدالتی تشکیل ہوئی تھی اور اس کی تحلیل پر بھی نئی ہائیکورٹس وجود میں آئیں، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر کوئی نئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی۔
امجد پرویز نے کہا کہ ان کا مؤقف صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ہمیشہ ججز کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے مثال دی کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے لیے اسپیشل کورٹ تشکیل دی گئی تھی جس میں پانچ ہائیکورٹس کے ججز کے ناموں میں سے تین کو عدالت کا جج بنایا گیا اور ان میں سے سینئر موسٹ جج کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے تحت اسپیشل کورٹ میں ججز مخصوص مدت کے لیے تعینات ہوتے ہیں، تاہم یہاں معاملہ یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہوگا یا عارضی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ججز کا تبادلہ مستقل کیا گیا ہے۔
امجد پرویز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ ٹرانسفر کیے گئے جج کی مدتِ تعیناتی پر بھی دلائل دیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اٹارنی جنرل امجد پرویز ججز سنیارٹی کیس جسٹس نعیم اختر افغان عمران خان