Jasarat News:
2025-11-05@01:50:40 GMT

بلاول وزیر اعظم کس قیمت پر؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

بلاول وزیر اعظم کس قیمت پر؟

جب ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کے سلسلے میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور سیاستدانوں کی آپس کی ملاقاتیں جوشیلے انداز میں جاری و ساری تھیں۔ اس میں مولانا فضل الرحمن بارات کے دولہا بنے ہوئے تھے وہ سب کی توجہ کا مرکز تھے۔ اسلام آباد میں ان کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا جہاں تمام ہی پارٹیوں کے ذمہ داران مولانا سے ملنے کے لیے صبح شام آتے جاتے رہتے تھے۔بلاول زرداری اس مہم میں بہت زیادہ پیش پیش تھے۔ وہ ایک دن میں مولانا فضل الرحمن سے دو دو بار ملاقاتیں کرتے تھے۔ کیونکہ مولانا نے سرکاری پارٹی کے پرجوش تحرک میں اس وقت رنگ میں بھنگ ڈال دیا جب حکومت نے تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو اسلام آباد میں روکا ہوا تھا کہ وہ جلد بازی میں اس ترمیم کو منظور کرانا چاہتے تھے۔ پھر اس جوش میں کچھ ٹھیرائو آیا اور حکومت نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا اور سوچا گیا کہ یہ ترمیم تمام اسٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لے کر منظور کی جائے۔ اس لیے سیاستدانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کو بھی انگیج کیا ہوا تھا۔ حکومتی وزراء کی طرف سے یہ دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں کہ ہمارے پاس نمبر پورے ہیں مولانا ساتھ نہ بھی آئیں ہم یہ ترمیم منظور کراسکتے ہیں۔

بہرحال چھبیسویں ترمیم منظور ہوگئی اور اس کی حمایت کرنے والے اور مخالفت کرنے والے دونوں کو یہ جانکاری حاصل تھی یہ ترمیم عدلیہ کو حکومتی کنٹرول میں لینے کی کوشش ہے ویسے یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی اظہار خیال کریں گے۔ فی الوقت تو اس تمہید کا اصل مدعا یہ ہے کہ اس پوری مہم میں بلاول زرداری جس طرح فعال تھے اور تمام سیاست دانوں سے زیادہ ان کی دوڑ بھاگ تھی۔ اسی زمانے میں کئی تجزیہ نگار تجزیوں میں یہ نکتہ اُجاگر کررہے تھے کہ طاقتور حلقوں کی طرف سے ایسے کچھ اشارات آصف زرداری کو مل گئے ہیں کہ اگلے وزیر اعظم بلاول زرادری ہوں گے بلکہ ساتھ ساتھ یہ بات بھی آرہی تجھی کہ باپ صدر اور بیٹا وزیر اعظم، یہ سیٹ اپ اندرون و بیرون ملک قبولیت نہ حاصل کرسکے، اس لیے پھر یہ بات آرہی تھی بلاول وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن صدر ہوں گے۔ 23 اکتوبر 2023 کو ایک مضمون بلاول ماموں بن گئے کے عنوان سے لکھا تھا اس کے کچھ اقتباس پیش کرنے کے بعد اپنی مزید بات کریں گے۔

بلاول زرداری کی بہن بختاور کے یہاں تیسرے بیٹے کے پیدائش ہوئی ہے اس طرح بلاول اپنے تیسرے بھانجے کے (یا تیسری دفعہ) ماموں بن گئے اور آصف زرداری تین نواسوں کے نانا بن گئے ویسے تو بلاول زرداری پہلے ہی دو مرتبہ (دو بھانجوں کے) ماموں بن چکے ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلاول کے تینوں بھانجوں کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین اس بات کو یہیں روکتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اب ہمارے کچھ صحافی، دانشور اور سیاستداں کیا کہہ رہے ہیں۔

’’26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بلاول زرداری کے اچانک فعال ہوجانے پر ایک محتاط تبصرہ کسی نے یہ کیا کہ شہباز شریف کے بارے میں ایک تاثر یہ تو پایا جاتا ہے کہ بہت اچھی اطاعت کرنے والے فرد ہیں لیکن انہوں نے کچھ ڈیلیور کرکے نہیں دیا اس لیے ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب کو یہ اشارے ملے ہوں کہ اگر چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو بلاول زرداری کے بارے میں کچھ سوچا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پیپلز پارٹی کو یہ تو معلوم ہے کہ وہ انتخابات جیت کر وفاق میں تو کبھی حکومت تو نہیں بنا سکتی وہ عملاً صوبہ سندھ کی جماعت بن کررہ گئی ہے اس لیے وہ اب مقتدر قوتوں سے جوڑ توڑ کرکے ہی وفاق میں کوئی مرکزی عہدہ حاصل کرسکتی ہے‘‘۔

’’15 اکتوبر کو بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے بلاول ہائوس میں کم و بیش چارگھنٹے تک مذاکرات کیے جس کا نتیجہ میڈیا کو یہ بتایا گیا پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں ترمیم کے حوالے سے اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ دوسرا اشارہ ہے بلاول زرداری کے وزیر اعظم بنائے جانے کا۔ پہلا اشارہ تو ان کا تحرک، دوسرا مولانا کا مان جانا میرا ذاتی خیال ہے اس کے لیے بلاول بہت کچھ پیچھے ہٹے ہوں گے اور مولانا نے بھی اپنے مستقبل کے خوشگوار جھونکوں کی سرسراہٹ میں کچھ لچک کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ چلتے چلتے ہم ایک اخبار ریاست کی شہ سرخی یہ کہہ کر لکھ رہے ہیں کہ دروغ بر گردن ریاست۔۔۔ کہ بلاول زرداری وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن صدر ہوں گے ن لیگ کو شدید تحفظات ہیں نواز شریف کو خدشہ ہے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کی انتخابی نشست اوپن کردی جائے گی‘‘۔

اوپر کے اقتباسات سے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ ترمیم کی منظوری کے بعد کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ وفاقی حکومت میں کوئی بڑی اور اہم تبدیلی آنے والی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج میں شدت کی وجہ سے یہ سوچا گیا کہ ایسے موقع پر کوئی نیا ارینجمنٹ کرنا مناسب نہیں ہے، جو سیٹ اپ بنا ہوا ہے ابھی اسی کو چلایا جائے۔ جب تک پی ٹی آئی کی عوامی اور سیاسی پوزیشن مضبوط ہے، فارم 47 پر قائم کمزور سے اقتداری ڈھانچے کو نہ چھیڑا جائے۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں بلاول کے ساتھ ہاتھ ہوگیا میں اس سے متفق نہیں ہوں اس لیے کہ صبر اور انتظار کی بھی ایک اہمیت ہوتی ہے، اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ بلاول کی فائل اوپر آگئی ہے۔ 26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی پوزیشن پہلے سے کمزور ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ رجیم چینج کا خطرہ مول لے لیا جائے۔ لاہور میں جلسے کی اجازت دے ہی دی جاتی پی ٹی آئی والوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے اتنے بڑے میدان کو بھرنا کوئی آسان کام نہیں جبکہ پنجاب کی تنظیم پہلے ہی اختلاف، انتشار اور تساہلی کا شکار ہے۔

ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ (پتا نہیں اس میں کتنی حقیقت ہے) کالا باغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضات و خدشات دور کردیے گئے ہیں اور اس پر کام شروع ہوگیا ہے بہرحال اس پر صدر صاحب بھی تیار ہوگئے صوبہ سندھ کے تحفظات دور کردیے گئے ہوں گے۔ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا جو اشو سامنے آیا ہے اس نے پورے صوبے میں بے چینی بڑھا دی ہے جماعت اسلامی سندھ نے بھی اس پر کل جماعتی کانفرنس بھی بلائی تھی۔ سندھ میں پانی کی قلت کے باعث زراعت تباہ ہورہی ہے سمندر میں میٹھا پانی نہ جانے کی وجہ سے سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور سالانہ سیکڑوں ایکڑ اراضی سمندر برد ہورہی ہے مزید یہ کہ سندھ سے نہریں نکال کر اسے خشک سالی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، بہرحال کوئی قیمت تو ادا کرنی ہے۔ ایک زمانے میں پی پی پی خود پیکا ایکٹ کی شدید مخالفت کررہی تھی اب جب ان کے پاس بل آیا تو انہیں چاہیے تھا کہ اس متنازع بل کو مزید مشاورت کا کہہ کر روک لیتے جس طرح انہوں نے مدرسے کی رجسٹریشن والا بل روکا تھا لیکن انہوں نے ایک اچھے بچوں کی طرح خاموشی سے بغیر کسی تاخیر کے اس پر دستخط کردیے۔ پیر کے اخبارات میں کراچی کی بندرگاہ کی اربوں روپوں کی اراضی پر قبضہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں 350 ایکڑ پر سندھ حکومت کا قبضہ ہے، کے پی ٹی کی 1448 اور پورٹ قاسم کے 30 ایکڑ پر جو تجاوزات ہیں اس میں سندھ حکومت، سیاستدان اور دیگر لینڈ مافیائیں ملوث ہیں۔ یہ کیس بھی سندھ حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے شاید ہو ابھی سندھ حکومت کی وضاحت آنا باقی ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ بلاول زرداری کو وزیر اعظم کی سیٹ پر براجمان دیکھنے کے لیے آصف زرداری اور کتنی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

آخری بات: 26 ویں ترمیم اور پیکا ایکٹ کی من و عن کی منظوری پر ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں 300 فی صد اضافہ کرکے انہیں انعام دیا گیا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ بے چوں و چراں بل کے حق میں ہاتھ اٹھانے کی قیمت وصول کرلی گئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن بلاول زرداری سندھ حکومت پی ٹی ا ئی اس لیے تھا کہ ہوں گے کے لیے ہیں کہ کی طرف

پڑھیں:

وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست

پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف نے کی، نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اور مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پی پی پی کی حمایت کی درخواست کی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی تفصیلات اپنے سرکاری ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر شیئر کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وفد نے آئینی ترمیم سے متعلق تجاویز پیش کیں، جن میں کئی اہم اور حساس نکات شامل ہیں۔

بلاول بھٹو کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر آصف علی زرداری اور مجھ سے ملا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں تعاون کی درخواست کی۔ مجوزہ ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق:

آئینی عدالت (Constitutional Court) کا قیام،

ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی،

ججوں کے تبادلے کا اختیار،

این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ،

آرٹیکل 243 میں ترمیم،

تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا،

اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی تقرری پر جاری ڈیڈ لاک ختم کرنا شامل ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ ان تجاویز پر غور کے لیے پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ (CEC) کا اجلاس 6 نومبر کو طلب کیا گیا ہے، جو صدر آصف علی زرداری کے دوحہ سے واپسی پر منعقد ہوگا۔ اجلاس میں پارٹی کی حتمی پالیسی طے کی جائے گی۔

PMLN delegation headed by PM @CMShehbaz called on @AAliZardari & myself. Requested PPPs support in passing 27th amendment. Proposal includes; setting up Constitutional court, executive magistrates, transfer of judges, removal of protection of provincial share in NFC, amending…

— Bilawal Bhutto Zardari (@BBhuttoZardari) November 3, 2025

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں آئینی اصلاحات اور ادارہ جاتی اختیارات کے موضوع پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے نے کہا تھا کہ اگر 27 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام پر کھل کر بات ہونی چاہیے اور انہیں آئینی تحفظ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات مقررہ مدت میں لازمی ہوں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مقامی حکومتوں کے قیام سے متعلق متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی کاکس میں 80 سے زائد اراکین شامل ہیں، جن میں سے 35 اپوزیشن کے ہیں، جبکہ احمد اقبال چوہدری، رانا محمد ارشد اور علی حیدر گیلانی نے اہم کردار ادا کیا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ قرارداد میں سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 140-اے میں مقامی حکومتوں کے قیام کے وقت کا تعین کرے، اور مقامی حکومتوں کو مالی و انتظامی اختیارات دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ لوگوں کا ملک 15 سو نمائندوں سے نہیں چل سکتا، اگر عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل نہ ہوئے تو جمہوریت پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔

اسپیکر نے کہا کہ ملکی تاریخ کے 77 برس میں قریباً 50 سال مقامی حکومتیں موجود ہی نہیں رہیں، جس سے عوامی مسائل حل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر صفائی، قبرستان اور پانی جیسے مسائل حل نہ ہوں تو عوام کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتا ہے۔

ملک محمد احمد خان نے توقع ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی بھی آرٹیکل 140-اے کی اہمیت کو سمجھیں گی۔

مقامی حکومتوں سے متعلق متفقہ منظور کی گئی قرارداد کے اہم نکات؟

پنجاب اسمبلی نے مقامی حکومتوں کو آئینی قرار دینے کے لیے قرارداد وفاق کو ارسال کر دی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں نیا باب شامل کیا جائے۔

مزید پڑھیں:الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا

پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہوئی قرارداد سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکرہٹری سینیٹ کو ارسال کی گئی، قرارداد احمد اقبال اور علی حیدر گیلانی نے متفقہ طور پر پیش کی تھی، صوبائی ایوان نے آئین کے آرٹیکل 140 A – میں ترمیم کی تجویز دے دی۔

قرار داد کے متن کے مطابق آئین میں ایک نیا باب مقامی حکومتوں کے نام سے شامل کیا جائے، مقامی حکومتوں کی مدت اور ذمہ داریوں کی آئینی وضاحت کی سفارش کی گئی، مقامی حکومتوں کے انتخابات 90 روز میں کرانے کی شرط تجویز کی گئی۔

متن کے مطابق منتخب نمائندوں کو 21 دن میں اجلاس منعقد کرنے کا پابند کیا جائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں منتخب بلدیاتی ادارے صرف دو سال چل سکے، با اختیار، با وسائل بلدیاتی نظام کا قیام ناگزیر ہے، بروقت بلدیاتی انتخابات اور مؤثر سروس ڈیلیوری ضروری ہے۔

قرارداد میں وفاق سے آرٹیکل 140A-  میں فوری ترمیم کی درخواست کی گئی، سپریم کورٹ نے مقامی حکومتوں کو جمہوریت کا بنیادی حصہ قرار دیا، پاکستان میں بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں ہے، بلدیاتی قوانین میں بار بار تبدیلیاں اداروں کی کمزوری کا سبب ہیں۔

متن میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کی مثالیں موجود ہیں، چارٹر سی پی اے نے بھی مقامی حکومتوں کو با اختیار بنانا لازم قرار دیا تھا، الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022 میں آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی سفارش کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرانا مشکل ہوگا، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یہ براہِ راست سیاسی رابطہ کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم کی منظوری کیلئے ن لیگ نے حمایت مانگی ہے : بلاول 
  • وزیراعظم کی پی پی سے 27 ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست، بلاول نے تفصیلات جاری کردیں
  • 27ویں آئینی ترمیم کے باضابطہ ڈرافٹ پر اب تک کوئی کام شروع نہیں ہوا: وزیر مملکت برائے قانون
  • وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کےلئے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
  • وزیرِاعظم نے پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست کی ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • وزیراعظم کی زیرصدارت لیگی وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کیلیے تعاون مانگا، بلاول بھٹو کا انکشاف
  • وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست
  • وزیراعظم نے 27ویں آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست کی، بلاول بھٹو زرداری کا انکشاف
  • وزیراعظم نے27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے پیپلزپارٹی کی حمایت مانگی ہے، بلاول بھٹو
  • چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول  بھٹو نے لیگی وفد سے ملاقات کی اندرونی کہانی  بتا دی