چینی مصنوعات پر امریکی ٹیرف کے جواب میں عالمی برادری نے چین کے جوابی اقدامات کی حمایت کردی
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
بیجنگ :
چند روز قبل امریکہ نے چینی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد چین کے جوابی اقدامات کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی چین نے ڈبلیو ٹی او میں امریکہ کے ٹیرف اقدامات کے خلاف مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔
بین الاقوامی رائے عامہ کی نظر میں چین کے جوابی اقدامات نہ صرف اپنے جائز حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے چین کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ڈبلیو ٹی او کے اختیار کا بھی احترام کرتے ہیں جو کثیر الجہتی تجارتی نظام کے تحفظ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ادارہ ہے۔ اس سے امریکہ کو ایک واضح پیغام بھی ملتا ہے کہ چین مساوات اور باہمی فائدے پر مبنی تبادلوں کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن یکطرفہ پابندی اور جبر کے جواب میں چین اپنے ترقی کے حق کاتحفظ ضرور کرے گا ۔چین کا ماننا ہے کہ طاقت کے بجائے اصول و قواعد کا احترام کیا جانا چاہیئے۔
10 فروری 2025 سے چین امریکہ سے درآمد ہونے والے کوئلے اور مائع قدرتی گیس پر 15 فیصد اور خام تیل، زرعی مشینری، بڑی انجن والی گاڑیوں اور پک اپ ٹرکس پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کرے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کے جوابی اقدامات درست اور مؤثر ہیں۔
دنیا میں توانائی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ معیشت کو فروغ دینے کے لیے ایل این جی کو تیزی سے فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور چین امریکہ کے لیے ایک اہم مارکیٹ ہے۔ امریکی ایل این جی پر اضافی محصولات کے چین پر اثرات بہت کم ہیں لیکن امریکی منصوبے پر اس کے اثرات نمایاں ہیں۔
ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق، 2018 کی تجارتی جنگ میں امریکی صارفین کو 40 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا اور 2 لاکھ 45 ہزار ملازمتیں ختم ہوئیں۔ چین کے خلاف تجارتی غنڈہ گردی اور ناکہ بندی کے بعد ، امریکہ نہ صرف مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے یا تجارتی خسارے کو کم کرنے میں ناکام رہا ، بلکہ اس نے اہم غیر ملکی منڈیوں کو بھی کھو دیا ۔ امریکہ کو اپنے اقدامات کی وجہ سے اپنی ساکھ کو بھی کھونا پڑا اور اس نے افراط زر کے مسائل کا سامنا بھی کیا۔ساتھ ہی اس نے سپلائی چین سسٹم کی لاگت کو بھی بڑھادیا۔یہی وجہ ہے کہ یورپی رہنماؤں سمیت بین الاقوامی شخصیات نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی ٹیرف کی یہ نئی جنگ ‘احمقانہ’ ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
چینی قیادت سے ملاقاتیں: فوجی تعاون کو وسعت دینگے، فیلڈ مارشل: حمایت پر شکریہ ادا کیا
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کا سرکاری دورہ کیا ہے، جہاں اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات کی گہرائی پر اطمینان کا اظہار اور پاک-چین سٹرٹیجک شراکت داری مضبوط کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بیجنگ میں چین کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چین کے نائب صدر ہان ژینگ اور وزیر خارجہ وانگ ژی سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان آہنی دوستی اور سٹرٹیجک شراکت داری کی ازسرِ نو توثیق کی گئی۔ ملاقاتوں میں خطے اور دنیا کی بدلتی سیاسی صورتحال، پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے اور مشترکہ جیوپولیٹیکل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقاتوں میں خودمختاری، کثیرالجہتی تعاون اور طویل مدتی علاقائی استحکام کے عزم کو دہرایا گیا۔ چینی قیادت نے پاکستان کی مسلح افواج کو جنوبی ایشیا میں امن کی ضامن اور ایک مضبوط قوت قرار دیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چین کے نائب چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) جنرل ژانگ یو ژیا، پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے سیاسی کمشنر جنرل چن ہوئی اور پی ایل اے آرمی کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل کائی ژائی جن سے بھی ملاقاتیں کیں۔ پی ایل اے آرمی ہیڈکوارٹرز پہنچنے پر چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جو دونوں مسلح افواج کے درمیان دیرینہ دوستی کی علامت تھا۔ فیلڈ مارشل کی چینی عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں دفاعی و سکیورٹی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کے لیے مشترکہ اقدامات، باہمی تربیت، دفاعی جدیدیت اور ادارہ جاتی روابط کو مزید مضبوط بنانے پر گفتگو کی گئی۔ فریقین نے ہائبرڈ اور سرحد پار خطرات سے نمٹنے کے لیے آپریشنل ہم آہنگی اور سٹرٹیجک تعاون کو بڑھانے پر بھی زور دیا۔ چینی عسکری قیادت نے پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت داری پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے علاقائی امن کے فروغ میں پاکستان کے کلیدی کردار کو سراہا۔ فیلڈ مارشل نے چین کی مستقل حمایت پر شکریہ ادا کیا اور فوجی شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل کا دورہ دونوں برادر ممالک کے درمیان سیاسی و عسکری تعلقات کی بڑھتی ہوئی گہرائی کا عکاس ہے۔ دورہ اس امر کو اجاگر کرتا ہے کہ علاقائی سلامتی کو مستحکم بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے روابط اور مسلسل مشاورت ناگزیر ہے۔