UrduPoint:
2025-07-26@15:04:11 GMT

مزید تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

مزید تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 فروری 2025ء) فلسطینی گروپ حماس نے ہفتہ یکم فروری کے روز تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے۔ یوں انیس جنوری کو جنگ بندی پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد سے اب تک اٹھارہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جا چکا ہے جب کہ اس کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید چار سو فلسطینیوں کو بھی رہا کیا گیا۔

جنگ بندی ڈیل کے تحت مزید تین یرغمالیوں کی رہائی ہفتے کو

حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری

حماس کا اسرائیل پر غزہ کو امداد کی ترسیل میں تاخیر کا الزام

فرانس اور اسرائیل کی دوہری شہریت کے حامل اوفر کالدیرون اور یارڈن بیباس کو جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا جبکہ اسرائیلی اور امریکی شہری کیتھ سیگل کو بعد ازاں غزہ سٹی کی بندرگاہ پر رہا کیا گیا۔

(جاری ہے)

دریں اثناء ہفتے ہی کے روز اسرائیلی حکام 182 فلسطینیوں کو رہا کر رہے ہیں۔ بقیہ یرغمالیوں کی رہائی اور مذاکرات کا اگلا دور

باقی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور ان کی واپسی پر مذاکرات آئندہ ہفتے منگل کو شروع ہونے والے ہیں۔ مذاکرات کے اس دور یعنی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی پر بھی تبادلہ خیال ہونا ہے۔

جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران 33 یرغمالیوں کو رہا کیا جانا ہے، جن میں بچے، خواتین، بوڑھے مرد اور بیمار اور زخمی افراد شامل ہیں۔ 60 سے زائد مردوں کی رہائی دوسرے مرحلے میں ہونی ہے، جس پر مذاکرات ہونا ابھی باقی ہیں۔

ابتدائی چھ ہفتوں پر محیط جنگ بندی کی شرائط پر اب تک مجموعی طور پر عملدرآمد ہو رہا ہے، گو کہ کئی چھوٹے واقعات پیش آئے ہیں، جن کا الزام فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔

جنگ کا پس منظر اور جنگ بندی معاہدہ

سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر فلسطینی گروپ حماس نے دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں 1,208 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس کے جنگجو ڈھائی سو کے قریب اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر بھی لے گئے تھے اور ان میں سے درجنوں اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔ یورپی یونین، امریکا اور چند دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

اس کے رد عمل میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں میں غزہ میں تقریباﹰ 47,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد مصر اور قطر کی ثالثی میں اور امریکی حمایت سے عارضی جنگ بندی معاہدہ طے پایا، جس کا اس وقت پہلا مرحلہ چل رہا ہے۔

ع س / ع ت / ع آ (روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی یرغمالیوں یرغمالیوں کی رہائی رہا کیا کو رہا

پڑھیں:

جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟

فرانس کی ایک جیل میں 41 سال سے قید کاٹنے والے لبنانی استاد اور انقلابی کارکن جارج عبداللہ آخرکار آب بروز جمعہ رہائی پانے جا رہے ہیں۔ ان کی رہائی نہ صرف انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ایک فتح تصور کی جا رہی ہے بلکہ یہ فلسطینی کاز سے وابستگی اور نظریاتی مزاحمت کی ایک غیر معمولی مثال بھی ہے۔

 پس منظر: ایک استاد سے انقلابی بننے تک

جارج ابراہیم عبداللہ 1951 میں شمالی لبنان میں ایک مسیحی مارونی خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1970 کی دہائی میں وہ مارکسسٹ انقلابی نظریے سے متاثر ہوئے، اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہو گئے۔

لبنان میں جاری خانہ جنگی، فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے، اور 1982 کے صبرا و شتیلا قتلِ عام جیسے واقعات نے عبداللہ کو عملی مزاحمت کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے ایک زیرِ زمین انقلابی تنظیم Lebanese Armed Revolutionary Factions (LARF) قائم کی، جس کا مقصد اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف یورپ میں کارروائیاں کرنا تھا۔

 فرانس میں حملے اور گرفتاری

LARF نے 1982 میں فرانس میں 2 سفارتی قتل کی ذمہ داری قبول کی:

اسٹراسبرگ میں امریکی نائب سفیر چارلس رے کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

پیرس میں اسرائیلی سفارتکار یاکوو بارسیمانتوف کو نشانہ بنایا گیا۔

عبداللہ کو 1984 میں فرانس کے شہر لیون سے گرفتار کیا گیا۔ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے نشانے پر سمجھتے تھے، اور اسی خوف کے تحت پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو حوالے کیا۔ ابتدائی طور پر ان پر جعلی پاسپورٹ رکھنے اور مجرمانہ سازش کے الزامات لگائے گئے، لیکن بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے اسلحہ کا ذخیرہ برآمد ہوا، جس میں قتل میں استعمال ہونے والی بندوق بھی شامل تھی۔

سیاسی دباؤ اور انصاف میں تاخیر

1987 میں جارج عبداللہ کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ وہ 1999 سے مشروط رہائی کے اہل تھے، لیکن ان کی 11 سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔ ان کی رہائی میں امریکا اور اسرائیل کے دباؤ کو مرکزی رکاوٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

2013 میں فرانسیسی عدالت نے ایک موقع پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی تھی، لیکن اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فرانسیسی حکومت کو خط لکھ کر عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی سفارش کی۔
یہ خط بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آیا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے بعد ازاں ان کی رہائی کے لیے درکار اخراجی حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

 زندگی، نظریہ اور جیل میں مزاحمت

عبداللہ نے حالیہ دنوں میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی ذہنی حالت کو فلسطینی مزاحمت سے وابستہ رکھ کر سنبھالے رکھا۔ ان کی جیل کی کوٹھری میں چی گویرا کی تصویر، دنیا بھر سے حامیوں کی ارسال کردہ کارڈز اور خطوط، اور روزانہ کے اخبارات کا ایک ڈھیر موجود تھا۔

ان کا کہنا ہے ’اگر میرے پاس جدوجہد کا جذبہ نہ ہوتا، تو شاید میں پاگل ہو چکا ہوتا۔ ‘

وہ آج بھی خود کو مارکسسٹ لیننسٹ نظریات سے وابستہ قرار دیتے ہیں، اور ان کے حامی ہر سال ان کی جیل کے باہر مظاہرہ کرتے رہے۔ فرانس کے 3 بائیں بازو کے زیرِ انتظام بلدیاتی اداروں نے انہیں ‘اعزازی شہری’ بھی قرار دیا۔

 عدالتی فیصلہ اور رہائی کا حکم

2025 میں ایک تازہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جارج عبداللہ کی قید کی مدت اب ’غیر متناسب‘ ہے، اور وہ اب مزید خطرہ نہیں سمجھے جاتے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان کی رہائی کے فوراً بعد انہیں فرانس سے بے دخل کر کے لبنان بھیجا جائے گا۔

80 کی دہائی میں جارج عبداللہ دو فرانسیسی پولیس اہلکاروں کے درمیان کمرہ عدالت میں موجود  سیاسی، قانونی اور اخلاقی اثرات

عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے کہا:

’یہ ایک قانونی فتح ضرور ہے، لیکن یہ فرانس کی ریاستی ناانصافی اور امریکی دباؤ کے تحت انصاف کی پامالی کا بھی ایک ثبوت ہے۔‘

نوبیل انعام یافتہ ادیبہ انی ارنو نے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی اور انہیں ’ریاستی ظلم کا نشانہ‘ قرار دیا۔

فرانسیسی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ایو بونے نے تو یہاں تک کہا کہ جارج عبداللہ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو کسی قاتلِ مسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ امریکا ان کی رہائی کو روکنے میں جنونی حد تک شامل رہا۔

 ایک تاریخی نظیر

فرانسیسی اخبار Le Monde کے مطابق، اسرائیل میں سزائے عمر قید پانے والا کوئی بھی فلسطینی قیدی 40 سال سے زیادہ قید میں نہیں رہا — مگر جارج عبداللہ نے 41 سال قید کاٹی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جارج عبداللہ صرف ایک قیدی نہیں، وہ مزاحمت، نظریے اور انصاف کے لیے جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔ اُن کی رہائی، چاہے جتنی تاخیر سے ہو، عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا لمحہ ہے — اور فرانس جیسے جمہوری ملک کے انصاف اور آزادی کے دعوؤں پر ایک سوالیہ نشان۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جارج عبداللہ فرانس فلسطین لبنان

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں صیہونی فورسز کی بربریت جاری، مزید 80 فلسطینی شہید
  • حماس کو ’شکار کیا جائے گا‘، ٹرمپ وحشیانہ دھمکیوں پر اتر آئے
  • غزہ میں تشدد اور انسانی بحران شدت اختیار کرگیا، مزید 80 فلسطینی شہید
  • جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
  • غزہ میں مزید 10 افراد بھوک و پیاس سے شہید، شہداء میں 80 بچے شامل
  • حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کی درخواست منظور، خبر ایجنسی