Express News:
2025-07-05@08:53:51 GMT

سماجی خدمات کی روشن مثال پرنس کریم آغا خان رخصت ہوئے

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

شہزادہ کریم آغا خان (پرنس کریم آغا خان 13 دسمبر 1936ء – 4 فروری 2025ء) جنھیں شاہ کریم الحسینی (پرنس کریم الحسینی) یا آغا خان چہارم کے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا گذشتہ روز اٹھاسی (88) برس کی عمر میں پرتگال کے دار الحکومت لزبن میں انتقال کر گئے۔ آپ اسماعیلی مسلمانوں کے سب سے بڑے فرقے نزاریہ اسماعیلیہ (آغا خانیوں) کے اننچاسویں امام تھے۔ انہیں ان کی سماجی خدمات اور ضرورت مند طبقات کی مثالی مالی اعانت کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پرنس کریم آغا خان چہارم13 دسمبر 1936ء کو سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے تھے۔ جب 1957ء میں آغا خان سوم انتقال کر گئے تو پرنس کریم آغا خان کو امام بنایا گیا۔ اہل تشیع کا دوسرا بڑا فرقہ اسماعیلیہ ہے اور اس کی سب سے بڑی شاخ نزاریہ ہے جو تقریباً دو تہائی اسماعیلیوں پر مشتمل ہے۔ اسماعیلیوں کا دوسرا بڑا گروہ بوہرہ جماعت ہے، جن میں امامت کی بجائے داعی مطلق کا سلسلہ ہے۔ اور وہ آغا خان کو امام نہیں مانتے۔

آغا خان چہارم نزاریہ اسماعیلیوں کے اننچاسویں امام تھے۔ ان کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ آغا خان کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں، جو ان کے پیش روؤں کو حاصل تھے۔ ان کی ہدایات کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے اور ان سے انحراف کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لئے لازم ہے کہ وہ امام کی ہدایات پر ہر اعتبار سے عمل کرے اور حرف انکار زبان پر نہ لائے۔ پرنس کریم آغا خان ابھی زیر تعلیم تھے کہ انہیں امامت کے لئے جانشین مقرر کر دیا گیا تھا۔ دراصل اِن کے دادا سر سلطان محمد آغا خان سوئم نے روایت کے برعکس اپنے بیٹے شہزادہ علی خان کی جگہ کریم آغا خان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا، اور پھر اسی زمانے میں محض بیس برس کی عمر میں انہوں نے امامت کی اہم ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔

اس موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کی رسم تاجپوشی کی تقریبات منعقد کی گئیں تھیں۔ کراچی میں ہونے والی تقریب میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیر اعظم فیروز خان نون سمیت اسماعیلی مسلک سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔ امامت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد انہیں کچھ عرصہ اپنا سلسلہ تعلیم منقطع کرنا پڑا لیکن پھر سنہ 1958ء میں انھوں نے اپنے سلسلہ تعلیم کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے گریجوئشن کر لی۔ اس دوران میں انھوں نے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔

 1969 میں پرنس کریم آغا خان نے ایک برطانوی ماڈل ’سیلی کروکر‘ سے شادی کر لی تھی۔ سیلی نے اسلام قبول کر لیا تھا اور شادی کے بعد وہ سلیمہ آغا خان کہلائیں۔ یہ شادی پچیس برس تک قائم رہی جس کے بعد دونوں میں علیدگی ہو گئی ۔ سلیمہ سے پرنس کریم کے تین بچے(دو بیٹے ایک بیٹی): زہرہ آغا خان، (2) رحیم آغا خان، (3) حسین آغا خان پیدا ہوئے۔ اس کے بعد 1998ء میں پرنس کریم نے شہزادی گیبرئیل سے دوسری شادی کی جہنوں نے قبول اسلام کے بعد اِنارا کا نام اختیار کیا جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوئے۔ یہ شادی بھی قائم نہ رہ سکی اور 2014ء میں بیگم انارا کو بھی طلاق دے دی۔

شہزادہ کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کی مالی، معاشی، علمی اور آبادیاتی مد میں مدد کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے۔ ان کا قائم کردہ ادارے کو آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ مرکزی ادارہ بیک وقت کئی ذیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ پرنس کریم آغا خان کو کئی زبانوں میں عبور حاصل تھا۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے تھے، مگر عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے تھے۔ انہیں گھوڑے پالنے کا شوق تھا۔ گھوڑ دوڑ، اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی میں عملی دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ماضی میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکیٹنگ میں اولمپک چمپین کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

آغا خان چہارم شاہ کریم حْسینی نے 20 برس کی عمر میں 11 جولائی 1957ء کو نزاری اسماعیلیوں کے اننچاسویں امام کی حیثیت سے منصب سنبھالا۔ شہزادہ کریم اسماعیلی یا آغا خانی مسلمانوں کے اننچاسویں امام کے منصب پر فائز ہوئے اور آغا خان چہارم کے لقب سے معروف ہو گئے۔

ابتدائی طور پر پرنس کریم آغا خان چہارم نے ریاضی، کیمیسٹری اور جنرل سائنس مضامین میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد انہوں نے اسلامی تاریخ، مختلف اسلامی مکاتب فکر اور تصوف کا گہرا مطالعہ کیا۔ جب انہوں نے امامت کی اہم ذمہ داری سنبھالی تو اسی دوران انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اور اسلامی تاریخ میں بی اے آنرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 58 ۔ 57 19ء میں مسلم دنیا اور دیگر غیر مسلم اقوام کے درمیان دْوری اور غلط فہمیوں کو دور کرنے اور لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں انھوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہی دور ہے جب جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی طور پر کشیدہ ماحول عرْوج پر تھا۔

1972ء میں یوگانڈا کے صدر عیدی امین کی حکومت نے حکم جاری کر دیا تھا کہ جنوبی ایشیا کے باشندے اور نزاری اسماعیلی 90 دن کے اندر یوگانڈا سے نکل جائیں۔ اْس مرحلے پر پرنس کریم آغا خان نے کینیڈا کے وزیر اعظم ’پیری ترودیو‘ سے درخواست کی تھی کہ یوگانڈا سے بے دخل کئے جانے والے تمام خاندانوں کو کینیڈا میں آباد کیا جائے۔ اس درخواست کو کینیڈا کی حکومت نے منظور کر لیا تھا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے اپنے ملک کے دروازے بیدخل کئے جانے والے اسماعیلیوں پر کھول دئیے تھے۔ کینیڈا آج دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

پرنس کریم آغا خان کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کی جانے والی گراں قدر خدمات کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی بنیاد رکھی، جو دنیا کے تقریباً 35 ملکوں میں غربت کے خاتمے اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔

اس نیٹ ورک کے 80000 کارکن مختلف ذیلی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں، جس میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغاخان پلانگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغاخان ایکنومک سروسز، آغاخان ایجنسی فار مائیکروفائینینس، کے علاوہ ’فوکس‘ قابل ذکر ہیں جس کی براہ راست وہ خود نگرانی کرتے تھے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان اور چترال کی ترقی میں پرنس کریم آغا خان کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔ 1960ء میں جب پہلی دفعہ وہ گلگت بلتستان، ہنزہ میں آئے تو انھوں نے خود وہاں کے لوگوں کی حالات زندگی دیکھ کر کافی مایوسی اور پریشانی کا اظہار کیا۔ 1980ء میں آغا خان فاؤنڈیشن نے گلگت بلتستان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سرویسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جنھوں اس علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان خدمات کے اعتراف میں انہیں دنیا بھر سے بے انتہا پذیرائی ملی۔

 کئی ممالک نے انہیں اعزازات سے نوازا۔ 1936ء تا 1957ء آپ کو پرنس (شہزادہ) کریم آغا خان، 1957ء سے اب تک عزت مآب جناب آغا خان چہارم اور 1959ء سے 1979ء تک ’ہز رائل ہائی نس دی آغا خان چہارم کے القاب سے پکارا جاتا تھا۔ 1977ء سے 2009ء تک کی اعداد و شمار کے مطابق دْنیا کے 20 ممالک نے ان کو اپنے قومی اعزازات سے نوازا۔ دْنیا کی 19 بہترین جامعات نے ان کو اعزازی ڈگریوں سے نوازا اور دْنیا کے 21 ممالک نے 48 ایوارڈ ان کی گراں قدر خدمات اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے پر عطا کئے۔ ریاست پاکستان نے انہیں شاندار خدمات پر نشان امتیاز سے بھی نوازا۔  

اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے روحانی پیشوا مولانا شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم پرتگال کے دارلحکومت لزبن میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ گو کہ باقاعدہ طور پر اسماعیلی امامت کے دیوان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں ان کے انتقال کی اطلاع دے دی گئی ہے لیکن انتقال کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ ان کے وقت آخر تینوں بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان، حسین آغا خان اور بیٹی زہرا آغا خان ان کے پاس موجود تھے۔ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ ان کی نماز جنازہ لزبن ہی میں ادا کی جائے تاہم تدفین کے مقام، تاریخ اور وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

پرنس کریم آغا خان کے انتقال کی خبر جاری ہوتے ہی دنیا بھرمیں اسماعیلی جماعت خانوں میں خصوصی دعاوں اور تسبیحات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جو نئے امام کے اعلان تک جاری رہے گا۔ پرنس کریم الحسینی اسماعیلی کمیونٹی کے 49 ویں امام تھے۔ روایات کے مطابق اسماعیلی فرقے کے50 ویں امام کا اعلان ’جن کی نامزدگی پرنس کریم آغا خان نے اپنی وصیت میں کر چکے ہیں‘ پرنس کریم آغا خان کے اہل خانہ اور جماعت کے اہم اراکین کی موجودگی میں لزبن ہی میں کیا جائے گا۔ اسماعیلی عقیدے کے مطابق جماعت امام کے بغیر نہیں ایک لمھہ بھی نہیں رہتی، جیسے ہی امام اس مادی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، ان کی روحانی روشنی ان کے نامزد جانشین کو منتقل ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 1400 برس سے قائم ہے۔ پرنس کریم آغا خان اہل تشیع کے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ سلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسل سے ہیں اور اسی لیے اس کمیونٹی کو اسماعیلی مسلم کہا جاتا ہے۔

پرنس کریم آغا خان کے آباو اجداد صدیوں پہلے ایران میں آباد ہوگئے تھے جہاں سے پھر یہ بھارت ہجرت کر آئے۔ پرنس کریم آغا خان، پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، وہ 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے جبکہ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے لاروزے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

پرنس کریم کو 1957 میں ملکہ برطانیہ نے ہزہائنس کا خطاب دیا تھا وہ ابھی ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں کے شعبے میں زیر تعلیم تھے کہ ان کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے 1300 سالہ تاریخی روایت کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے یعنی پرنس کریم آغا خان کو جانشین مقرر کردیا تھا۔ اس طرح پرنس کریم نے جب 1957 میں امامت سنبھال تو ان کی عمر صرف 20 برس تھی۔

 2006 میں جب برطانیہ کے شہزادہ (اب شہنشاہ)چارلس پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو پرنس کریم کے ساتھ اسکردو بھی گئے تھے۔ برطانیہ کے بادشاہ چارلس کے ساتھ پرنس کریم کے انتہائی قریبی دوستانہ مراسم تھے۔ شہنشاہ چارلس اپنے دوست پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر انتہائی غم زدہ ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انہوں نے پرنس کریم کی وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے اور وہ پرنس کریم کے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں، برطانیہ کے شاہی خاندان سے پرنس کریم کا گہرا تعلق رہا ہے، ولی عہدہ شہزادہ ولیم اور انکی اہلیہ شہزادی کیٹ نے آغاخان سینٹر لندن جاکر پرنس کریم سے ملاقات کی تھی۔

پرنس کریم خاموش سفارت کاری کے حوالے سے بھی ممتاز ہیں۔ مغربی میڈیا میں انہیں ’ون مین اسٹیٹ‘ کے قابل رشک ٹائٹل سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ پرنس کریم آغا خان ہی تھے جنہوں نے امریکا کے سابق صدر رونالڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی جنیوا میں ہونے والی تاریخی ملاقات کو ممکن بنایا تھا۔ پرنس کریم کو برطانیہ اور کینیڈا نے اپنی شہریت دے رکھی تھی لیکن زندگی کا زیادہ تر عرصہ وہ فرانس میں مقیم رہے۔ پرنس کریم ’اسکی انگ‘ کے شوقین تھے اور انہوں نے 1964 میں ونٹر اولمپکس میں بھی حصہ لیا تھا، وہ اعلی ترین نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے بھی دلدادہ تھے اورفرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے۔ ان کا ایک گھوڑے ’شیرگر‘ نے 1981 میں ڈربی ریس میں جو ریکارڈ قائم کیا تھا وہ آج تک نہیں توڑا جا سکا۔

پرنس کریم آغا خان نے اپنی ساری زندگی پسماندہ طبقات کی خدمت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔ صرف 2023 کے ایک سالہ عرصہ میں آغا خان فاونڈیشن نے دنیا کے مختلف حصوں میں سماجی بھلائی کے کاموں کے لئے 58 ملین پاونڈ فراہم کیے۔ امریکی میڈیا کے مطابق پرنس کریم کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب ڈالر سے 13ارب ڈالر کے درمیان ہے جن میں باہاماس کاجزیرہ ،پیرس میں محل، اوردوسوملین ڈالر مالیت کاجہاز بھی شامل ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پرنس کریم ا غا خان کے ا پرنس کریم ا غا خان کو کے اننچاسویں امام ا غا خان چہارم کریم الحسینی پرنس کریم کے انہوں نے ا پیدا ہوئے لوگوں کی انھوں نے کے مطابق جائے گا حاصل کی دیا تھا جاتا ہے ہے کہ ا کی عمر کے لئے کے بعد کر دیا اور ان ہے اور

پڑھیں:

محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے

 اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہر مسلمان کے لیے صرف نئے ہجری سال کی شروعات نہیں بل کہ ایک ایسا روحانی لمحہ ہے جو وقت کے مفہوم، زندگی کے نصب العین اور انسان کے رب تعالی کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو تازہ کرتا ہے۔

اسلامی تقویم کا آغاز کسی جشن یا دنیاوی مسرت کی علامت نہیں، بل کہ فکر و احتساب کی صدا ہے، جو ہر مومن کے دل میں یہ سوال جگاتی ہے کہ ایک اور سال گزر گیا، میں نے کیا پایا، کیا کھویا اور آئندہ کی راہ کیسی ہو ؟

قرآن مجید نے جن چار مہینوں کو اشہرِ حرم کا شرف عطا فرمایا، ان میں محرم الحرام کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مہینے صرف چند دنوں کا نام نہیں، بل کہ یہ اسلام کے اس معاشرتی پیغام کی علامت ہیں جو امن، عزتِ نفس، رواداری اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ اشہرِ حرم کی حرمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح صرف عبادات میں نہیں، بل کہ اخلاقی عظمت، سماجی ذمہ داری، اور باہمی رواداری میں بھی ہے۔

محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت ایک امانت ہے، جو پل پل گزر کر ہماری زندگی کی داستان رقم کر رہا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت اور فراغت ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس حدیث میں وقت کی اہمیت کو اس خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنا ہر لمحہ قیمتی سمجھنا چاہیے۔ محرم کا مہینہ ہمیں یہ شعور عطا کرتا ہے کہ ہم وقت کو بے مقصد نہ گزاریں، بل کہ ہر دن، ہر ساعت کو نیکی، خیر اور خدمتِ خلق سے روشن کریں۔

نئے ہجری سال کا آغاز تقویمی لحاظ سے اگرچہ سادہ سی تبدیلی ہے، لیکن روحانی اعتبار سے یہ ایک بڑی تبدیلی کا موقع ہے۔ یہ موقع ہے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا، اپنے تعلق مع اﷲ کو گہرا کرنے کا ہے۔ ایک مومن صرف اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم نہیں ہوتا، بل کہ آئندہ کے لیے عزمِ نو بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں قرآن و سنّت کو اپنی زندگی کا راہ نما بناؤں گا، سچ بولوں گا، وقت کی قدر کروں گا، معاشرے کے لیے خیر کا سبب بنوں گا، اور دنیا میں اسلام کے امن، محبت اور عدل کے پیغام کو عام کروں گا۔

محرم الحرام کا مہینہ ہمیں باطن کی تطہیر، نفس کی تہذیب، اور روح کی بالیدگی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صرف ظاہری عزت و وقار کا مہینہ نہیں، بل کہ ایک ایسا دورانیہ ہے جو انسان کو اس کی اندرونی حالت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر باشعور مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود سے یہ سوال کرے:

کیا میرا دل گناہوں سے پاک ہے؟

کیا میری نیت خالص ہے؟

کیا میری زبان دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہے؟

کیا میں دوسروں کے حق ادا کر رہا ہوں؟

کیا میں اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے آسانی کا ذریعہ ہوں؟

یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی فلاح کا پیغام بھی دیتا ہے۔ آج کا مسلمان جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت، افتراق و انتشار، اور باہمی بدگمانی ہے۔ محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک امت ہیں، اور امت کا شیرازہ صرف اس وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں، اختلاف کو افتراق نہ بنائیں، اور ہر حالت میں عدل و احسان کو اپنا شعار بنائیں۔

دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بل کہ حسنِ اخلاق، حسنِ سلوک اور حسنِ تعلقات بھی دین کا جوہر ہیں۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے صرف نماز، روزہ اور حج کی دعوت نہیں دی، بل کہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں نرمی، سچائی، خیر خواہی اور عدل کو بھی دین کا حصہ بنایا۔ محرم ہمیں اسی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ مہینہ معاشرتی خیر خواہی، اصلاحِ باطن، اور فکری بیداری کا موسم ہے۔

عبادت و بندگی کے اعتبار سے بھی محرم کا مہینہ بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ’’شہر اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کا مہینہ فرمایا اور اس میں روزہ رکھنے کی خاص تاکید کی۔ گو کہ عبادات کا دائرہ پورے سال پر محیط ہے، لیکن محرم کی روحانی فضا دلوں کو عبادت کی طرف کھینچتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان دنوں میں عبادات کے ذریعے اﷲ سے قرب حاصل کریں، دعا کریں کہ یا اﷲ! ہمیں اس نئے سال میں گناہوں سے بچا، نیکیوں کی توفیق دے، اور ہمارے دلوں کو ایمان، محبت، اور خیر سے منور کر۔

جو قومیں وقت کے ساتھ اپنے اہداف مقرر نہیں کرتیں، وہ اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔ محرم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے لیے ایک واضح لائحہ عمل بنائیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم خود کو قرآن کے قریب کریں گے، جھوٹ، غیبت، فریب اور بدگمانی سے بچیں گے، سماج میں نرمی، انصاف اور خیر کو فروغ دیں گے، اور اپنے ہر عمل کو رضائے الٰہی کے تابع بنانے کی سعی کریں گے۔

محرم الحرام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ روحانی بیداری کے بغیر سماجی فلاح ممکن نہیں، اور فرد کی اصلاح کے بغیر امت کی اصلاح ناممکن ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنے، اپنے کردار کو سنوارنے، اور معاشرے میں بھلائی عام کرنے کا سنہری موقع عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع کو رسمی تقویمی تبدیلی نہ سمجھیں، بل کہ اسے ایک بیداری، تجدیدِ عہد، اور عملی اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔

اﷲ رب العزت ہمیں اس مہینے کی روح کو سمجھنے، اس کے پیغام پر عمل کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو تقویٰ، اخلاص، اور حسنِ اخلاق سے مزین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ حق، ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام ہے ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
  • سانحہ سوات پر وزیراعلیٰ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، گورنر خیبر پختونخوا
  • سانحہ سوات پر وزیراعلیٰ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، گورنر خیبرپختونخوا
  • محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے
  • پاکستان کے لئےپہلاانٹرنیشنل گولڈ میڈل لانے والے کھلاڑی رخصت ہو گئے
  • لاہور: تنخواہوں کے بعد وزرا کی رخصت الاؤنس میں اضافہ کرنے کا فیصلہ
  • پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خدمات کے اعتراف کی تیاریاں
  • کے پاپ کا روشن ستارہ بجھ گیا، شم جے ہیون 23 برس کی عمر میں چل بسے
  • آزادکشمیر میں انصاف کی مثال: سپریم کورٹ نے جج کو سزا دے کر کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا
  • شناختی کارڈ بنوانا اب مزید آسان، نادرا نے عوام کے لیے نئی سہولت متعارف کرا دی